شخصی تصور اقدار کا نظام ( Subjective Value system )


\"zeeshanویلیو یا قدر کسی بھی شے یا خدمت کی اہمیت ،ضرورت ، وقعت اور افادیت کا نام ہے۔ مثال کے طور پر ہماری زندگی میں خوراک اور پانی کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے کیوںکہ ہمیں اپنی زندگی کی بقا اور نشودنما کے لئے ان دونوں چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔یہ دونوں ضروریات اپنی فراہمی میں سب سے اہم ،مقدم اور مفید ہیں۔خوراک کی بھوک مٹانے کی صلاحیت اور اس کی افادیت ،اسی طرح پانی کی پیاس بجھانے اور زندگی کو توانائی دینے کی اہمیت ان اشیاءکی یونیورسل ویلیوز ہیں۔

جب ہم معاشی زندگی میں آتے ہیں تو اشیاء کی ویلیوز بدل جاتی ہے۔مثال کے طور پر وہ تمام اشیاء جو لا محدود ہیں ، وافر مقدار میں ہیں ان کی ویلیو تقریبا صفر ہے۔ اور جہاں ان کی قلت پائی جاتی ہےان کی ویلیو بھی اسی تناسب سے موجود ہے۔جیسا کہ خلیج کے ممالک میں پینے کے صاف پانی کی قلت ہے اس لئے وہاں پانی کی ویلیو معاشی اعتبار سے بہت زیادہ ہے بہ نسبت پاکستان یا دیگر ملکوں کے جہاں پینے کا صاف پانی قدرتی طور پر وافر مقدار میں موجود ہے – اسی طرح ہیرا ہماری بنیادی ضروریات میں سے کوئی ایک بھی ضرورت پوری نہیں کر تا، نہ ہم اسے کھا سکتے ہیں اور نہ اوڑھ سکتے ہیں مگر چونکہ اس کی طلب بطور ایک خوبصورت و دلکش پتھر کے بہت ہی زیادہ ہےاور اسی حساب سے اس کی مقدار بھی انتہائی قلیل پائی جاتی ہے یوں بہت زیادہ طلب مگر کم سپلائی ہیرے کو انمول و قیمتی بنا دیتی ہے اور انسانی سماجی بندوبست میں اس کی ویلیو باقی اشیاء سے بڑھ جاتی ہے۔

انسانی سماج میں کسی بھی چیز کی ویلیو اس چیز کی ذاتی نہیں بلکہ انسانوں کے حوالے سے اس کی طلب میں ہے۔اور یہ ویلیو تمام انسانوں میں مقررہ بھی نہیں۔ایک شخص جو پانی سے سیر ہو اس کے لیے پانی کی ویلیو اب تقریبا زیرو ہے۔ اسی طرح ایک پیاسے کے لیے اس کی ویلیو دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر ہوگی۔ہیرے کی طلب خواتین میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔جبکہ مردوں میں پہناوے کے اعتبار سے اس کی ویلیو بہت کم ہے۔اسی طرح خواتین میں شوق اور رجحان کے اعتبار سے بھی ہیرے کی ویلیو مختلف پائی جاتی ہے اسے کچھ کم پسند کرتی ہیں کچھ بہت زیادہ اور کچھ تو بہت ہی زیادہ –

یہ جو ہم مارکیٹ کی قیمتوں کی بات کرتے ہیں یہ دراصل افراد کی ویلیو ججمنٹ (judgement ) کی بلندشرح ہوتی ہے ،جس پر فروخت کنندہ خریدار کو چیز بیچنے پر راضی کر لیتاہے یا خریدار فروخت کنندہ کو راضی کر لیتا ہے ۔ ایک چیز کی مارکیٹ پرائس (قیمت ) دراصل خریدار اور سیلر کے درمیان ایک ویلیو پر اتفاق یا کمپرومائز کا نام ہے ۔ ممکن ہے کہ میں کسی دکان میں جاؤں ،وہاں کوئی چیز دیکھ کر اس کی ویلیو دس یونٹ لگاوں مگر اس کی قیمت 12ہوتو میں اسے نہیں خریدوں گا مگر چونکہ دکاندار اسے بارہ پر بیچنا چاہتا ہے اور باقی خریداروں کی اکثریت بھی اسےبارہ پر خرید رہی ہے تو اس کی قیمت بارہ ہی ہوگی۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اشیاء و خدمات کی ویلیو کا تعلق فرد سے ہے اور یہ relevant ہے۔

