زندہ باد ٹرمپ، زندہ باد امریکہ


خلق خدا کو مبارک ہو۔ صدر ٹرمپ کے لیے تھری چیئرز۔ امریکی فوج کی دلیری اور شجاعت کو سلام۔ کتنا بڑا کارنامہ اُس نے انجام دیا۔ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو مقابلے میں ہلاک ہی نہیں کیا بلکہ کُتے جیسی ذلیل موت مار دیا اور دیکھیں تو ذرا اِس آپریشن کو صدر ذی وقار نے خود دیکھا۔ بعنیہٰ اِسی طرح جیسے باراک اُبامہ نے ہیلری کلنٹن کے ساتھ اسامہ بن لادن آپریشن آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تھا۔

اپنے ٹویٹر پر دنیا بھر کو پیغام دیا کہ بغدادی تو بڑا ہی بزدل نکلا۔ امریکی خصوصی فوجی دستے کو دیکھتے ہی خود کو فوراً خود کش حملے میں اڑا لیا۔ اس کے تین بچے اور بیگمات بھی جہنم واصل ہوئیں۔ بھئی امریکی فوج کے دلیر اورجیالی ہونے میں کیا شبہ ہے کہ اس کا ایک فوجی بھی ہلاک نہیں ہوا۔ ہے نا بڑی بات۔

واہ رے امریکہ واہ۔ صدقے جاواں تیرے۔ کیا شعبدہ بازیاں ہیں تیری۔ پہلے بت بناتا ہے پھر جان ڈالتا ہے پھر ہاتھ میں تلوار اور اپنا ایجنڈا دے کر گھوڑے پر چڑھا دیتا ہے۔ پھر جب جی چاہتا ہے زیرو بنا کر پار لگا دیتا ہے۔

خدا کو کسی نے دیکھا تو نہیں بس نشانیاں ہی اس کے وجود کا اظہار ہیں۔ اب اسے کیا کہیں کہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ذمہ دار لوگ اپنی ایمپائر اور اس کی پالیسیوں بارے وقوعہ کے کچھ وقت بعد خود ہی وہ سب کچھ کہتے پھرتے ہیں۔ جو اندر خانے اُن کے سب عزائم کے پول کھول دیتے ہیں۔

” جب ہم کوئی کام کرتے ہیں ہم اس کے ہونے کا جواز پیدا کر لیتے ہیں۔ جب دنیا ہمارے اِس جواز پر غوروخوض کر رہی ہوتی ہے ہماری ترجیحات نئے رُخ اختیار کر لیتی ہے۔ ہم تاریخ کے اداکار ہیں۔ دنیا تو یہی جاننے میں لگی رہتی ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟“

اب ایسے میں نائن الیون واقعے کی گہرائی میں اترجائیں۔ پردے تو اٹھتے ہیں نا۔ اب دنیا کے چند بہترین دماغ اگر یہ کہتے ہیں کہ سارا ڈرامہ تھا تو کہیں بات دل کو لگتی ہے۔ کچھ ایسی ہی رائے اِس داعش بارے بھی ہے کہ اِس بڑی ایمپائر کا خود ساختہ یہ ابوبکر البغدادی جسے اکیسویں صدی کا نیا لارنس آف عریبیا کا بھی نام دیا گیا۔ ماضی کے سپر پاور لارنس آف عریبیا کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ جو عربی النسل ہونے کے ڈھونک کے ساتھ کیسے عربوں میں قومی عصبیت کا زہر گھولنے، ترکوں کے مقابلے پر عربوں کو صف آرا کرنے اور مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلوانے میں پاﺅنڈوں کے بوروں کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ تو اب نئی سپر پاور کے گماشتے اسلام کی نئی اور متعصب صورتوں کے ساتھ اگر میدان میں اُترے ہوئے ہیں تو کچھ تعجب انگیز نہیں۔ مستند حوالے اِس کردار ابوبکر البغدادی کے یورپین ہونے اور سی آئی اے کے نئے بغل بچے کی آمد کا مثردہ اس کی ذات سے نتھی کرتے ہیں۔ ایک رائے اِس کے عراقی النسل ہونے سے بھی ہے۔ سی آئی اے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے بندوں کی کھوج کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے کرتی اور اُن کی تربیت، انہیں ڈالروں کے بوروں اور جدید آلات کے ساتھ کن کن ہتھکنڈوں سے استعمال کرتی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

