ہمارا خواب ٹوٹ گیا ، عمران خان ہمارے دل سے نکل گئے


 جب کبھی باہر ممالک کا سنتے تھے کہ وہاں بہت سہولیات ہیں تعمیر و ترقی بہت ہے عوام کی بڑی عزت ہوتی ہے, قانون کی بالادستی ہوتی ہے اور بہت آسائشیں ہیں تو اپنی حکومت پر غصہ آتا تھا ۔  ہمارے ملک میں یہ سب کیوں نہیں ہے اور ہر دفعہ حکومت بدلنے پر اپنے ملک کے حالات کو یورپ امریکہ جیسا ہونے کا خواب سجا لیتے تھے ۔ حکومتیں بدلتی رہیں لیکن ہمارے حالات نہ بدلے ۔

پی پی پی اور پی ایم ایل این سے مایوس ہو کر ہم نے امیدوں کا رخ عمران خان صاحب کی طرف کر لیا, دو ہزار چودہ کے دھرنے میں بھرپور شرکت کی اور روزانہ جانا اپنا فرض سمجھتے تھے اس دن بھی جب عمران خان نے شیلنگ کے بعد صرف بیس بندوں کے آگے تقریر کی اس وقت اس کی دیوانی نادیہ خٹک صاحبہ بھی گھر میں بیٹھی تھی ہم البتہ موجود تھے۔ تب سے لے کر الیکشن تک ہر محاذ پر عمران خان کو سپورٹ کرنا جیسے واجب ہو گیا تھا لوگوں کے ساتھ بات کرتے سوشل میڈیا ہر جگہ بس عمران خان کے سپاہی والی ڈیوٹی تھی۔

ہم اس لیے عمران خان کے پیچھے نہیں تھے کہ ہینڈسم ہیں ۔ ہم ان کی باتوں کے عاشق تھے ۔ ان کی باتیں ملک کو بدلنے والی باتیں, مہنگائی ختم, ایجوکیشن, ہیلتھ. روزگار, انصاف, غریب کا حق نا جانے کیا کیا باتیں لمبی لمبی چھوڑا کرتے تھے ۔ الیکشن کے قریب آتے ایسے لگنے لگا کے تھوڑے عرصے میں بچپن کے سارے خواب پورے ہونگے, امی کو بولا کہ بس امی تھوڑے دن ہے اس کے بعد مزے ہونگے۔ الیکشن جیتنے پر دیوانوں کی طرح  خوشیاں منائیں اور تاک تاک کر نواز, مریم, رانا ثناءاللہ اور مریم اورنگزیب پی پی پی کے بندوں کو سوشل میڈیا پر طعنے دیئے۔

کچھ مہینوں تک حالات نارمل رہے پھر آہستہ آہستہ چیزیں مہنگی ہونے لگی, لیکن یہ سننے میں آیا کہ زرداری اور نواز نے ملک کی تباہی پھیر دی ہے تو تھوڑا صبر سے کام لیں لیکن کافی عرصہ گزرنے کے بعد  بھی کچھ نہ بدلا حالات خراب ہوتے رہے  بے قابو ہوتے دکھائی دیے ۔ ہم تب  بھی تھوڑا کھسیانے ہو کر عمران خان کو سپورٹ کرتے تھے۔ کیا ڈالر, پیٹرول, روزمرہ کا سامان, کپڑے, دوائیاں, گورمنٹ ہسپتال کی کافی سہولیات جو اب مفت ملنا ختم ان سب سے غریب پر اور بوجھ کا آنا اور اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافے, اب تو گھبراہٹ ہونے لگی اب کوئی عمران خان کو کوستا تو چپ ہو کر اس کو دیکھتے اور سنتے ۔

ہم خاموش تماشائی بننے لگے. پولیس سٹیشن, عدالتوں, ہسپتالوں میں غریبوں کے دھکے کھانا, سانحہ ساہیوال پر بی حسی, مڈل ٹاؤن , کلبھوشن, عافیہ پر سیاست کرکے آنا اور خود اقتدار میں آکر بھول جانا۔ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی اور عمران خان کا یو ٹرن, جہانگیر ترین کے اور باقی فائدہ دینے والوں کے قرضے معاف کرنے کی کوششیں ۔ ہمارے ٹیکس سے اپنے فائنانسروں کو فائدہ پہنچانے کی باتیں سنتے رہے ، ان سے دور ہوتے گئے ۔

احتساب کے معاملے پر اپنی بہن کے لئے ایک قانون دوسرے کے لئے دوسرا۔ پہلے کی طرح پولیس سٹیشن میں خوار پھرتے لوگ ۔ وہیں طاقتور لوگوں کی من مانیاں ۔

یہ تو ہمارے ساتھ منٹو کے استاد منگو ٹانگے  والے والا معاملہ ہوا۔ اپنے ناکامی کا ملبہ پچھلوں پر لیکن تھوڑے عرصے میں اسد عمر کو قصوروار قرار دینا، نئے لوگوں کو آگے لانے کی باتیں لیکن پرانے لوگوں کو کابینہ میں رکھنا، فردوس عاشق اعوان پی پی پی سے کس منہ سے ان کرپشن کا جواب مانگتی ہے جس سے ملنے والے روپے اب تک اس کے بنک میں پڑے ہیں، جن کے احتساب کی باتیں عمران خان کرتا تھا آدھے تو ان کی اپنی  کابینہ کا حصہ ہیں۔ ملک کو ٹھیک کرنے کی بجائے نواز زرداری کو سزا دلوانے پر زیادہ توجہ دینا،یہ سب دیکھ کر ہمیں لگا کہ وہ کوئی اپنے بدلے لے رہے اپنا حساب برابر کر رہے ۔ ہمارا خواب ٹوٹ گیا ، عمران خان ہمارے دل سے نکل گئے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).