Value concerns value for whom with its needs/wants of Individual

پیداواری عمل میں بھی ویلیو مستقل (Constant ) نہیں، اس میں بھی ویلیو اپنے عناصر و عوامل ( فیکٹرز ) کی کنٹری بیوشن پر انحصار کرتی ہےکہ آیا کون سا فیکٹر کتنا contribute کر رہا ہے۔اس کا پیداواری عمل میں کتنا حصہ ہے – مثال کے طور پر ایک خدمت کا شعبہ لیتے ہیں جیسے وکالت : وکالت ایک معاشی سرگرمی ہےجس میں وکیل ایک مخصوص اجرت / معاوضہ / فیس کے بدلےاپنی قانونی خدمات فراہم کرتا ہے۔خدمات فراہم کرنے کے اس عمل میں اس کی ذہنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی اہمیت مرکزی ہوتی ہے۔یوں اس خدمت کی پیداوار میں مرکزی کنٹری بیوشن اس وکیل کا ذاتی ہوا، وہی کنٹری بیوشن اس کی خدمات کی ویلیو بھی ہے،اور اسی ویلیو کےحساب سے وہ اپنے کسٹمر / کلائنٹ سے فیس کا مطالبہ کرتا ہے۔

ایک بڑا اور پیچیدہ پیداواری عمل جو کہ کسی بڑے پروڈکٹ جیسے کار بنانے کا ہے،اس میں ایک سے زیادہ فیکٹرز اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اسی لئے ان کی ویلیو calculation بھی پیچیدہ ہے – وہ عوامل درج ذیل ہیں :

1۔سرمایہ اور Entrepreneurship: اس میں سرمایہ دار کی محنت ،رسک اور سرمایہ شامل ہے۔

2۔ٹیکنالوجی ،یہ بھی سرمایہ دار کی ملکیت ہوتی ہے۔جسے وہ خریدتا ہےیا خود ایجاد کرتا ہے

3۔لیبر : لیبر کی بھی اقسام ہیں ۔جیسے خام جسمانی محنت،ذہانت کی محنت، بہت زیادہ skilled لیبر۔ یوں ان کی پیداوار میں contribution بھی مختلف ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ویلیو بھی –

§ خام محنت میں مزدور صرف جسمانی محنت کرتا ہے۔

§ ذہانت کی محنت میں مینیجرز اور کلرک حضرات ذہنی صلاحیتوں کے استعمال سے پیداواری عمل میں خدمات فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔

§ وقت،تجربہ اور مزید ٹریننگ سے محنت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور یہی پیداواری صلاحیت ہی پیداواری عمل میں بطور ایک فیکٹر کنٹری بیوٹ کر رہی ہوتی ہے۔

4 . لینڈ (land ) : زمین ، وہ جگہ جہاں پیداواری سرگرمیاں سر انجام دی جاتی ہیں –

ان چاروں عناصر کی ویلیو پیداواری عمل میں ان کی کنٹری بیوشن طے کرے گی۔ان عناصر کی مختلف انڈسٹریز ، کمپنیوں اور ڈیپارٹمنٹس میں ویلیو کی نسبت (composition ) مختلف ہوتی ہے۔ایک ڈیپارٹمنٹ میں بھی مختلف مزدوروں کی contribution ویلیو کی تخلیق میں مختلف ہوسکتی ہے۔ویلیو جامد نہیں ہو سکتی اور اگر اسے جامد کر دیا جائے تو پورا پیداواری عمل جامد ہوجاتا ہے اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بن جاتا ہے۔کیونکہ اس میں تخلیق (productivity ) اور ارتقائ پسندی ختم ہوجاتی ہے۔