اردن کے ابو معصب الزقاوی کی القاعدہ، یہ داعش یا  ISISاِن کے اندر کی کہانیاں شام کی ایک بے حد جیالی اور انقلابی خاتون ثمریز بک کی روزمرہ یادوں پر مشتمل ڈائری My Journey To The Shattered Heart of Syriaمیں پڑھئیے۔ 2008 میں دمشق میں اُس سے ملی تھی۔ 2015 میں مجھے یہ ای میل حلب کی ڈاکٹر ہدا نے بھیجی۔

تقریباً ایک سال کے عرصے میں اس نے تین بار ترکی کے راستے خاردار تاروں سے لڑتے خونخوار ہوتے سرحد پار کی۔ وطن کے لیے اِن تکلیف دہ مسافتوں میں اس کی جہادیوں سے ملاقاتوں نے اُسے اُن کے اصلی چہرے دکھائے۔ وہ غیر ملکی سازشوں کی گہرائی سے آگاہ ہوئی۔

احرار الشام اور القاعد ہ کے مقامی لیڈران سے اُس کا ملنا، ان کے خیالات ونظریا ت سے آگاہی بہت سے حوالوں سے اس جیسی روشن خیال خاتون کے لئے بہت مایوس کن تھی۔ وہ عورتوں اور اُن کی آزادی کے حوالے سے بے حد متعصب تھے۔ شام کے خوبصورت چہرے کے پیچھے اس کے سرانڈ مارتے اندر نے ویسے ہی غلاظتوں سے بھرے رہنا تھا۔ بس تھوڑاسا نوعیت تبدیل ہو جاتی۔ اُسے تو یہ بھی احساس ہوا کہ یہ جنگ تو خالصتاً غیر ملکیوں کی ہے۔ بڑی طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کی آڑ میں غریب ملکوں کو خون میں نہلانے کے بندوبست کیے ہوئے ہیں۔

2014 اور 2015 میں شاید جب بھی اس کی بات چیت باغیوں کے زیر تسلط علاقوں کے اسلامی امیروں سے ہوئی۔ اُس نے جانا کہ وہ بڑی طاقتوں کے گماشتے اور آلہ کار ہیں۔ حربی سامان اورپیسہ ہتھیانے کے بہانے۔ وہ تو اپنے زیر تسلط علاقوں میں نہ رشوت ختم کر سکے اور نہ جرائم۔ دوسرے اور تیسرے چکروں میں یہ تلخ حقائق اور کھل کر سامنے آئے۔ احرار الشام کے امیر ابو احمد نے کس قدر رعونت سے کہا تھا۔

”نقاب کے بغیر کوئی عورت باہر نہیں آسکتی۔ علو ی تو شام میں رہ ہی نہیں سکتے۔ دو روز اور اسماعیلی بھی۔ ہاں اگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو ٹھیک۔ “کچھ ایسا ہی رویہ القاعدہ کے لیڈر کا تھا۔ جس نے اُسے ملنے کے بعد کہا تھا۔

” تمہاری بہادری کہ تم ہم سے ملنے آئیں۔ “

”آپ اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟کیا بہادر نہیں؟ “

 وہ ہنسا اور بولا۔

 ”میں مرد ہوں اور یہ قدرتی امر ہے۔ “

”اور میں عورت ہوں یہ بھی قدرتی امر ہے۔ “

 اُس کی ہنسی یکدم رک گئی تھی۔

اس کے بار بار کے چکروں نے اُسے سمجھایا تھا کہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔

یہ مذہبی خانے موجود تو پہلے بھی تھے پر اتنے گہرے کبھی نہ تھے۔ یہ سنی، یہ شیعہ، یہ علوی، یہ دروز کہیں نہیں تھا۔ ہم سب شامی تھے۔

ISIS  کے بارے میں وہ برملا کہتی ہے کہ یہ غیر ملکیوں کی فوج ہے۔ یہ امریکہ کے ہتھکنڈے ہیں۔ پھر ذرا واشگاف الفاظ میں کہتی ہے کہ راہزنوں اور لٹیروں کے ٹولے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).