ہاتھی کی سونڈ اور کاشت کار کے گنّے


\"asif-farrukhi_1\"اس دن کی چہل پہل دیکھنے کے لائق تھی۔ گرمی کی لمبی اور اُکتاہٹ سے تھکا دینے والی چھٹّیوں کے بعد یونیورسٹی دوبارہ کُھل رہی تھی۔ جن برآمدوں میں سناٹا گونجا کرتا تھا، آج طالب علموں سے بھرے ہوئے تھے۔ نوجوان، پُرجوش، کچھ گھبرائے ہوئے اور کچھ خوشی کے مارے بے قابو۔ جدھر دیکھو یہ نوعمر لوگ جوق در جوق نظر آرہے تھے۔ کوئی پرانے دوستوں سے مل رہا ہے، کوئی نئے سمسٹر کے کورسز کی فکر میں مُبتلا ہے، کسی کو نئے چہروں سے تعارف کی بے چینی ہے، کسی کو وہ کمرہ نہیں مل رہا جہاں چند لمحوں کے بعد کلاس شروع ہونے والی ہے۔ غرض کہ خوب گہما گہمی تھی۔ اس دوران اگر کوئی شخص موجود نہیں ہے تو اس کی کمی بھلا کیسے محسوس کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ اس نے اپنی موجودگی کا احساس بھلا کب دلایا تھا۔

وہ دن تو اسی رونق میں گزر گیا۔ اس کے اگلے دن صبح میرے دفتر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ کچھ گھبرایا ہوا سا باہر کھڑا تھا۔ جیسے اندر آنے کی ہمّت نہ کر پا رہا ہو۔ یہ تو فوراً پہچان گیا کہ یہ نیا طالب علم نہیں ہے، اسے اب سیکنڈ ایئر میں ہونا چاہئے۔ میں ذہن پر زور ڈالنے لگا کہ اس کا نام کسی طرح یاد آجائے۔

اس ہفتے میں تقریباً سوا دو سو نئے طالب علموں کو کیمپس میں آتے جاتے دیکھوں گا اور ان کے نام یاد رکھنے کی کوشش کروں گا جو اس بار میرے سیکشن میں ہیں۔ یہ بھی اچھی خاصی مشقّت کا کام ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلے سال کے طالب علموں کے نام بُھلا دوں۔ کیا نام تھا بھئی۔۔۔ اچھا بھلا نام تھا اس کا۔۔۔

میں نے اس سے کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا تو وہ بیٹھ گیا مگر بات شروع کرتے ہی اس کا لہجہ معذرت خواہانہ کیوں ہوگیا۔

’’سر، میں کل نہیں آ سکا۔ آپ نے کلاس میں میرے نہ آنے پر بُرا تو نہیں مانا؟‘‘

وہ کہے جا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس کو کیسے باور کرائوں کہ اس کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ مگر اتنے میں اس نے اصل مسئلہ اُگل دیا۔

’’میں نے یہ کورس لینے کا فیصلہ نہیں کیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کورس نہ لوں اور پوری ٹرم ڈراپ کردوں۔۔۔‘‘ وہ تیزی سے تھوک نگلتے ہوئے بول رہا تھا۔

اب کی حیران ہونے کی میری باری تھی۔ ’’پوری ٹرم ڈراپ؟ مگر کیوں؟‘‘

’’ہمارے حالات وہ نہیں رہے۔۔۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا، پھر چُپ ہوگیا۔

ایک گلاس پانی کے بعد اس نے جو بتایا وہ میرے لیے حیران کن بھی تھا اور افسوس ناک بھی۔

’’میرے ابّو بہت پریشان ہیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں اس وقت۔۔۔ بعد میں آجائیں گے۔ تب تک میں کیا کروں؟ سوچ رہا ہوں کہ ان کے ساتھ کام کرنے لگوں۔۔۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ تھوڑا حوصلہ ہوا تو اس نے اپنا ماجرا بیان کیا۔

پھر اس نے سندھ کے ایک چھوٹے سے ضلع کا نام لیا۔ میں اس ضلع سے واقف تھا اور چند سال پہلے اپنے کام کے سلسلے میں میرا وہاں آنا جانا ہوا کرتا تھا۔ ’’ہماری وہاں پر زمینیں ہیں۔ ہم گنّا اگاتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ بتا رہا تھا۔ ’’جدھر ہماری زمینیں ہیں، اس کے تین طرف شوگر مل ہیں جو فُلاں کے ہیں۔۔۔‘‘ اس نے ایک نام لیا جس سے میں واقف تھا۔ ’’وہ گنّے کی فصل کہیں اور نہیں جانے دیتے۔ اپنے مل میں لے جاتے ہیں۔ پھر جب تک پیسے نہیں ادا کریں، ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہم تو بڑے مجبور ہوگئے۔۔۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