یہ معاملہ درحقیقت اخلاقیات کے معاملہ میں بھی ہے۔اخلاقی ویلیوز یا اقدار ہر فرد کی فری ول (آزاد ارادے)، شعور و فہم اور حسن انتخاب کا نام ہے۔ معاشرے کی اپنی ویلیوز ہوتی ہی نہیں،کیونکہ معاشرہ کوئی نامیاتی وجود تو ہے نہیں ، ، نامیاتی وجود تو انسان ہیں۔ جسے ہم سماجی اقدار کہتے ہیں وہ بعض اوقات معاشرے کی اکثریت افراد کی اقدار ہوتی ہیں یا ہییت مقتدرہ(سٹیٹس کو) کی نافذکردہ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ جھوٹ کو برا کہنا،سچ کی حمایت کرنا ، انصاف کی خواہش کرنا،بہتان کو برا جاننا،اور ایمانداری کو فروغ دینا،یقینا یونیورسل اخلاقیات ہیں مگر ان کی وجہ بھی یہی ہے کہ معاشرے کے تمام افراد (معدودے چند ) کی فری ول ، سوچ و فہم اور حسن انتخاب انہیں مقدم و محترم سمجھتی ہے اور انسانی سماجی ارتقاء نے بھی انسان کو یہ سکھا دیا ہے کہ ان کے بغیر شخصی مفادات (سیلف انٹرسٹ ) کا تحفظ بھی ممکن نہیں – مثال کے طور پر جھوٹ کو برا سمجھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ خود کو بھی کسی جھوٹےشخص کے فریب سے محفوظ بنا رہے ہیں ۔یاد رہےکہ سچ صرف وہی نہیں جسے معاشرے کی اکثریت سچ کہے ، بلکہ سچائی کا تعلق بھی اپنے پوائنٹ آف ریفرنس ، سبجیکٹ (مخاطب ) ، اور زمان و مکاں (Time & Place ) سے مخصوص ہے۔

کسی بھی شے یا خدمت کی ویلیو (قدر) کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔پیمائشی شکل میں اسے یوٹیلیٹی کہتے ہیں۔یہ ایک فرد میں وقت اور صورتحال کے اعتبار سے کم ہوتی اور بڑھتی رہتی ہے۔اسی طرح ایک ہی کیفیت اور ٹائم و سپیس (جگہ) کے ریفرنس میں بھی یہ فرد سے فرد مختلف ہوتی ہے۔

اسی لئے شخصی آزادی(فریڈم) ضروری ہے کہ ایک فردکو آزاد ہو کہ وہ اپنی اخلاقی ،سیاسی اور معاشی زندگی میں مختلف اشیاء و خدمات کی ویلیو خود پیمائش کر سکے اسی میں ہی فرد کا حق انتخاب اور شخصی آزادی ہے – اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس صورت میں وہ فرد سماج کا باغی ہو جائے گا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے حسن انتخاب سے تمام موجود اخلاقی ضابطوں میں سے بہترین کا انتخاب کرے گا اور اپنے فہم و شعور سے ان میں اپنی ذات کے حوالے سے ویلیو addition کرے گا- جب آپ پر سیاسی،معاشی اور اخلاقی ضابطوں میں سے کسی ایک کی آمریت نافذ کر دی جاتی ہے اور یہ جبر کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو اسے اقدار کی آمریت اور ویلیو کا آبجیکٹو ازم (Objectivism ) کہتے ہیں۔اس میں آپ کو ایک مفصل ومکمل ضابطہ دے دیا جاتا ہے ، اور آپ سے اس کی پابندی کروائی جاتی ہے۔جیسے مثال کے طور پر سوشلزم جو معاشی زندگی میں طے کرتا ہےکہ پیداواری عمل میں لیبر کی ویلیو کتنی طے شدہ ہے ، کسی بھی شے یا خدمت کی متعین قیمت کتنی ہونی چاہیے اور افرادی قوت کہاں ، کیسے اور کتنی استعمال میں لائی جائے۔سیاسی زندگی میں اسے فاشزم بھی کہتے ہیں جہاں سنٹرل گورنمنٹ لوگوں کے آزاد ارادوں کو کنٹرول اور ان کی سیاسی زندگی کو پلان کرتی ہے۔جس کو رو سے شہری اس لیے ہوتے ہیں کہ ان پر حکومت کی جائے- آمریت کی ہر شکل آبجیکٹو ضابطے کو راہنما بناتی ہے جب کہ آزادی فرد کا بنیادی حق ہے اور اس کی اقدار سبجیکٹو ہوتی ہیں –

