کالج کی یادوں کا بوجھ



“یہ یادوں کا بوجھ اتنا وزنی کیوں ہوتا ہے؟ کسی کے ساتھ بتائے ہوئے پل اتنے یاد کیوں آتے ہیں؟  جنہوں نے ساتھ چھوڑ جانا ہو، ایسے لوگ ہماری زندگیوں میں آتے ہی کیوں ہیں؟ جن کے ساتھ اکھٹے اتنے لمحات گزرے ہوں،انکے بنا زندگی کیسے گزرے گی؟؟ ”
آج کل کچھ ایسے ہی احسات فائنل ائیر کے ہیں۔جن کے اس کالج میں کچھ آخری دن باقی ہیں۔ سارا دن اسی سوچ میں گزر جاتا ہے کہ یہ وقت اتنی جلدی گزر کیسا گیا؟؟  ابھی کل ہی تو اس کالج میں داخلہ لیا تھا اور آج بس جانے کی تیاری ہے۔ شاید وقت کی سب سے بڑی خوبی اور خامی یہ ہی کہ جیسا بھی ہو ،گزر ہی جاتا ہے۔ جب گزر جاتا ہے تو یادوں کا بوجھ ہمارے کاندھوں پر چھوڑ جاتا ہے ۔
کالج کی حسین روایات کو جاری رکھتے ہوئے، 4th year mbbs نے فائنل ائیر کو الوداعی پارٹی دی اور یوں غمزدہ فائنل ائیر مزید افسردہ ہو گئی ۔  شہر کی مشہور مارکی میں کیا گیا تھا ۔ 4th year نے تو اس تقریب میں پورے جوش و خروش کے ساتھ لیا البتہ فائنل ائیر پوری تقریب میں دکھی دکھی نظر آئ۔
یہ فائنل ائیر (2014-2019) بڑی عجیب کلاس ہے۔ مسلسل چار سال سے class of the year بنتی آ رہی ہے۔ نصابی اور  غیر نصابی سرگرمیوں میں سب سے آگے۔ اس کلاس کی unity اگر قابل دید ہے تو اس کلاس کی لڑائیاں بھی دیکھنے کے لائق ہیں۔تقریباً ہر ٹیچر کی پسندیدہ کلاس یہ ہی ہے۔ یہ کلاس فنکاروں سے بڑی پڑی ہے۔serious اور non serious attitude اس کلاس پر ختم ہے۔
اس کلاس کا آغاز دو نومبر 2014 کو ہوا تھا۔ سب یہی سوچتے تھے کہ میڈیکل کالج کے پانچ سال کیسے گزرے گے؟  اور آج جب گزر گئے ہیں تو سب اداس ہیں کہ اتنی جلدی کیوں گزر گئے ۔ اس کلاس کو ویلکم ڈاکٹر حسنات کی کلاس نے دیا تھا۔آج یہ farewell لے رہے ہیں اور میڈیکل کے پانچ سال اسی welcome اور farewell کے درمیان کہیں گزر گئے ۔
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ شافع اور صائم کی سپورٹس ویک کے لئے لڑائی ہو رہی ہے ۔ کونسا تھیم کرنا joker  یا pubg ،اس کے لئے کلاس میں گروپنگ ہو رہی ہے۔ فیضان اس لیے سب سے لڑ رہا کہ اسے پارٹی کا بتایا کیوں نہیں گیا ۔ شاہ زیب اس بات پر ناراض ہے کہ اس کی تصویریں کم لی گئی تھی ۔ ابو بکر، شاہ زیب کو سب کے سامنے جگتیں مار رہا ۔ اس بات ہر شرط لگ رہی ہے کہ شافع نے کس کس کو فیسبک پہ بلاک کیا تھا ۔ شہریار، یوسف کو کہہ رہا کہ مجھے ننید بہت آ رہی، میری وارڈ میں پروکسی لگا دینا۔ کچھ نے دوستوں سے تنگ آ کر پونی ڈال لی ہے،۔ اسد اللہ آرام سے لائبریری میں پڑھ رہا ہو گا،  وغیرہ وغیرہ۔ پانچ سال تو اسی لڑائیوں کے بیچ گزر گئے ۔
میڈیکل کالج میں بتائے پانچ سال اسی طرح گزر جاتے ہیں۔پہلے چار مہینے سپورٹس ویک، اینول ڈنر میں گزر جاتے ہیں ۔ دو مہینے چھٹیاں کھا جاتی ہیں ۔ جب آنکھ کھلتی ہے تو پراف سر پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ خود سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگلے سال ساتھ ساتھ پڑھیں گے، لیکن وہ اگلا سال پانچ سالوں میں کھبی نہیں آیا۔
پانچ سال پہلے جب welcome پارٹی لے رہے تھے تو اداس تھے کہ پانچ سال کا لمبا عرصہ گرزے گا کیسے، آج پانچ سال بعد farewell پہ رو رہے تھے کہ گزرا تو گزرا کیوں۔ اس تقریب کے روح رواں فورتھ ائیر سے معیز نواز تھے۔ انہوں نے اس تقریب کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نا چھوڑی تھی ۔انکے ساتھ انکی ٹیم نے بہترین کام کیا تھا۔ جنکی پرفارمنس تھی انہوں نے بہترین پرفارمنس دی ۔
میڈیکل کالج کے پانچ سال ایسے ہی ہوتے ہیں ، زندگی سے  بھرپور ۔ لڑائیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ انہی کے درمیان یادیں بنتی رہتی ہیں ۔ جب ان پانچ سالوں کا سوچو تو آنکھوں سے آنسوؤں کی اک لڑی رواں ہو جاتی ہے۔ بس دل سے ایک ہی خواہش نکلتی ہے کہ کاش یہ پانچ سال واپس آ جائیں ۔
محسن نے جب پانچ سالوں پر محیط ویڈیو چلائی تو یادوں کی ایک فلم ہی چل پڑی ۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔۔ شاید ہم اسی لئے انسان ہیں کیونکہ ہم احساسات رکھتے ہیں۔ یہ آنسوؤں کم تھے۔۔۔ بچھڑنے کا ڈر زیادہ تھا۔
کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر یوسف شاہ صاحب کی تقریر بھی کچھ ایسی تھی، انکا کہنا تھا ” یہ آپ اکیلے نہیں جو اس کالج سے چلے جاتے ہیں، میرا ایک حصہ بھی آپ کے ساتھ چلا جاتا ہے” ان کی پانچ منٹ کی تقریر ہمارے پانچ سالوں کی یادوں نچوڑ تھا۔
اسی اثنا میں کسی نے نے دکھی سا گانا چلا دیا۔۔اس نے رہی سہی کسر بھی پوری نکال دی۔۔ سب نم آنکھوں سے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔۔۔ ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔۔ ملتے رہیں گے۔ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۔  کچھ ایسے وعدے کر رہے تھے۔
یہ یادیں ایسی کیوں ہوتی ہیں ۔کیوں ہم انکے بنا جینا بھی چاہیں تو چاہتے ہوئے بھی جی نہیں پاتے۔ ہم یادوں کے سہارے زندہ کیوں نہیں رہ سکتے۔  جنہوں نے چھوڑ جانا ہو، وہ زندگی میں آتے ہی کیوں ہیں ۔ میڈیکل کالج کے پانچ سالوں بعد جدائی کیوں لازم ہے۔۔۔۔۔۔ شاید یادوں کا دوسرا نام ہی جدائی ہے۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).