جناب وزیر اعظم ! مان جائیے کہ آپ شکست تسلیم کر چکے


ننکانہ صاحب میں بابا گرونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان ایک شکست خوردہ، تھکے ہوئے اور طوفان میں گھرے بے بس شخص کی ماننددکھائی دیے۔ ان کی حالت ایک ایسے شخص کی سی تھی جو سرکش لہروں کے سامنے بے بسی میں ادھر ادھر کی ہانک کر خود کو حوصلہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔

 وزیر اعظم ایک تعلیمی ادارے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اگر اپنی گفتگو تعلیم، اقلیتوں کے ساتھ تعلقات، کشمیر یا ایسے دیگر امور تک محدود رکھتے جن پر بظاہر کوئی بڑا اختلاف موجود نہیں ہے تو یہ ان کی سیاسی عالی ظرفی اور استقامت کا ثبوت ہوتا۔ تاہم اس موقع کو سیاسی تفرقہ، طعنے بازی ، الزام تراشی اور’ کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کے ٹکسالی جملے دہرا کر انہوں نے اپنے خوف اور شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔ یہ وہ عمران خان نہیں تھے جن کو دیکھتے ہوئے 2014 کے دھرنے میں اپنے ہیرو کے سحر میں مبتلا نوجوان محو رقص ہوتے تھے۔

یہ گمان کرنا ناقابل یقین ہے کہ عمران خان جو چند روز پہلے ہی اپنے مضبوط اعصاب کا حوالہ دے کر اپوزیشن کو چیلنج کررہے تھے ، آزادی مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے دو روز پہلے ہی اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوجائیں گے کہ انہیں ایک پبلک پلیٹ فارم پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی آبزرویشن کا جواب دینے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ عمران خان اگر غور کرسکتے کہ ان کی موجودہ مشکل کی کیا وجہ ہے اور وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے انہیں بے بسی اور ناکامی کا اس قدر شدید احساس ہورہا ہے کہ وہ باآواز بلند خود کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ’نہیں میں تو کامیاب ہوں‘۔ سیاست دان اور ملک کے وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ عوام کے منتخب نمائیندوں سے اعتماد کا ووٹ لے کر حکومت کے سربراہ بنے تھے لیکن وہ اسی پارلیمنٹ پر بھروسہ کرنے اور اس کا اعتماد جیتنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

چند روز پہلے چنیدہ صحافیوں اور اینکرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے آزادی مارچ کو ناکام سعی قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہ اس لئے احتجاج اور دھرنا کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے پورے یقین سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیوں کہ انہیں 126 دن تک طویل دھرنا دینے کا تجربہ ہے۔ دھرنا دینے اور پھر اسے کسی غیبی اشارے پر سمیٹنے کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اگر عمران خان یہ بھی یاد کرلیتے کہ میاں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم وہ کون سی حکمت عملی اختیار کی تھی جس کی وجہ سے ، عمران خان کو تاحیات دھرنے کے دعوؤں سے یو ٹرن لیتے ہوئے ، آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کے بعد اسے ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ وہ یہ غور کرلیتے تو وہ یہ جان سکتے کہ دسمبر 2014 میں امپائر کو اپنی اٹھی ہوئی انگلی کیوں نیچے کرنا پڑی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نواز شریف نے عوام کے نمائیندوں پر اعتماد کیا اور اپنی سیاسی انا کو نظر اندازکرتے ہوئے تمام اپوزیشن سے مدد کی درخواست کی۔ لیکن عمران خان انہی پتوں پر تکیہ کررہے ہیں جو برا وقت آنے پر ہوا دینے لگتے ہیں۔