تجارت کی ممکن صورت بھی یہی ہے۔کہ ایک شے یا خدمت جب پیش کی جاتی ہے توخریدار اس کی قیمت یا ویلیو اپنی اپنی ججمنٹ (قوت فیصلہ ) سے طے کرتے ہیں اور فروخت کنندہ تک اس کی متوقع ویلیو communicate کر دیتے ہیں۔جب تمام متوقع خریداروں یا کسی ایک خریدار کی طے شدہ ویلیو فروخت کنندہ(سیلر) کی متعین ویلیو کے برابرہوجاتی ہے تو وہ چیز یا خدمت اس کی قیمت (پرائس ) کے بدلے خریدار کی پراپرٹی میں دے دی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ایک ٹرانزیکشن میں خریدار و فروخت کنندہ کے درمیان ایک مخصوص میڈیم آف ایکسچینج میں پراپرٹی کا تبادلہ ہو رہا ہوتا ہے – مثال کے طور پر میں ایک کرسی خریدنے جاتا ہوں ، اس کی ایک قیمت پر ہم دونوں (یعنی خریدار اور فروخت کنندہ ) اتفاق کر لیتے ہیں – فروخت کنندہ یعنی دکاندار مجھے کرسی کی ملکیت دے دیتا ہے جبکہ میں اس کے بدلے اسے کرسی کے قیمت کے مطابق روپے دے دیتا ہوں – اس کرنسی میں نہ صرف پراپرٹی خریدنے کی سکت ہوتی ہے بلکہ اس کی قوت خرید بذات خود ایک پراپرٹی ہے – یاد رہے کہ کرنسی سسٹم دراصل بارٹر سسٹم (اشیاء سے اشیاء یا خدمات کا تبادلہ ) کی ترقی یافتہ شکل ہے – اگر ایک خریدار یا زیادہ خریداروں اور فروخت کنندہ کے درمیان ویلیو کے اس فیصلے میں اختلاف ( ڈسکریپنسی ) پایا جائے تو ٹرانزیکشن نہیں ہوتی تاوقت یہ کہ ان میں باہم اتفاق قائم نہ ہو جائے ۔اس کو کارل میگر نے اس طرح بیان کیا ہے۔

کسی بھی پروڈکٹ کی ویلیو اس کی لیبر پر انحصار نہیں کرتی جو پیداواری عمل کے دوران استعمال میں لائی گئی اور نہ ہی اس کا انحصار کسی بھی پیداوار پر آنے والی کل لاگت(یعنی سرمایہ ) پر منحصر ہے۔بلکہ ویلیو دراصل خریدار و سیلر کی انفرادی طلب پر انحصار کرتی ہے۔

