بیوی کا دل کیسے جیتا جائے؟


انہوں نے یہ کہہ کے میرا دل موہ لیا کہ تم اب میرا حصہ ہو، میرا مستقبل ہو، تم میرے لئے آئی ہو، میرا گھر بنانے سو اب تمہارا تحفظ میری ذمہ داری ہے۔ میں تمہیں کچھ باتوں سے پہلے ہی محتاط کرنا چاہتا ہوں تاکہ تمہاری طبیعت بوجھل نہ ہو۔ مجھے اپنی ماں اور بہنوں سے محبت ہے کہ ہم ایک ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں لیکن میں تم سے بھی محبت کا رشتہ باندھ چکا ہوں سو کچھ باتیں بتانا میری ذمہ داری ہیں۔ بڑی آپا مزاج کی بہت تیکھی ہیں، طنز کرنے کا بہت شوق ہے، سو کوئی موقع جانے نہیں دیں گی۔ منجھلی باجی بھی ہر وقت تمہاری ٹوہ میں رہیں گی اور چھوٹی سے تو بہت ہی ہوشیار رہنا، تمہاری ہر بات اماں کو جڑے گی۔ رہیں اماں تو تمہارے ساتھ اب ان کا شراکت کا رشتہ ہے۔ سو تھوڑا مشکل ان کے لئے بھی ہو گا، بیٹے کی محبت بانٹنا۔ لیکن تم صرف میرا یقین رکھنا اور دوبدو مقابلے پہ مت اترنا۔ ان کی بھی سنوں گا اور تمہاری بھی لیکن میں تمہارا مقام کبھی متاثر نہیں ہونے دوں گا اور ان کو بھی تمہیں اذیت نہیں دینے دوں گا ”

وہ مسکرائی ”اور اب میں ایک لحظہ بھی ان کے بنا نہیں رہ سکتی“

ہمارے الفاظ گم ہو چکے تھے، آواز حلق میں پھنس چکی تھی۔ بڑی مشکل سے سوال کیا، ”بیٹا! اس عمر میں ازداجی زندگی کی غلام گردشوں کے تاریک راز تم نے کیسے سمجھے“

وہ مسکرایا ”میرا بچپن مشترکہ خاندانی نظام میں گزرا۔ گھر میں پھوپھیاں بھی تھیں اور دادی بھی اور میں نے اپنی ماں کو ان کے ہاتھوں زچ ہوتے دیکھا۔ ابا دفتر سے آتے اور جھوٹی شکایات کا دفتر کھل جاتا۔ ابا دفتر کی تھکاوٹ اور ماں بہنوں کی شکایات کا ملبہ اماں پہ گراتے اور اماں کی بات بے مول ٹھہرتی۔ اماں خون کے آنسو روتیں اور ہم بہن بھائی خاموش تماشائی بنتے۔ وہی شیر بن کے گرجنے والے ابا رات کے اندھیرے میں اماں سے معافی کے خواستگار ہوتے کہ نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوتا لیکن کب تک؟ آہستہ آہستہ اماں ابا سے دور اور خاموش ہوتی گئیں۔ سر جھکا کے زندگی گزارتی رہیں۔ وقت گزرا، دادی عالم بالا کو سدھار گئیں۔ مگر پھوپھیوں نے اپنے گھروں میں جا کے بھی میکے میں طاقت کی سیاست نہیں چھوڑی۔

ابا اور اماں میں برسوں کی دوری تھی اور ان تمام برسوں کی تلخیوں نے اماں کا مزاج کڑوا کر دیا تھا۔ اماں نے بچوں میں دل لگا لیا تھا اور ابا اب تنہائی کا شکار تھے۔ اب ابا کی زندگی کا ساتھی ابا سے صدیوں کی دوری پہ کھڑا تھا۔ وہ سب برس جب محبت کا بیج بویا جانا تھا اور بڑھاپے میں جس کی چھاؤں نے دونوں ساتھیوں کو پناہ دینی تھی، کیکٹس میں بدل چکا تھا۔

پھر میں ملک سے باہر آ گیا اور بدلتے برسوں میں محسوس کیا کیا میری ماں نادانستگی میں دادی کا رستہ اپنا چکی ہیں۔ بیٹے سے وابستہ معاشیات بھی اس کھیل میں بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ بیٹا تو اپنا ہی رہتا ہے لیکن اس کے بیوی بچوں سے شراکت مشکل۔ اور اس سب میں بنیادی نقصان مرد کا ہوتا ہے۔ شباب عمری میں خونی رشتوں کی محبت وہ فیصلے کروا دیتی ہے جس کا خمیازہ آ خر عمر میں بھگتنا پڑتا ہے۔ پدرسری معاشرے میں بیوی جو ساری عمر تاوان دیتی ہے، آخر عمرمیں بچوں کے ذریعے طاقت چھین کے شوہر کو ایڑیاں رگڑنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ اور یہ وہ آتش فشاں ہے جس سسرال اور شوہر مل کے برسوں سلگاتے ہیں ”

وہ پھر گویا ہوا،

” میں نے بہت پہلے سوچ لیا تھا مجھے اپنی زندگی کے ساتھی کو ناراض نہیں کرنا۔ میں والدین کے حقوق بھی پورے کروں گا لیکن اپنے من کی ساتھی کے ساتھ بھی مرضی کی زندگی گزاروں گا۔ مجھے ازدواجی زندگی کی لذت کشید کرنی ہے۔ مجھے دن میں اپنے ساتھی کو بے عزت کرنا اور رات کے اندھیروں میں اس سے معافی نہیں مانگنی۔ میں اپنی ماں کے ساتھ اپنے بچوں کی ماں کو بھی عزت دینا چاہتا ہوں“

ہم ہک دک چہرہ لئے اس نوجوان کو دیکھ رہے تھے جس نے صرف بتیس برس میں وہ گیان وعرفان پا لیا تھا جو کچھ لوگ اک نا آسودہ عمر بسر کرنے کے بعد بھی نہیں پا سکتے اور یونہی دنیا کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ پہلی کہانی معاشرے کی نوے فیصد عورتوں کی کہانی ہے اور دوسری شاید پانچ فیصد کہ توازن قائم رکھنا کوہ طور کو سر کرنے کے مترادف ہے۔

ایک دلچسپ بات سناتے چلیں جو ہمارے کزن طیب کاظمی نے ہمیں کبھی سنائی تھی

” اگر آپ چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں شوہر کی چارپائی ڈیوڑھی میں نہ بچھے تو جوانی میں اپنی بیگم کو اپنا بنا لیجیے“

بازی گر کی طرح تنے ہوئے رسے پہ توازن قائم رکھنے میں ہی زندگی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2