استعفی دیں شیخ رشید صاحب کے دشمن


بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب ہم یونیورسٹی کی ایک اسائنمنٹ کے بہانے لوہاری دروازے گئے۔ جی، بہانہ ہی تھا ورنہ عمر کے اس حصے میں کون کافر ریسرچ کا شوق لے کر بیٹھے تھا۔ لاہور شہر میں اپنائیت کا یہ عالم ہے کہ ہم لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون بیٹھا ہے۔ جھٹ سے انجان لوگوں کو بھائی، خالہ اور چچا بنا لیتے ہیں۔ کسی کو بھی نام سے پکارنا ہماری تہذیب کے خلاف ہے۔

تلی ہوئی رہو مچھلی کھاتے ہوئے دکان بزرگ  ریڑھی بان سے گفتگو شروع ہو گئی۔ انہوں نے ہم سے ہماری تعلیم اور والد صاحب کا ذریعہ معاش پوچھا۔  ‘ابو کیا کرتے ہیں؟’ جب تسلی ہو گئی کہ ہمارا تعلق ایک شریف گھرانے سے ہے تو ان صاحب نے ہمیں جھٹ  اپنی بیٹیاں بنا لیا اور ہمیں نصیحتیں  کرنے لگے۔ دوبارہ واضح کرتے چلیں کہ عمر کے اس حصے میں انسان کو اپنا آپ عقل کل لگتا ہے اور گیان سے خاص طور پر خار  آتی ہے۔ اس لیے چنداں یاد نہیں کہ انہوں نے کیا تلقین کی تھی ماسوائے اس کے کہ کبھی زندگی میں اپنے کسی فعل کا ذمہ دار دوسرے کو مت ٹھہراو۔ اگر ایک غلطی کی ہے تو اسے کسی دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اس کا ادراک کرو۔ اس کا اعتراف کرو۔

مچھلی تلتے ہوئے اپنا چہرہ پونچھتے بزرگ کی یہ بات آج بھی یاد ہے۔ یاد رہنی بھی چاہیئے۔ سب کچھ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کے لیے نہیں ہوتا۔ جس معاشرے میں بچے کی بیماری کا الزام بھی پڑوسن  کی کالی نظر پر دھر دیا جاتا ہے وہاں کسی کا ایسی بات کرنا واقعی غیر معمولی قصہ تھا۔ آج بھی یاد ہے۔ آج صبح اٹھتے ہی تیزگام ایکسپریس کی بوگیوں میں آگ لگنے کی خبر سننے کو ملی۔کئی لوگ جل کر بھسم ہوگئے۔ بہت سے زخمی ہو گئے جن کی یہ گارنٹی بھی نہیں کہ وہ بچ پائیں گے یا نہیں۔ کتنے خاندان ختم ہو گئے۔ کتنی زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے۔

معلوم ہوا ہے کہ بوگی میں پڑے گیس کے سلنڈر سے آگ لگی ہے۔ جو ہوا بہت برا ہوا۔ لیکن ایک بات کہوں؟ صرف یہی برا  نہیں ہوا۔ وزیر ریلوے جو بھارت کو تو خوب اچھل اچھل کر دھمکیاں دیتے ہیں اپنی وزارت میں ہونے والے اس اندوہناک واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الٹا مرنے والوں پر مدعا ڈال رہے ہیں۔ ظاہری بات ہے۔ قصور مرنے والے کا ہی ہے۔ عملہ تو یوں بھی گونگا، بہرا، اور نابینا تھا جس نے یہ سلنڈر ٹرین میں آنے دیا۔۔وزیر صاحب کو بھی تو محض بیان داغنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ تو وہ برساتے ہی رہتے ہیں۔ ریل گاڑیاں پٹڑی سے الٹنے کے قصے بھی ان کی وزارت میں بڑھ چکے ہیں لیکن یہ سب بھی مسافروں کا قصور ہے۔ کس نے کہا تھا ٹرین پر چڑھیں؟ بیل گاڑیوں پر کیوں نہیں سفر کرتے؟ سب مسافروں کا قصور ہے۔

سب مہنگائی پچھلی حکومت کا قصور ہے۔ ہسپتالوں میں مفت ادویات نہ ملنا گذشتہ حکومت کی کرپشن ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام عالم میں ہماری تنہائی مسلم امہ کا خون سفید ہونے کی وجہ سے ہے۔ لاہور فضائی آلودگی کی خطرناک حدود عبور کر چکا ہے جو کہ بھارت کا قصور ہے۔ ڈینگی کی وبا موسم کی وجہ سے پھیلی ہے۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شان و شوکت سے مقیم ہے کیونکہ مولویوں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ سب اپوزیشن کا قصور ہے۔ سیاسی قیدی اور پروفیسر نیب کی تحویل میں یا تو مار دیے جاتے ہیں یا مرنے کے قریب پہنچا دیے جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے۔

صلاح الدین اور سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے قاتلوں کی زندگیاں گلزار ہیں تو یہ ان کے لواحقین کا قصور ہے۔ سب کسی نہ کسی کا قصور ہے۔ حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ نہ اپنی مرضی سے آئے نہ اپنی مرضی سے کچھ کر پائے۔ ان کا کوئی قصور نہیں۔ ایک عام سے آفس میں بھی اگر کسی اسٹاف ممبر سے کوئی سنگین غلطی ہو تو مینیجر کی جواب طلبی ہوتی ہے کہ میاں ان سب کے باس تو تم ہو۔ اللہ نے ہر حاکم کو اس کی رعیت کے معاملات کا جوابدہ ٹھہرایا ہے۔ دریائے فرات پر کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو سوال حضرت عمر سے لیا جانا تھا۔

شیخ رشید صاحب، مدینہ کی ریاست میں حاکم ہر بات کے جوابدہ ہیں۔ یہاں تو زندہ انسان جل کر خاکستر ہو گئے اور آپ میں ابھی بھی اتنا حوصلہ ہے کہ مرنے والوں کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ وہ جو خان صاحب نے گلہ کیا تھا کہ انہیں اچھی ٹیم نہیں ملی کہیں وہ آپ کو تو نہیں کہہ رہے تھے؟ کاش آپ بھی اس دن ہمارے ساتھ لوہاری دروازے چلتے اور ان بزرگ سے زندگی بھر کا درس لے کر آتے۔ استعفی دیں آپ کے دشمن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).