____________________________

ہمارے معاشرے میں تنوع موجود ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا –اس تنوع کی ان گنت صورتیں اور رجحانات ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر یہ تنوع کیسے جنم لیتا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ ہر فرد یا افراد کے کسی گروپ ، ایسوسی ایشن ،کمیونٹی ، یا شناخت کی مذہب و معاشرت اور سیاست و معیشت کے باب میں ویلیو ججمنٹ مختلف ہوتی ہے۔ معاشرت کی رنگینی بھی اسی میں ہے ۔مارکیٹ میں ورائٹیز بھی اسی وجہ سے ہیں۔بین المذاہب اور ایک ہی مذہب میں ان گنت مسالک بھی اسی وجہ سے ہیں نیز ہماری زندگی کا ہر شعبہ متنوع ہے، اور اس تنوع کا جنم ویلیو ججمنٹ میں افراد کے درمیان اختلاف سے ہوتاہے۔بہترین معاشرے سیاست و معیشت اور مذہب و معاشرےکے باب میں وہی ہیں جو نہ صرف اس تنوع کی قدر کرتے ہیں بلکہ اسے facilitate بھی کرتے ہیں تاکہ فرد ومعاشرہ امن اور خوشی سے پھلے پھولےاور ترقی پائے۔یاد رہے کہ آزاد معاشرہ سب کا ہوتا ہے اس میں رہنے والے ہر فرد کی اسے نمائندگی کرنی چاہئے – وہ معاشرے جو آزاد نہیں ہوتے ان پر بالادست طبقات کی ویلیو کے تعین (Judgement (میں اجارہ داری ہوتی ہے –

____________________________

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیپیٹلزم کے مقابلے میں کمیونزم اس لیے ناکام ہوا کہ کمیونزم کو قیادت نہ مل سکی ، جبکہ کیپیٹلزم کا سیاسی بندوبست مستحکم رہا – کمیونزم کی ناکامی کی وجہ سٹالن جیسے کردار ہیں، جبکہ کیپٹلزم کی کامیابی کی وجہ مغربی معاشروں کی جمہوریت پسندی ہے۔یہ درست استدلال نہیں ہےاس بات کا اگر تاریخی بنیادوں پر جائزہ لیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ معاشرے جنہوں نے فری مارکیٹ معیشت کو مقبول کیا وہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ جمہوری ہوئے ہیں جبکہ وہ معاشرے جہاں کمیونسٹ یا سوشلسٹ معیشت لاگو ہوئی (جنکی تعداد 46 کے لگ بھک تھی) ان کا انجام بالآخر بدترین آمریت اور تباہ کن سیاسی و معاشی بندوبست کے صورت میں سامنے آیا۔اس کی کیا وجہ ہے؟ یا دوسرے زاویے سے اگر دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ممالک جہاں فری مارکیٹ معیشت کا نظام پھلا پھولا، وہاں انسانی ترقی اور انسانی حقوق کے اشارے وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوئےاور ہنوز ہو رہے ہیں ،جبکہ سوشلسٹ و کمیونسٹ معیشت کے سابقہ و موجودہ تمام ممالک میں سے ایک بھی انسانی ترقی و انسانی حقوق کے معاملہ میں قابل نظیر ملک یا معاشرہ نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

محض سیاسی قیادت اس کی بنیادی وجہ نہیں ہو سکتی اس صورت میں یہ ایک نان اکیڈمک بات ہو گی ۔

ہر نظام کا ایک ویلیو سسٹم ہوتا ہے ،جس کے تحت وہ نظام چلتا ہے ۔نظام محض ایک مشین نہیں ہوتی جسے بنایا اور پھر چلانا شروع کردیا ، اب بس چوکیدا ر کی ضرورت ہے جو محض اس کی دیکھ بھال کرے ۔ہر نظام اپنی مخصوص اقدار رکھتا ہے۔ وہ جہاں قائم ہوتا ہے وہاں ان مخصوص اقدار کو نشودنما ملتی ہے اور وہ ترقی پاتا ہے بشرطیہ کہ اس میں ترقی کے امکانات واقعی پائے جاتے ہوں وگرنہ وہ تباہ ہو جاتا ہے – نظام کی کامیابی کی صورت یہ ہے کہ نظام کا مجوزہ ویلیو سسٹم فرد کے ویلیو judgement سسٹم سے متضاد نہ ہو وگرنہ وہ قابل عمل نہیں رہتا ۔