اس کی بکھری ہوئی باتوں جو احوال میں معلوم کرسکا وہ کچھ اس طرح ہے__ اس ضلعے میں پانی اچھا ہے۔ اس لیے زمین زرخیز ہے، فصل اچھی ہوتی ہے۔ زمین کی قیمت پچیس لاکھ فی ایکڑ کے لگ بھگ ہے جو اس کے مطابق شمالی سندھ سے زیادہ ہے۔ وہاں گنّے کی فصل خوب ہوتی ہے، اس لیے زیادہ تر وہی اگایا جاتا ہے۔ ’’شوگر مل کے مالک گنّا لے لیتے ہیں پھر رقم کی ادائیگی کا مرحلہ لمبا ہو جاتا ہے۔ سب کے لیے ضروری ہے کہ گنّا ان ہی کو دیں۔ کسی اور کو دینے کی مجال نہیں ہے۔ پچھلی دفعہ انھوں نے ریٹ کم لگایا تھا لیکن اس سال فصل کم ہوئی ہے۔ اب شوگر مل کو تو گنّا چاہیے۔ ان کو اپنی running cost بھی تو پوری کرنا ہے۔ اس چکّر میں ہم مارے گئے۔۔۔‘‘ وہ مجھے بہت تفصیل سے بتا رہا تھا۔

’’فروری میں رقم ادا کرنا تھی۔ مگر انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب کے ساتھ ہوا ہے۔ سب پھنسے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔

اس نے بتایا کہ ایسے معاملوں میں پولیس کا کیا کردار ہے۔ زمینوں سے باہر جانے والے راستے پر پولیس کا اہل کار بیٹھا ہوا ہے وہ روک لے گا کہ یہ گنّا فلاں مل پر لے کر جائو۔ وہ روک لے گا اور تنگ کرے گا۔ وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ سارا گنّا چھین لے۔

پولیس کے بڑے افسروں سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ سیاسی رابطوں کی بدولت یہاں تک آئے ہیں۔ ان کو برابر پیسہ ملتے رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ پیسہ انھیں اوپر بھی پہنچانا ہے۔ ’’پولیس والے ہم سے وصول کرتے ہیں۔ باقی رقم وہ مین پوری، گٹکا کی فروخت سے پوری کرتے ہیں۔ زیادہ بولو تو ہمارے آدمیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔۔۔‘‘ اس نے مجبوری کی طویل داستان چند جُملوں میں سمیٹ لی۔

اس علاقے کے دوسرے زمین داروں کی طرح اس کے خاندان کے تعلقات بھی بااثر سیاست دانوں سے ہیں۔ ان تعلقات کی بدولت ہی فصل کے لیے پانی ملتا ہے۔ ’’چھوٹے زمین داروں کے لیے پانی نہیں ہے۔ زمین دار کا حال اچھا نہ ہو تو کاشت کار پر بھی اثر پڑتا ہے جو سال میں ایک یا دو فصلیں حاصل کرتے ہیں۔ ان سے کچھ کما لیا تو ٹھیک ہے ورنہ سر پر قرض چڑھ جائے گا۔ سیاسی تعلق بہت اونچا والا ہو تو ٹھیک ورنہ صرف پیسہ چلتا ہے۔۔۔ ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں بہت مجبوری آگئی۔

’’آپ ہی بتائیے ہم کیا کریں۔۔۔‘‘ اس نے میری طرف رُخ کرتے ہوئے کہا۔

اب کی بار میں گڑبڑا گیا۔ اسی گڑبڑاہٹ میں مجھے کچھ یاد آیا تو ہاتھی۔ جب ہاتھی نے ایک مرتبہ گنّا اپنی سونڈ میں لپیٹ لیا تو اسے کیا پرواہ کہ اس گنّے کے ساتھ بیس بائیس سال کے ایک نوجوان کے مستقبل کے خواب بھی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ ہاتھی سے گنّا کون چھین سکتا ہے؟

ساحلی شہر کی ایک خوب صورت عمارت میں پہلی منزل پر اپنے دفتر میں، جس کی کھڑکیاں مغرب کی طرف کُھلتی ہیں، وہ نوجوان میرے سامنے مجسّم سوال بنا بیٹھا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اس کو کیا مشورہ دوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments