اخبار نویس، قومی مفاد اور اکتوبر کی تنہائی


\"farnood\"اخبار اور اخبار نویس زیر عتاب ہیں اور یہ کوئی تشویش کی بات بھی نہیں۔ تشویش تب ہو کہ جب اخبار نویس گواہی دینا چھوڑ دے اور اخبار خبر دینا ترک کردے۔ کھوج لگانا اخبار نویس کا فرض منصبی ہے۔ اس کی کھوج پہ بندش عائد کرنا ایسا ہی ہے جیسے ماں کو پیار کرنے سے روک دیا جائے۔ اس کی دریافت پہ سوال اٹھانا ایسا ہی جیسے بچے کی شرارت پہ سوال اٹھایا دیا جائے۔ دانائی یہ ہے کہ دودھ کسی محفوظ مقام پر رکھ دیا جائے۔ دانائی یہ نہیں کہ بلی سے سمجھوتے کی توقع کرلی جائے۔ بلی رام ہو سکتی ہے، اس کی دوستی پہ بھروسہ بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اس سچائی کے ساتھ کہ وہ بالآخر بلی ہی ہے۔ امریکہ کی خفیہ دستاویزات تک پہنچنا جولین اسانج کی کامیابی تھی اور امریکی اداروں کی ناکامی۔ جرمنی کی لا فرم ’’موساک فونسیکا‘‘ کی خفیہ دستاویز تک رسائی ’’زوئدیچے‘‘ کی کامیابی تھی اورموسیکا کی نا اہلی۔ سوال جولین اسانج اور اخبار زوئدیچے کی رسائی پرنہیں، اداروں کی نااہلی پر اٹھے گا۔ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے جولین اسانج پہ سوال نہیں اٹھایا تھا۔ سوال متعلقہ اداروں پہ اٹھایا تھا۔ ضابطہ اخلاق کی بحث درست ہے۔ ضابطہ اخلاق تو بس یہ ہے کہ صحافی اول و آخر صحافی رہے۔ شہادت دے وکالت نہ کرے۔ بات بتائے فیصلہ نہ سنائے۔ خبر لگا ئے، الزام نہ لگائے۔ معلومات شائع کرے، معلومات فروخت نہ کرے۔ باقی اپنے منصب کا ناجائز استعمال ایک مسلمہ بد اخلاقی ہے اس پر تو کلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قومی مفاد کا سوال بھی درست ہے، اس پر کچھ سطر آگے چل کر بات کیوں نہ کرلیں۔

سیرل المیڈہ کے ہاتھ ایک خبر لگی تھی، بدیانتی ہوتی اگر اسے تاریخ کے دفتر میں درج نہ کردیا جاتا۔ خبر کے مستند وغیر مستند ہونے پہ کلام کیا جا سکتا ہے۔ ہرشخص اپنی رائے میں آزاد ہے اور متعلقہ اداروں کا حق ہے کہ خبر کو مسترد کر کے معاملہ وقت کے حوالے کر دے۔ معاملہ مگراخباراوراخبار نویس کے گرد گھیرا تنگ کرنے تک چلا گیا۔ خبر کا ہر زاویئے اور پہلو سے جائزہ لے لیجیئے۔ مبینہ طورپر اجلاس میں جو کچھ فیصلہ سازوں نے طے کیا، اس پر اخبار نویس نے کوئی فیصلہ سنایا اور نہ الزام لگایا۔ رائے دی ہے اور نہ ہی رائے میں مداخلت کی ہے۔ تنقید کی ہے اور نہ سراہا ہے۔ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پر کوئی تبصرہ یا تجزیہ نہیں کیا۔ خبر حاصل کرنے کے لیے وہ بن بلائے اجلاس میں بھی نہیں گیا۔ دیوار سے کان لگائے کھڑا بھی نہیں ہوا۔ خبر کا لب ولہجہ اور اس کی ساخت مکمل پیشہ ورانہ ہے۔ یعنی ایک خبر کی خراش تراش اس سے بہتر کیا ہوسکتی ہے۔ خوش قسمتی کہہ لیں یا بدقسمتی کہہ لیں، کچھ بھی کہہ لیں خبر بہرحال اب پس منظر میں چلی گئی ہے۔ اخبار نویس پیش منظر میں ہے اور اخبار ہر منظر میں۔