اقدار معاشرے میں افراد کے Incentive سسٹم (یعنی رجحانات و ترغیبات ) سے جڑی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسا نظام ہے جو ایک بھوک وبیماریوں میں مبتلا معاشرے میں قائم کیا جاتا ہے۔اگر وہ نظام محض پندو نصائح میں ہی کھویا رہتا ہے اور افراد میں خیرات و امدادکے انتظار کی ترغیب پیدا کرتا ہےتو اس سے خوشحالی نہیں آئے گی اور نہ ہی اقدار بہتر ہوں گی۔بلکہ ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے جائز وناجائز راستے ڈھونڈےجائیں گے اور افراد میں انحراف ہی رواج پائے گا۔بھوک اور ضعف میں اقدار کی بحث لاحاصل ہے –

دوسری طرف ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں ایسا نظام قائم کیا جاتا ہے جو غریب و امیر میں محنت و کامیابی اور پیداواری عمل میں بھر پور شرکت کی ترغیب پیداکرتا ہے۔اس سے نہ صرف خوشحالی آئے گی بلکہ صحت مند اقدار کو بھی فروغ ملے گا۔

میں اپنی سوچ اور اپنے اعمال میں اپنے ذاتی ویلیو Judgement سسٹم کو فالو کرتا ہوں۔چاہے میری وہ معاشرتی و مذہبی زندگی ہو یا سیاسی و معاشی زندگی ۔ایک بہتر نظام وہ ہے جو میرے حق انتخاب کو facilitate کرے۔ہر فرد کے حسن انتخاب کی پزیرائی ہو – فنڈامنٹل ویلیو یہ نہیں کہ آپ دوسروں کے لیے ہر صورت میں اچھا کریں اگر وہ پسند کریں یا نہ کریں۔آپ جب دوسرے کےلیے اچھا کرنے لگیں گے بغیر ان کی رضامندی کے، تو اس صورت میں آپ اچھائی کے اپنے سسٹم کو دوسرے پر نافذ کر رہے ہوں گے۔اس صورت میں اس چیز کی کیا گارنٹی ہو گی کہ جسے آپ اچھا سمجھ رہے ہیں وہ حقیقتا اچھا ہے بھی یا نہیں ؟ جبر ہر صورت میں برا ہے چاہے جبر کرنے والے کی نیت میں اخلاص اور نیکی کا جذبہ ہے یا نہیں – فنڈامنٹل ویلیو یہ ہے کہ دوسروں کےلیے اس وقت اچھا کریں جب وہ آپ کو اپنے لئے اچھا کرنے کی اجازت یا حق بھی دیں اور پھر ویسے اچھا کریں جیسے خود کے لیے اچھا سمجھتے اور کرتے ہیں۔اچھائی کو نافذ نہیں کرنا پڑتا۔جبر اور اچھائی کا جذبہ باہم متضاد ہیں ۔فنڈامنٹل ویلیو دوسروں کے ویلیو Judgement سسٹم کی عزت اور ان کی انفرادیت کے احترام میں ہے نہ کہ انہیں اپنے متعین کردہ ویلیو سسٹم کے تحت مخصوص مقاصد کے لیے دوسروں کو manipulate کرنے میں ہے۔ہر فرد کے ساتھ اس کی اپنی متعین کردہ ویلیوز اور حقوق کے مطابق برتاؤ کیا جائے۔

A person to be persuaded not worked not forced not bulldozed, not brainwashed.