پاکستان کو جن اقتصادی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے، وہ اس ملک کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم ماضی میں سیاست دان تو ایک طرف ملک پر فوجی حکومت مسلط کرنے والے جرنیلوں نے بھی معیشت کے پہیے کو رواں رکھنے کے لئے سیاسی عناصر سے امداد لینا ضروری سمجھا تھا۔ عمران خان نے اس بنیادی سیاسی سبق سے گریز کرتے ہوئے نیا آموختہ ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے سوا سب کو ملک دشمن ، چور اچکے قرار دیں گے اور صرف فوج کے ساتھ اشتراک عمل کی ایک نئی توجیہ کے ساتھ ملک کو درپیش مسائل کا مقابلہ کریں گے۔ ان کی یہ حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ کسی بھی معیشت کو پھلنے پھولنے کے لئے اعتبار اور یقین درکار ہوتا ہے جوبین الجماعتی مفاہمت اور تعاون سے ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے  سیاسی تصادم کے ایک نئے اور افسوسناک چلن کے ذریعے اس یقین کو بے اعتباری میں تبدیل کردیا ہے ۔

تحریک انصاف کی حکومت نے سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور سب سابقہ اپوزیشن لیڈروں کو بدقماش اور لٹیرے قرار دے کر ان سے ’حساب‘ لینے اور لوٹی ہوئی کثیر دولت واپس لا کر ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ جب یہ خواب نقش بر آب ثابت ہوئے تو بھی تعاون اور مصالحت کا کوئی دروازہ کھولنے کی بجائے، قومی مصالحت اور بہبود کے ’میثاق معیشت‘ جیسے منصوبے کو این آر او کی عرضداشت قرار دیا۔ کسی کو ’این آر او نہیں دوں گا‘ کا اعلان اس تواتر سے کیا گیا ہے کہ عوام کی اکثریت یہ سوچنے پر مجبور ہوچکی ہے کہ عمران خان کرپشن پر معاف نہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں یا اپنی بے اعتدالیوں اور ناکامیوں کی پردہ داری کے لئے این آر او کا راگ الاپتے ہیں۔ جوں جوں معاشی اشاریے کمزور، لوگوں کی مالی حالت پتلی اور روزگارو سماجی سہولتوں کے حالات دگرگوں ہوں گے، توں توں یہ قیاس یقین میں بدلتا جائے گا کہ عمران خان این آر او کے بے بنیاد اور غیرواضح نعرے سے اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کررہے ہیں۔

حکومت معیشت کی کمزوری کو اپنی پالیسیوں کی ناکامی سمجھنے اور ان کے حل کے لئے مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے یہ یقین کئے ہوئے تھی کہ اس نے جس طرح بادشاہ گروں کی جادو گری سے سیاست دانوں کو دیوار سے لگایا گیا ہے، اسی طرح وہ اپنی طاقت اور زور آور سرپرستوں کی سرزنش سے سرمایہ دار کو بھی تابعداری پر مجبور کرسکتی ہے۔ یہ تصور منڈی میں سرمایے کی حفاظت اور پیداواری صلاحیت کی بنیادی ضروت پوری نہیں کرتا۔ ہر سیاسی مخالف کی پگڑی اچھالنے والی حکومت ملک میں وہ ماحول پیدا نہیں کرسکی جو پیداواری صلاحیت میں فروغ کی حوصلہ افزائی کا موجب بنتا۔ جب اس حکمت عملی پر حرف شکایت زبان پر لایا گیا تو آرمی چیف نے سرمایہ داروں کو حکومت پر اعتبار کرنے اور موقع دینے کی ہدایت کی۔ سرمایہ دار کسی عسکری کمانڈر کے سامنے زبان دراز نہیں کرتا لیکن وہ سرمایہ وہیں لگاتا ہے جہاں اسے یقین ہو کہ اسے منافع بھی ہوگا اور سہولتیں بھی حاصل ہوں گی۔ جب ریاست کے بے لگام واچ ڈاگ کے ہاتھ سرمایہ دار کی جیب اور گردن تک پہنچے ہوئے ہوں تو سب سے پہلے سرمایہ ہی اڑنچھو ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نے آج ننکانہ صاحب میں قرار دیا ہے کہ ’اپوزیشن کو صرف یہ پریشانی ہے کہ حکومت کامیاب ہورہی ہے۔ عالمی ادارے معاشی استحکام کی خبریں دے رہے ہیں ۔ اب سب لٹیرے اپنی بدعنوانی چھپانے اور لوٹ کا مال بچانے کے لئے آزادی مارچ کا ڈھونگ کررہے ہیں‘۔ آزادی مارچ کی کامیابی کا انحصار لوگوں کی شرکت اور اس کی مقبولیت پر ہے۔ اگر ملکی معیشت عام لوگوں کے مصائب میں اضافہ کی بجائے کمی کا سبب بن رہی ہوتی تو کسی بھی اپوزیشن لیڈر کو حکومت قائم ہونے کے ایک سال کے اندر ہی احتجاج کا ڈول ڈالنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔

 مولانا فضل الرحمان کی گھن گرج اور عمران خان کی بدحواسی دراصل ایک ہی تصویر کو مکمل کررہی ہیں ۔ کہ ملک کے عام گھر کا بجٹ غیر متوازن ہوگیا ہے اور لوگوں کی قوت خرید میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ عمران خان جن عالمی اداروں کے اشاریوں کا حوالہ دے رہے ہیں ، یاوش بخیر وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر انہی اداروں کو ملکی معیشت تباہ کرنے کاسبب قرار دیتے تھے۔ اب آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سرٹیفکیٹ لا کر وہ کیوں کر بھوکے عوام کا منہ بند کرسکتے ہیں۔

بستر مرگ پر پڑے شدید علیل نواز شریف کے حوالے سے انسانیت سے گرا ہؤا یہ جملہ ’ میں کسی کی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ بھی ہائی کورٹ کے مافی الضمیر کو گمراہ کن انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔ اس طرح وزیر اعظم نے اپنی منتقم مزاجی اور نخوت کا بدتر نمونہ پیش کیا ہے۔ ان کی باتوں سے واضح ہؤا ہے کہ ان کے لئے سیاست عوامی خدمت کا طریقہ نہیں بلکہ ذاتی انتقام کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی سیکرٹری داخلہ اور صوبائی حکومت کے نمائندے سے یہ دریافت کیا تھا کہ آئینی و قانونی اختیار کے باوجود وہ کیوں اس معاملہ کا بوجھ عدالت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ صوبائی حکومت اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو طبی بنیادوں پر رہا کرنے کا فیصلہ کیوں نہیں کرتی؟ وزیر اعظم کا یہ اصرار کہ وہ کیوں کر کسی کی زندگی کی ضمانت لے سکتے ہیں ، دراصل اپنی قانونی ذمہ داری سے فرار کا اعلان ہے۔

ملک کی اپوزیشن اگر واقعی اپنے لیڈروں کی بدعنوانی کو چھپانے کے لئے ’آزادی مارچ‘ کی آڑ لے رہی ہے تو حکومت کو اس پر کیا پریشانی ہے۔ کیا عوام خود ایسے لٹیروں کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ اگر اپوزیشن کا احتجاج محض ڈھونگ ہے تو وزیر دفاع کی سرکردگی میں اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے کمیٹی کا قیام، کیا اس بات کا اعتراف نہیں تھا کہ مدینہ ریاست کی داعی حکومت بھی بدعنوانی کو تسلیم کرنے پر راضی ہوگئی ہے۔ کیا یہ اقدام ’این آار او‘ دینے کی بھونڈی کوشش نہیں تھی۔

 اپوزیشن کو احتجاج نہ کرنے پر آمادہ کر نے میں ناکامی کے بعد وزیر اعظم ایک بار پھر این آار او کا گھساپٹا نعرہ سامنے لائے ہیں۔ ان کے لہجے میں شکست خودگی ہے لیکن وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کسی حکومت کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali