تیز گام میں جل مرنے والے ذمہ دار


سانحہ تیز گام ایکسپریس ملکی تاریخ میں ہونے والے تمام ٹرین حادثوں کی طرح ایک اندوہ ناک سانحہ ہے، جس میں ابتدائی رپورٹ کے مطابق تہتر افراد ہلاک اور چونتیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ یہ ٹرین مسافروں کو لیے کراچی سے راولپنڈی کی جانب رواں دواں تھی، کہ ضلع رحیم یار خان کے علاقے لیاقت آباد میں آگ نے تین بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں نا قابل شناخت ہیں۔
وزیر ریلوے شیخ رشید کہتے ہیں، کہ مسافروں کی غلطی تھی، جس کی وجہ سے اتنا بڑا واقعہ پیش آیا۔ جب کہ عینی شاہدین کے مطابق، آگ ٹرین میں شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔

دونوں اطراف کے بیان سنتے ہی میرے ذہن میں چند سوالوں نے جنم لیا۔ حکام کے مطابق چند افراد کے ایک گروہ نے منع کرنے کے باوجود گیس سلنڈر میں آگ لگائی، جس کے وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ سوال یہ ہے کہ اس گروہ کو گیس سلنڈر ساتھ لے کر جانے کی اجازت کیوں دی گئی اور انتظامیہ کی جانب سے انہیں گیس سلنڈر کے استعمال سے روکنے کی بجائے اس سلنڈر کو اپنی تحویل میں کیوں نہ لیا گیا۔ تا کہ اس سانحے سے بچا جا سکتا؟حکام نے کہا، ہمارے پاس عملہ کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹرین کا عملہ پورا کرنا کس کی ذمہ داری ہے، تا کہ سفر کو محفوظ بنایا جا سکے؟ شیخ رشید نے ہلاک ہونے والے افراد کے لیے پندرہ پندرہ لاکھ فی کس امداد کا اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ پندرہ لاکھ بطور امداد دینے کی بجائے ریلوے نظام کی بحالی اور ریلوے انتطامیہ کے عملے میں مزید اضافے پر کیوں نہیں خرچ کیا جاتا؟۔

عینی شاہدین کے مطابق ٹرین میں آگ لگنے کی وجہ شاٹ سرکٹ تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا شیخ صاحب یا ان کے کسی افسر نے خود جا کر ریلوے کی بوگیوں کا دورہ کیا ہے کہ عوام کس حال میں سفر کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی مسئلے مسائل تو نہیں؟ عینی شاہدین کے مطابق ٹرین کی چین کام نہیں کر رہی تھی اور سوا ل یہاں یہ بھی ہے اتنی افراد ایک گھنٹے سے زائد آگ میں جھلستے رہے تو امدادی ٹیمیں کہاں تھیں؟ اس قسم کے واقعات سے نپٹنے اور امدادی ٹیموں سے رابطہ کرنے کے لیے اس دور جدید میں پاکستان ریلوے کے پاس ذریعہ ابلاغ کا کون سا نظام موجود ہے؟

چند دن قبل ایک صاحب کی جانب سے سوشل میڈیا پر دوران سفر بنائی گئی ریلوے کی فوٹج دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس فوٹیج میں پاکستان ریلوے کی حالت اور انتظامیہ کی کارکردگی جس قدر زبوں حالی کا شکار تھی، یوں معلوم ہوتا تھا کہ ریل گاڑی نہیں بلکہ کسی خانہ بدوش کی جھگی ہو۔ چلتی ٹرین سے آنے والی آوازیں چیخ چیخ کر اپنی حالت زار کا رونا رو رہی تھی۔ چھتوں سے رستا پانی اور ان کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کرتی لٹکتی ہوئی تاریں، پھٹی پرانی سیٹیں اور باتھ روم کی حالت ایسی تھیں، کہ کیا کہنے۔ یہ سب اس دو منٹ کی فوٹیج میں عیاں تھا۔

وزیر ریلوے کی اخلاقی جرات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے، کہ اس سانحہ پر ان کا کہنا تھا، میرے دور وزارت میں ریلوے کے سب سے کم حادثات پیش آئے۔ جیسے یہاں کوئی مقابلہ چل رہا ہو، کہ کس دور میں کم اور کس میں زیادہ واقعات ہوئے۔ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ سارا کا سارا ملبا مسافروں پر ڈالا جا رہا اور اب ہو گا یہ کہ ایک کمیٹی بنائی جائے گی، جو روایتی تحقیقات کرے گا، بس ایک معاملہ ختم اور کیا۔

میرا آج بھی وہی سوال ہے کہ اس قوم کے پلے کیا ہے، اس نے اپنے یا اپنے آباؤ اجداد یا آنے والے نسلوں کے لیے ایک سوئی بھی بنائی ہے؟ ریلوے کا وہی پرانا ٹریک جو انگریز بچھا کر گیا تھا، ہم تو آج بھی اسی پر گزارا کر رہے ہیں۔ ہم طفیلیے ہیں بس گوروں کی بنائی چیزیں استعمال کرنے والا، اس دنیا میں ہمارا حصہ ہی کیا ہے؟ تو جب یہ ریلوے کا نظام دیا ہوا انگریز کا ہے تو شکر کریں، یہ نہیں کہہ دیا گیا، کہ ہمارے خلاف یہ سازش انگریز کر کے گیا ہے۔

 وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے، کہ ٹرینوں کے افتتاخ کے لیے، شیخ رشید اور باقی پورے ریلوے نظام کی بحالی اور اسے محفوظ بنانے کے لیے کسی اور قابل وزیر کا اعلان کریں، جو ٹرین کے سفر کو محفوظ بنائے۔ باقی فیتے کاٹنے کو تو شیخ صاحب کا ہاتھ ہے ہی۔ آپ چاہے دو سو نئی ٹرینیں چلا دیں، بدلے میں سو ٹرینوں کے حادثات، قوم کو تحفے میں پیش کریں۔ یقین کریں آپ کو کوئی نہیں پو چھے گا اور نا ہی کسی انکوائری میں آپ کا نام آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).