کیا میں پاکستانی نہیں ہوں؟



آئے دن زندگی میں بہت سارے ایسے چھوٹے بڑے واقعات و حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے بعد اکثر میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا میں پاکستانی نہیں ہوں۔

میں: یار مختیار، مجھے ذرا بینک کے پاس اتار دینا۔
مختیار: یار، فِکرمت کرو۔ تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔
میں: نہیں یار مجھے پانی کا بِل جمع کروانا ہے۔
مختیار: (قہقہہ لگاتے ہوئے) یار عجیب بات کرتے ہو۔ بھلا پاکستان میں کوئی پانی کا بل بھی ادا کرتا ہے۔
مختیار کے اس جملے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کیا میں پاکستانی نہیں ہوں کیوں کہ میں ہر ماہ بغیر ناغہ پانی کا بل ادا کرتا ہوں۔
(۔۔۔۔۔)
میں: سر،پلیز لائیٹ کے بل کی قسط بنا کر دیں۔
حیسکو کلرک: (بل غور سے دیکھتے ہوئے) یہ بل تو اسی ماہ کا ہے۔ ابھی تو تاریخِ آخر بھی نہیں آئی۔آپ کا بجلی کا کنیکشن منقطع کیا گیا ہے کیا؟
میں: نہیں جناب۔ لیکن مجھے توبل جمع کروانا ہے۔ اسی وجہ سے جتنا جلدی ہو سکے اتنا ہی بہتر ہے۔
حیسکو کلرک: عجیب آدمی ہیں آپ بھی۔بھئی پاکستان میں تو جب تک بجلی کا کنکشن منقطع نہیں ہوتا تب تک لوگ ایک ہزار بھی ادا نہیں کرتے۔
بل کی قسط ہو گئی۔ اور میں پھر سے سوچنے لگا کہ کیا میں پاکستانی نہیں ہوں؟
(۔۔۔۔۔)
ایک مرتبہ پانی کی موٹر چلا کر سو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو گلی میں اچھا خاصا پانی جمع ہو گیا تھا۔ دماغ میں خیال آیا کہ خواہ مخواہ بیچارے محلے والوں کو میری وجہ سے تکلیف ہو گی تو وائیپر اٹھا کر خود ہی گلی میں پانی پھیلانے لگا تا کہ دھوپ میں پانی پھیل کر جلد سوکھ جائے۔
ایک محلے دارنے آ کر کہا  ’ارے پروفیسر صاحب، اتنا تکلف کیوں کر رہے ہیں۔ چھوڑ دیں۔ پانی خود ہی سوکھ جائے گا۔ آپ کیوں خواہ مخواہ اتنی تکلیف کر رہے ہیں؟‘
میں: جناب، میری وجہ سے محلے والوں کو تکلیف نہ ہو اسی خاطر خود ہی صاف کرنے میں لگ گیا۔‘
محلے دار: جناب آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ یہ پاکستان ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنی تکلیف کے بارے میں سوچ کر دوسروں کو تکلیف دیتا ہے۔ اور آپ ہیں کہ محلے والوں کی تکالیف مدِنظر رکھ کر خود صفائی میں لگ گئے۔
اور میں سوچنے لگا کیا میں پاکستانی نہیں ہوں؟
(۔۔۔۔۔)
ایک مرتبہ جنرل اسٹور پر زوجہ محترمہ کے ساتھ خریداری کرنے گیا۔ خریداری پوری کرنے کے بعد سامان اسکین کروانے اور بل کی ادائیگی کے لیے قطار میں اپنی باری آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس دن اتفاق سے معمول سے زیادہ رش تھا۔ دو نوجوان مجھے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیلیاں (جن میں غالبا ان کا خریدا ہوا سامان تھا) دکھاتے ہوئے مجھ سے آگے جا کر اپنا سامان اسکین کر وا کو بل کی ادائیگی کر کے چلے گئے۔
ان میں سے ایک نوجوان نے جاتے ہائے مجھے کہا  ’بھائی صاحب، یہ پاکستان ہے‘

یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب مجھے یہ جملا سننے کو ملا ہو۔ ہر بار جب کبھی میں ایک قانون کی پاسداری کرنے والا ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے کوئی ایسا کام کرتا ہوں جو کہ میری عقل کے مطابق مجھے کرنا چاہیے تب ہر بار مجھے یہی جملہ سننے کو ملتا ہے۔ اور ہر مرتبہ میں یہی سوچتا رہ جاتا ہوں ’کیا میں پاکستانی نہیں ہوں‘ یا ’اگر میں پاکستانی نہیں ہوں تو پھر میں کہاں رہتا ہوں‘؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).