(انسان کو دلیل سے قائل کیا جانا چاہیے،اس پر جبر و مہر کے ہتھیار نہ چلائے جائیں اور نہ ہی اس کے ذہن پر جھوٹ اور دھوکے بازی سے اثر انداز ہوا جائے)

اسی تناظر میں فلسفی Thoreau کیا ہی خوب کہتا ہے

خیر کےفساد سے بڑھ کر بری مہک کسی چیز کی نہیں ہوسکتی۔اگر مجھے علم ہوجائے کہ کوئی شخص جذبہ خیر سے میرے گھر کی جانب آرہا ہے۔تو میں اس سے بچنے کے لیے سرپٹ دوڑ لگا دوں۔

فری مارکیٹ کی اخلاقیات

کمیونزم و سوشلزم اپنے ویلیو سسٹم کی خامیوں و خرابیوں کے تحت ڈوبا تھا جبکہ فری مارکیٹ کیپٹلزم کے عروج و فتح کی وجہ بھی اس میں پنہاں (Inherited) ویلیوسسٹم ہے جو تمام افراد کے صحت مندانہ ویلیو Judgementسسٹم کو Facilitate کرتا اور ان کی معاشی آزادی کا تحفظ کرتا ہے۔

کیپٹلزم کی سب سے بڑی قدر پیداوار (پروڈکشن) ہے کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس سے معاشرے خوشحال ہوسکتے ہیں۔انسانوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اور اتنی بری آبادی تقریبا سار ارب سے زائد لوگوں کی خوراک اور بہتر طرز زندگی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

ہم موسیقی سے محبت کرتے ہیں -سر،راگ اور موسیقی کے آلات سے مرتب و مزین دھنیں ہمیں مسحور کرتی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچاکہ جس ڈھولک کی تھاپ سے موسیقی دلکش بنتی ہے۔اسی ڈھولک کو کس نے بنایا ۔گٹار سے پھوٹنے والی دلکش دھنیں سنتے ہوئے ہم نے کبھی سوچا کہ اس گٹار کی کتنی اہمیت ہے اور ان لوگوں کی کتنی وقعت ہے جنہوں نے ان آلات کو بنایا ۔ بہترین آڈیو سسٹم جو ریکارڈنگ اور موسیقی کی نشرواشاعت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کے ایک ایک آلہ کی تیاری میں کتنی سرمایاکاری،لیبر ، رسک مینیجمنٹ اور معیشت کی خود انتظامی کا ایک مربوط نظام موجود رہا – جب ہم موسیقی سن رہے ہوتے ہیں تو یہ سوال کبھی ہم نے خود سے یا کسی دوسرے سے پوچھا ہے کہ ریکارڈنگ اور ناظرین کی پسند کے مطابق دیگر انتظامات کے یہ تمام کام کن لوگوں نے اور کس مہارت سے سرانجام دیئے ؟ پھر اس شاہ پارے کی ریکارڈنگ سے اس کی آڈیو کیسٹس ، پھر وہاں سے مارکیٹ اور مارکیٹ سے آپ تک اس کی رسائی کا ایک پیچیدہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟یقینا ہم ان سوالات کے مسائل سے دوچار ہونا پسند نہیں کرتے بلکہ محض موسیقی سنتے ہیں اور اپنی روح کو خوشی و لذت سے ہمکنار کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک قلم ہے ۔ہم لکھتے ہیں،علم کی ترسیل ہوتی ہے،خط و کتابت کے لطف اٹھائے جاتے ہیں۔آفس کے ریکارڈ اسی سے بنتے ہیں – تخیل کو زبان بھی قلم سے ملتی ہے اور وہ تخیل (ایک اعتبار سے ) مادی شکل میں ڈھل کر اپنا اظہار یوں کر رہا ہوتا ہے کہ ہم عش عش کر اٹھتے ہیں۔کبھی ہم نے سوچا کہ قلم سے نکلتے وہ الفاظ جو انتہائی قیمتی ہیں ،ان الفاظ کو جنم دینے والا قلم ہم تک کیسے پہنچتاہے؟