خبر کی اہمیت قائم رہنی چاہیئے۔ خبر دینے والے نے خبر دے دی ہے، اب اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مفروضے قائم کرتے ہیں اور خبر کا تجزیہ کرتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کسی اخبار نویس نے کوئی خبر نہیں دی، کیا پھربھی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ موجودہ حالات میں منتخب سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کہاں کھڑی ہے؟ فرض کرتے ہیں کہ سول قیادت اور عسکری قیادت کے بیچ کوئی نشست ہی نہیں ہوئی، تو بھی اس حقیقت سے کیا انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اس وقت ایک بند وتاریک گلی میں دھکیلا جا چکا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے پڑوسی ہم سے روٹھے ہوئے ہیں اور دور پار کے عزیز ہم سے ناراض ہیں۔؟ کیوں ناراض ہیں؟ اس سوال کا جواب میں یا آپ نہیں دے سکتے، یہ جواب روٹھی ہوئی دنیا دے سکتی ہے۔ روٹھے ہوئے لوگ حیران ہیں کہ اس ملک میں جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں پہ کوئی تشویش نہیں پائی جاتی۔ ناک کے نیچے تربیتی مراکز چل رہے ہیں، کسی کو فکر نہیں۔ دار الحکومت میں دو جہادی تنظیموں کے مرکزی دفاتر قائم ہیں، کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ دوسرے ممالک میں موجود پاکستان کا مذہبی ذہن وہاں کے معاشروں کی پریشانیوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ جس کے دستاویزات کھنگالیے وہ اپنے ماضی میں پاکستان کی کسی جہادی تحریک سے وابستہ ہے۔ جس کے عزائم دیکھیئے وہ سڈنی کے جزیرے سے خلافت کی صبح طلوع ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ سب سچ نہیں ہے؟ اس ملک میں ہر پینتیس کلومیٹر کے بعد اور تیسری گلی میں یہ حقیقت کسی نہ کسی صورت میں روشن ہے۔ پوچھنا چاہیئے کہ یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ سول قیادت کی پالیسیوں کے نتائج ہیں یا پھر کسی اور مہربان کی مسلسل عنایتیں ہیں۔ اگر اس سوال کا جواب آپ کو نہ بھی ملے تو بھی آپ کے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ سیاست دان کیا سوچ رہا ہے اور جوان کی سوئی کہاں اٹکی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر اخبار نویس نے کوئی خبر دی ہے تو کیا وہ قومی مفاد سے مزاحم و متصادم ہے؟ گو کہ اخبار نویس کا معاملہ اپنی خبر سے ہے، مگر موجودہ حالات میں اس کی خبر کروٹ بدلتے ہوئے پاکستان کے لیے معاون ثابت ہوئی ہے۔

خبر تعجب خیز ہے۔؟ معاملات کا بغور جائزہ لینے والوں کے لیے اس خبر میں تعجب کا ایسا کوئی سامان نہیں۔ جہاں تشویش کی بجلی کی سی لہر دوڑی ہے، تعجب کا کوئی پہلو وہاں بھی نہیں۔ پریشانی کی بات البتہ اور ہے۔ سوال اٹھانے والے سوال اٹھاتے تھے کہ یہ ہاتھی جو آپ پال رہے ہیں، کسی دن پلٹ کے آپ پر ہی حملہ آور ہوگئے تو کیا ہوگا، جواب آتا کہ ہمیں سب پتہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ اب وہ دن آ گیا ہے جس کے آنے کے گمان کو جھٹک دیا جاتا تھا۔ ملکی حالات کا تقاضا اور دنیا کا بیک زبان مطالبہ یہ ہے کہ جنگ اب کاغذوں میں نہیں لڑی جائے گی۔ کالعدم ہوکر یہاں ڈوبے اور باوجود ہو کر وہاں نکلے، اب یہ نہیں ہوگا۔ ایک واضح جمع تفریق کےساتھ سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ بحث چل نکلی ہے تو یار لوگوں نے رائے دی ہے کہ جہادی تنظیموں کو رفاہی سرگرمیوں جوت دیا جائے، مگر کیسے؟ رفاہی سر گرمیوں میں ہی تو مصروف کار ہیں۔ فلاح انسانیت ایک رفاہی فلاحی ادارے کا ہی تو نام ہے۔ الرحمت ٹرسٹ ایک فلاحی ادارہ ہی تو ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایک کے سربراہ حافظ سعید صاحب ہیں اور دوسرے کے جناب مسعود اظہر۔ لیکن جنرل مشرف رات کیمرے کے سامنے یہ فرما گئے کہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد کہنا تو سمجھ آتا ہے مگر یہ حافظ سعید کو کیسے دہشت گرد کہا جا سکتا ہے۔ کیا دنیا حیران ہوکر یہ سوال نہیں کرے گی کہ مولانا مسعود اظہر آپ کے دور اقتدار میں روزانہ دم درود، ہفتہ وار اخبار، ماہانہ رسالہ، سالانہ جلسے اور مسجد مسجد چندے کی اپیلیں کیسے کر رہے تھے۔؟ کیا ہم سےنہیں پوچھا جائے گا کہ مولانا مسعود اظہر کا وہ کون سا جرم ہے جس کا صدور حافظ سعید کی ذات مبارکہ سے نہیں ہوا ؟ اس سوال کا کیا جواب ہو سکتا ہے کہ ہم نے نشان زد تو کچھ اور ہستیوں کو کیا تھا، آپ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ایک اخبار نویس کا ڈال دیا۔ ایں چہ بوالعجبی ست؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments