ابلتے عوامی جذبات اور سفاکانہ چسکہ فروشی


مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے ذکر سے آج گریز کا ارادہ ہے۔اس ضمن میں ’’ناغہ‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے البتہ یہ رائے دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اسلام آباد ایک متاثرکن ہجوم کے ساتھ پہنچ بھی گئے تو عمران خان صاحب کا استعفیٰ فی الوقت لے نہیں پائیں گے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو قوی امید ے کہ وہ دھواں دار تقاریر کے بعد ایک ’’چارٹر آف ڈیمانڈز‘‘ کا اعلان کریں گے۔ انہیں تسلیم کرنے کو کوئی’’ڈیڈ لائن‘‘ دیتے ہوئے ’’ورنہ…‘‘ کی دھمکی کے ساتھ وفاقی دارالحکومت سے واپس لوٹ جائیں گے۔عمران خان صاحب کی طرح کئی روز تک اس شہر میں دھرنا دئیے بیٹھے نہیں رہیں گے۔

مولانا کی حکمت عملی سے قطعی نابلد ہونے کے سبب میں جبلی طورپر اس تجزیے سے اتفاق کو مائل ہوں۔ سیاست میں اگرچہ X-Factorsکو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ویسے بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو بہت دنوں سے عالمی تناظر میں رکھتے ہوئے سمجھنے کی کاوشوں پراصرار کئے چلا جارہا ہوں۔بدھ کی صبح چھپنے والے کالم میں لبنان کا ذکر بھی ہوا تھا۔اب اس ملک کے وزیر اعظم نے مظاہرین کی خواہش کے مطابق استعفیٰ کا اعلان کردیا ہے۔وہ سنی اشرافیہ کے نمائندے تھے۔مسیحی اشرافیہ مگر نئے ا نتخابات کو تیار نہیں۔شیعہ لبنانیوں کی اکثریت ’’حزب اللہ‘‘ کے ساتھ ہے۔حسن نصراللہ کی قیادت میں انتہائی منظم اور فوجی اعتبار سے ریاستی قوت کی حامل یہ جماعت بھی فی الوقت Power Sharing کے اس بندوبست کو چھیڑنا نہیں چاہتی جو پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد فرانس نے لبنان پرمسلط کیا تھا۔ہانگ کانگ کی طرح لبنان کی سڑکوں پر احتجاج لہذا جاری رہے گا۔محض دُعا ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ احتجاج بالآخر لبنان کو ایک بار پھر وحشیانہ خانہ جنگی کی جانب نہ دھکیلے۔مذاکرات ہی سے لبنان کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوئی صورت نکل آئے۔

لبنان ہو یا لاطینی امریکہ کا چلی۔ان دوممالک میں لوگ بنیادی طورپر ٹھوس اقتصادی وجوہات کی بناء پر احتجاج کو مجبور ہورہے ہیں۔ان ممالک کے عام شہریوں کی اکثریت کو شکوہ ہے کہ ان کی ریاستیں ایسی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں جن کی تمام تر توجہ سرکاری خزانے کو زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کے اطلاق کے ذریعے بھرنے پر مرکوز ہے۔ان پالیسیوں کی وجہ سے کاروبار سکڑ رہے ہیں۔بے روزگاری میںاضافہ ہورہا ہے۔متوسط طبقہ ایک ’’باعزت‘‘ مقام سے خطِ غربت کی جانب لڑھک رہا ہے۔ اس کے لئے Upward Mobility کے امکانات معدوم تر ہوتے جارہے ہیں۔

پاکستان کی معیشت بھی ان دنوں ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہے۔مولانا فضل الرحمن کے مارچ کی ’’کامیابی‘‘ یا ’’ناکامی‘‘ اس کیفیت کا مداوا نہیں۔یہ مارچ مگر لوگوں کے دلوں میں جمع غصے کو بھڑاس کی صورت نکالنے کا ایک راستہ ہے۔ٹھوس معاشی مشکلات اپنی جگہ قائم ہیں۔ان کی سنگینی میں بتدریج بلکہ اضافہ ہورہا ہے۔

میرے اور آپ جیسے شہریوں کی اکثریت کو ہرگز اندازہ نہیں ہے کہ اس برس کے آغاز میں ہمارے ہاں جو گندم پیدا ہوئی تھی وہ کئی وجوہات کی بناء پر گزشتہ کئی برسوں کی اوسط پیداوار کے برابر نہیں تھی۔شہروں میں جودیہاڑی دار افراد ہیں ان کے گھرانے قصبات اور گائوں وغیرہ ہی میں مقیم رہتے ہیں۔گندم کی فصل کاٹنے کے بعد یہ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق سال بھر کے لئے گندم خرید کر اپنے گھروں میں رکھ لیا کرتے تھے۔اس بار جب فصل کٹی تو بے تحاشہ افراد کو ا ن کی ضرورت کی گندم میسر نہ ہوئی۔بڑے تاجروں کے کارندوں نے دیہاتوں میں جاکر کٹی فصل کو کھیت ہی سے اٹھانا شروع کردیا۔پنجاب کے اکثر چھوٹے شہروں اور قصبات میں اب آٹے کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کا اثر بڑے شہروں میں نظر آیا تو شہری متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت بھی بلبلااٹھے گی۔اس برس ہمارے ہاں بارشیں وافر مقدار میں ہوئی ہیں۔زمین میں اس کی وجہ سے جو ’’وتر‘‘ یعنی Wetnessہے وہ گندم کی بہتر پیداوار کی نوید دیتا ہے۔بارانی علاقوں کے لئے اچھی فصل کے لئے جو بیج درکار ہے وہ مگر نسبتاََ گراں قیمت پر بھی دستیاب نہیں ہے۔

گندم کے علاوہ کپاس کا ذکر بھی ضروری ہے۔اس بار ہمارے ہاں وہ وافر تعداد میں پیدا نہیں ہوئی۔ عمران حکومت درآمدات کی کمی سے خسارے میں کمی کے دعوے کررہی ہے۔برآمدات بڑھانے کے ارادے ہیں۔ ٹیکسٹائل کے ضمن میں ہوئی برآمدات کی شرح برقرار رکھنے کے لئے ہمیں دیگر ممالک سے اب کپاس یا دھاگہ خریدنا ہوگا۔ درآمدات کی کمی کی بدولت نظر آتا ’’توازن‘‘ لہذا بگڑ جائے گا۔ ہم تقریباََ آنے والی تھاں‘‘ پر لوٹ آئیں گے۔

زرعی منظر کے متوازی بڑے شہروں کے تاجر شٹرڈائون کئے ہوئے ہیں۔وہFBRکے Tax Netسے شاکی ہیں۔انہیں یہ خوف ہے کہ پچاس ہزار کی خریداری پر اگر صارف کے شناختی کارڈ کے اندراج کی شرط برقرار رہی تو ان کی ’’بکری‘‘ کم ہوجائے گی۔فقط دکاندار ہی نہیں صارفین بھی ’’عیاشی‘‘ ٹھہرائی خریداری سے گھبرائیں گے۔ان کی گھبراہٹ بازار میں پھیلی کسادبازاری کو سنگین تر بنادے گی۔

Documentationکی خواہش مگر Tax Net بڑھانے کی وجہ ہی سے نہیں ابھری۔ FATFکی شرائط بھی اس ضمن میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے اب فروری 2020 تک کی مہلت دی گئی ہے۔اس ’’مہلت‘‘ کے بارے میں ہمارے یار چین نے تشویش کا اظہار شروع کردیا ہے۔ عالمی معیشت کے نگہبان اداروں میں اس کی رائے یقینا بہت مؤثر ہے۔حتمی فیصلے مگر اب بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مرضی سے ہوتے ہیں۔FATFکے ذریعے امریکہ اور اس کے اتحادی جن افراد کو ’’نشانہ‘‘ بنانا چاہ رہے ہیں وہ فی الحال ان کی خواہش کے مطابق بنائے شکنجے میں جکڑے نظر نہیں آرہے۔

FATF نے البتہ جو Document Regime ہم پر مسلط کی ہے اس کی زد میں ’’غیر رسمی‘‘ تجارت کے عادی پاکستانی ہی آئے ہیں۔ ان پاکستانیوں کا نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہے۔انتہائی دیانت داری سے وہ انٹرنیٹ کی بدولت کھلی منڈی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی اجناس کو ’’غیر رسمی‘‘ تجارت کے ذریعے نئے خریداروں تک پہنچارہے تھے۔ ہر نوعیت کی ’’غیر رسمی‘‘ تجارت کو مگر ’’دہشت گردی کیلئے فنڈنگ‘‘ کا ذریعہ ٹھہرادیا گیا ہے۔

کئی بار اس کالم میں التجا کرچکا ہوں کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے فقط معاشی بنیادوں پر فیصلے نہیں کرتے۔ IMFہو یا FATFان کی تمام تر پالیسیاں بالآخر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دفاعی اور خارجہ امور سے متعلق ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرتب ومسلط کی جاتی ہیں۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ FATFکی ’’ڈیڈ لائن‘‘ آنے کے چند ہی دنوں بعد زلمے خلیل زاد دوبارہ متحرک ہوگیا۔ روس اور چین کو ساتھ ملاکر اب طالبان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ امریکہ کے علاوہ ’’افغان حکومت‘‘ سے بھی مذاکرات کریں۔ان مذاکرات کی ’’کامیابی‘‘ کو یقینی بنانے کیلئے مذاکرات سے قبل سیز فائر کا اعلان بھی ہو۔

طالبان کی صفوں میں ’’سیز فائر‘‘ پراتفاق بہت دشوار نظر ا ٓرہا ہے۔فرض کیا کہ وہ اس پر رضا مند ہوبھی جائیں تو ان کے ’’میدان جنگ‘‘ میں متحرک کئی کمانڈر داعش یا ISISکے ساتھ مل جائیں گے۔ داعش کا ’’خلیفہ‘‘ ابوبکر البغدادی گزشتہ ہفتے اسامہ بن لادن کی طرح ماردیا گیا ہے۔اس کی لاش بھی سمندر برد ہوئی۔داعش اب بے چین ہے کہ ٹرمپ انظامیہ کو یہ پیغام دے کہ اپنے ’’خلیفہ‘‘ کو کھودینے کے باوجود اس کی طاقت میں کمی نہیں آئی ہے۔ملاعمر اور ملامنصور کی ہلاکت کے باوجود طالبان کی قوت بھی برقرار رہی تھی۔امریکہ اس سے دوحہ میں مذاکرات پر مجبور ہوا۔ داعش نے افغانستان میں اپنے وجود کا دہشت گردی کے کئی واقعات کے ذریعے گزشتہ چند مہینوں میں بہت شدت سے احساس دلایا ہے۔اپنے ’’خلیفہ‘‘ کی ہلاکت کے بعد وہ افغانستان میں بھی کچھ ’’بڑا‘‘ کرکے دکھانا چاہے گی ۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر غور کرتے ہوئے ہمیں مذکورہ بالاحقائق پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن کا مارچ ہمارے ہاں اُبلتے جذبات کی محض ایک ’’جھلک‘‘ ہے۔ نواز شریف کے ساتھ ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کے تذکرے وسیع تر تناظر میں فقط سفاکانہ چسکہ فروشی ہے۔ٹھوس حقائق کو دیانت داری سے بیان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔امڈتے طوفان کے تدارک کی اس کے علاوہ اور کوئی راہ موجود نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).