موسیقی اور قلم سمیت ان گنت ایسی مثالیں اور مظاہر ہیں جو ہمارے اردگرد پائے جاتے ہیں۔جو معجزات کی ہی ایک شکل ہیں۔ جو انسانی تہذیب کا شاہکار ہیں۔ان کو ان کے پس منظر اور پیش منظر سے جو سپورٹ مل رہی ہوتی ہے۔اسے انسانی محنت ،سرمایہ ، Entrepreneurship ، رسک مینجمنٹ اور معاشی خود انتظامی کا ایک پیچیدہ سلسلہ مدد دے رہا ہوتا ہے۔یہی وہ پیداوار ہے جو کیپٹلزم کی سب سے بڑی قدر ہے، جس پر کیپیٹلزم فخر بھی کرتا ہے اور گزشتہ تین صدیوں سے سربلند ہے –

ایک نظر اینٹرٹینمنٹ کے شعبہ پر بھی ڈال لیتے ہیں ۔اگر آپ تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گےکہ صنعتی انقلاب سے پہلے شعراء ، ادباء ،مقررین حضرات وغیرہ بادشاہ وامراء کے دربار سے منسلک ہوتے تھے ،اور ان کی خوشنودی کے آرزومند رہتے تھے۔یہی ان کی وجہ شہرت بھی ہوتی تھی ۔ علم وادب کے فروغ کا ذریعہ بھی اور معاشی تنگ دستیوں سے نجات کاذریعہ بھی یہی ہوتا تھا۔ دوسری طرف آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ انٹرٹینمنٹ کے میدان بھی محدوداور مقامی ہوتے تھے۔یہ صنعتی انقلاب کے بعد ممکن ہوپایاہے کہ انٹرٹینمنٹ کے ہیروز شاہی دربار کے بجائے عوامی مراکز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اس عوام کے حضور حاضر ہوتے ہیں جو انکے شوز وتقریبات کے لیے ٹکٹ خرید سکتی تھی ، ٹی وی سکرین پر انہیں دیکھ سکتی تھی ، ان کی تحریریں پڑھ سکتی تھی یا ریکارڈنگز خرید سکتی تھی ۔یہ تاریخ میں پہلی بار ہو پایا ہےکہ ایک طرف تو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پھیلی ہے،لوگوں کو دستیاب انٹرٹینمنٹ کے ذرائع میں وسعت آئی ہےتو دوسری طرف وہ امراء جو انٹرٹینمنٹ کے ہیروز کی سرپرستی کرتے تھے،وہ خود ان ہیروز کے فیشن و ثقافت کو نقل کرنے میں خوشی و فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔یہ ہیروز اب سپر ایلیٹ میں شمار ہوتے ہیں۔آج جو جتنا مشہور و مقبول ہے اتنا ہی زیادہ دولت مند ہے – یہ سسٹم کی ان پر نوازشات ہیں جو انہوں نے کمایا ہے ۔کیپٹلزم سے متضاد کمیونسٹ معاشروں میں جیسا کہ سوویت یونین ، وہاں شعراء ادباء اور انٹرٹینمنٹ کے دوسرے ہیروز کی حالت کیسی تھی آپ تاریخ میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔کیا یہ سچ نہیں کہ وہ ہیروز جنہوں نے اقتدار کی مخالفت کی بدترین انجام سے دوچار ہوئے؟

موسیقی اور انٹرٹینمنٹ بھی پیداوار(پروڈکشن) ہیں ،کیونکہ یہ افراد کی طلب و آرزو کو تسکین فراہم کرتی ہیں۔ان میں صارفین کے اعتبار سے پنہاں (Inherited ) ویلیو موجود ہےجو فرد سے فرد اور انٹرٹینمنٹ کے شعبہ در شعبہ مختلف ہے۔مثال کے طور پر لوگ فلموں سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں بہ نسبت فائن آرٹس کے– پھر ان فلموں میں پسند و ناپسند کی مختلف کیٹیگریز ہیں – موسیقی میں بھی فرد سے فرد پسند و ناپسند کی مختلف ترجیحات پائی جاتی ہیں کوئی کلاسیکل پسند کرتا ہے تو کوئی بھنگڑا وغیرہ – انٹرٹینمنٹ کی انڈسٹری مقامی و بین الاقوامی طور پر بہت وسیع ہے اور اس سے کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

 

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments