“جب آئے گا عمران” سے “پھر آ گیا عمران” تک


ہم تھوڑا سا پیچھے کی طرف جاتے ہیں، معاشی صورتحال اگرچہ زیادہ قابل شتائش ہرگز نہ تھی لیکن وہ بتدریچ بہتری کی جانب گامزن ضرور ہوگئی تھی جس کا اعتراف عالمی ادارے بھی کرنے لگے تھے۔ دُنیا کا سب سے بڑا منصوبہ بلکہ عجوبہ سی پیک ضروری کاغذی کارروائی سے نکل کر عملی صورت کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ طویل اور تباہ کُن دھشت گردی پر پاک فوج مسلسل آپریشن کے ذریعے قابو پانے لگی تھی۔ کراچی الطاف حسین کے چنگل سے نکل کر امن و ترقی کی جانب بڑھ رہا تھا، مہنگائی کی شرح میں حیرت انگیز کمی آنے لگی تھی۔ خارجہ محاذ پر نئے حلیفوں کے ساتھ روابط اور مارکیٹ کی تلاش میں خاطر خواہ کامیابی ملنے لگی تھی۔

جمہوری عمل سست روی لیکن تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے لگا تھا کہ اچانک کسی منحوس پرندے کی مانند اسلام آباد کے وسط میں ایک کنٹینر نمودار ہوا اور یہاں سے اس بد نصیب وطن کی تباہی کا ایک سلسلہ چلا، پھر پارلیمان پر حملہ ہو یا پولیس پر دھاوا بولنا، ایمپائر کی اُنگلی سے گیلی شلواروں تک اور پھانسی دوں گا سے بل جلانے تک ایک ایسی خوفناک کہانی ہے جسے لکھتے ہوئے مؤرخ کا کلیجہ منہ کو آئے گا اور پھر اسی منظرنامے سے آر ٹی ایس سسٹم کی بندش اور عمران خان کی وزارت عظمٰی ایک بد بخت شب کو ایک ساتھ ہی پھوٹے۔

اگلا منظر نامہ اس سے بھی زیادہ خوفناک تھا کیونکہ پارلیمنٹ ہاؤس فواد چودھری، عامر لیاقت، شہریار آفریدی، فیصل واوڈا اور زرتاج گل جیسے زرخیز ذہنوں اور عالی دماغوں سے بھر چکا تھا۔ چند دنوں بعد ایوان صدر میں حلف برداری کی محفل برپا ہوئی اور نئے وزیراعظم صاحب غیر ملکی سفیروں، اعلٰی فوجی قیادت، سینئر بیوروکریٹس اور ذمہ دار منصبوں سے وابستہ دوسرے افراد کے سامنے مسلسل حلف کے الفاظ غلط بولتے اور ہنستے ہوئے بالآخر وزیراعظم کا حلف اُٹھانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔

گویا ”جب آئے گا عمران“ عطا اللّہ عیسٰی خیلوی کی سُر اور لے سے دامن چھڑا کر وزیراعظم ہاؤس کی راہداریوں میں گھس گیا اور پھر ایک عجیب و غریب عہد کا آغاز ہوتا ہے جس نے پاکستانی عوام کو ایک عرصے سے نہ ہنسانے میں کوئی کسر چھوڑی اور نہ رُلانے میں۔ حلف برداری کے چند دن بعد وزیراعظم صاحب نے چند سینئر صحافیوں کو چائے کی دعوت دی تاکہ انہیں اپنی ”وژن“ سے آگاہ کریں صحافی وزیراعظم ہاوس پہنچ گئے تو تھوڑی دیر بعد وزیراعظم عمران خان بھی تشریف لے آئے اور ابھی ایک کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ ایک ملازم بھاگتا ہوا آیا اور با آواز بلند کہا کہ وزیراعظم صاحب فرانس کے صدر کا فون ہے اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب نے یہ کہہ کر ملازم کو بھگا دیا کہ ان سے کہو کہ بعد میں فون کریں، اس وقت میں ضروری میٹنگ میں مصروف ہوں۔ یہ سُن کر سینئر صحافی ہکا بکا رہ گئے اور حیرت کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دو ممالک کے سربراہوں کے درمیان ایسے اچانک فون کھڑکانے کا سلسلہ نہیں ہوتا بلکہ سفارتی آداب اور نزاکتوں کو مدنظر رکھ کر پہلے ضروری بریفنگ کا انعقاد کیا جاتا ہے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے سامنے اھم نوٹس رکھے جاتے ہیں جس کے بعد متعلقہ اہم عہدیداروں کی موجودگی میں ایک مخصوص وقت پر دونوں سربراہوں کی ٹیلیفونک بات چیت کروائی جاتی ہے بہرحال بات آئی گئی لیکن طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ دو دن بعد فرانسیسی حکومت نے فون کال کے حوالے سے اس بیان کے ساتھ اپنی تردید جاری کردی کہ ہمارا صدر تو غیر ملکی دورے پر ہے اور غیر ملکی دورے کے دوران کسی سربراہ مملکت کو فون کرنا ہماری سفارتی آداب اور پروٹوکول کا حصہ نہیں۔

 اس ”وقوعے“ سے پہلے تو عوام میں شرمندگی اور تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی لیکن ربّ ذوالجلال کی مہربانی سے اب وہ ان واقعات و حادثات کے عادی ہو گئے ہیں کیونکہ آئے روز اب عوام کو اس سے ملتی جلتی”صورتحال“ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھینسوں، کٹوں، انڈوں اور چوزوں کا معاشی فلسفہ تو ایک طرف۔ کبھی مودی کو دیوانہ وار لیکن بے ثمر فون پر فون، کبھی امریکہ سے واپسی پر ورلڈکپ جیتنے جیسی خوشی کا اظہار اور فورًا بعد کشمیر کا تازہ سانحہ اور خارجہ محاذ پر شدید ناکامی، کبھی سعودی عرب اور ایران کے ڈیڑھ ہزار سالہ تہذیبی ٹکراؤ کی اصل حقائق اور وجوہات سمجھے بغیر اس کے خاتمے کی بے بصیرت اور بچگانہ کوشیش، کبھی کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے تین منٹ کھڑے ہونے کا نایاب فارمولہ، کبھی پروٹوکول اور سفارتی آداب سے عاری اور مفادات سے بالا تر ڈرائیونگ ڈپلومیسی تو کبھی یو ٹرن کو دانائی کی علامت گرداننا، کبھی سمندر میں پائپ داخل کرکے گیس کے بھبکوں کے خزانے نکالنا، ایک عجیب و غریب وژن کا سلسلہ ہے لیکن یہ سلسلہ یہاں بھی کہاں رکا۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے خوفناک مذاق بن گیا ہے، ڈالر کی قیمت دو سو روپے کی طرف محو پرواز ہے، معیشت تباہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہے۔

 اپنے ہی معاشی ارسطو اسد عمر کو کابینہ سے باہر دھکیل چکا ہے، عوام تاریخ کی سب سے بد ترین مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار تلے سسک رہے ہیں، یہ سلسلہ مزید دراز اور تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ پنجاب جیسے بڑ ے اور انتظامی حوالے سے اہم صوبے کی قسمت میں عثمان بزدار ہی لکھا تھا جس نے وزیراعلٰی بننے کے بعد پہلی بار قریب سے ہیلی کاپٹر بھی دیکھا اور پرنس ولئیم اور کیٹ میڈلٹن کی شکل میں انگریز بھی۔ پارٹی کی حالت یہ ہے کہ سب سے سینئر رکن اکبر ایس بابر صبح صبح فائل بغل میں دبائے فارن فنڈنگ کیس میں عدالتوں کا رُخ کرتا ہے، حامد خان، اعجاز چودھری اور عمر سرفراز چیمہ جیسے سینئیرز کے لئے شاید گمشدگی کا اشتہار دینا پڑے گا تاہم شیخ رشید، فردوس عاشق اعوان اور فواد چودھری کے ساتھ ساتھ زلفی بخاری اور انیل مسرت حکومت بھی چلا رہے ہیں اور پارٹی بھی، اگرچہ تاحال یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ لوگ پارٹی کے ارکان بھی ہیں یا نہیں۔

جب آئے گا عمران کا دوسرا حصہ یعنی“جب آ گیا عمران” پہلے حصے سے بھی زیادہ پریشان کن لیکن دلچسپ ہے کیونکہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے دو جملے سب سے زیادہ بولے ایک یہ کہ سب چور ہیں اور دوسرا (این آر او) نہیں دوں گا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ چور ہیں تو چوری کہاں ہوئی اور کون سے عدالت میں ثابت ہوئی اور پھر جج ارشد ملک کی ویڈیو نے تو سارا ڈرامہ ہی بے نقاب کردیا ہے جبکہ (این آر او) نہیں دوں گا جملہ تو وقت گزرنے اور غیر متوقع سیاسی نشیب وفراز کی وجہ سے اپنی اہمیت ہی کھو بیٹھا ہے کیونکہ نئے سیاسی منظرنامے میں (این آر او) ان بوسیدہ اور متروک اوزار کی مانند ہے جسے سرے سے کوئی گاہک ہی میّسر نہیں پھر اس کوڑا کباڑ چیز (این آر او) کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھیکنا ہی دانائی ہے لیکن اگر وزیراعظم صاحب اس بے قیمت اور بے وقعت بیانیے سے بھی محروم ہوئے تو وہ اپنے جذباتی اور سادہ لوح پیروکاروں کو کون سے سیاسی نعرے کے جھنجنے سے بہلائے گے اور پھر بانجھ صداؤں اور اُجڑی ہوئی سیاسی دوکان میں بچے گا کیا؟

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).