نفرت و انتقام کی سیاست جذبۂ انسانیت پر غالب آ چکی


عفو و درگزر اللہ ربّ العزّت اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو بےحد پسند ہیں. اللہ پاک فرماتا ہے کہ میرے بندوں کی خطائیں اسی طرح معاف کیا کرو جیسے میں تمہاری خطائیں معاف کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکیپوری حیاتِ طیبہ عفو و درگذر،انسانیت کی بھلائی، پورے عالم انسانیت کی رحمت کا انتہائی اعلیٰ و ارفع نمونہ ہے، آپ صلعم نے انسانیت کو اپنی زندگی کا سب سے اہم شعار بنانے کے واضح احکامات اور تعلیمات دی ہیں، آپصلعم فرماتے تھے کہ جو اچھا انسان بننے کی خصلت سے محروم ہے وہ کبھی اچھا مسلمان نہیں بن سکتا۔ آج ارض پاک سیاسی عدم استحکام، عدم برداشت کی وجہ سے جن معاشرتی برائیوں کے بدترین دور سے گذر رہا ہے ان کی سب سے بڑی وجہ انسانیت اور انسانی جذبوں اور انسانی حقوق سے انحراف ہے۔

اللہ ربّ العزّت جب پیڑ میں پھل لگاتا ہے تو پیڑ جھک جاتا ہے اسی طرح کسی انسان کو اگر کوئی ایسا منصب مل جائے جو خلقِ خدا کی خدمت سے تعلق رکھتا ہو تو اسے انسانیت کی تعظیم میں جھک جانا چاہیے۔ اسے خلق خدا کی خدمت میں جھک جانا چاہیے۔ آج دنیا میں انسانوں کے درمیان جو طبقاتی تقسیم اور ان کے درمیان جو حقوق کی ناہمواری پائی جاتیہے اس کی بدترین مثال بااثر طاقتور طبقات یا حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے کمزور اور اپنے مخالفین کو مغلوب کرنے کی مادی خواہشات ہیں۔ جبکہ اسلام کے عادلانہ نظام میں تمام انسانی طبقات کے لیے مثالی توازن و ہم آہنگی اور ان کے حقوق و جذبات کی ہر ممکن آسانی پائی جاتی ہے۔

اسلام نے اپنی تمام تعلیمات میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک انہیں عام آزاد انسانوں کو حاصل سہولیات، ان کے کھانے پینے ان کے علاج معالجے،ان کے آرام ان کی عزت و احترام غرض ہر پہلو میں اعلیٰ انسانی قدروں کو عادلانہ نظام میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ “قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو” مگر یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب کے معاملات ہی دوسرے ہیں تکبر، رعونت ان کے انگ انگ سے جھلکتی ہے، “میں” ان کے کردار کا خاصہ ہے، ذاتی و سیاسی مخالفین کی تکلیف سے دلی روحانی تسکین کا حصول ان کی طبیعت، عادت اور فطرت کا حصہ نظر آتا ہے۔ ان کےسارے بیانئے میں سوائے سیاسی مخالفین کے خلاف احتساب کی آڑ میں انتقام کے، مفت و بہترین تعلیم و صحت کی فراہمی، اداروں کی مضبوطی اور ان میں تعیناتی میں شفافیت اور میرٹ لانے، پولیس و عدلیہ میں اصلاحات، بیروزگاری ختم کرنے، بےگھروں کو چھت فراہم کرنے، سمیت دیگر ان گنت وعدے اور دعوے کہیں نظر نہیں آتے۔

خان صاحب مخالفین سے انتقام میں اتنے آگے نکل گئے کہ تمام اگلے پچھلے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے، ان کے غصے نفرت کا شکار پاکستان کے دو ایسے سیاسی رہنما ہیں جو ان کے انتقام کی آگ میں جھلس کر خدانخواستہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ دونوں قیدی جن میں ایک ملک کے سابق منتخب صدر آصف علی زرداریہیں اور ایک ملک کےتین بار منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف ہیں۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب اس وقت خان صاحب کی بدترین نفرت و انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، ایک ایسے انتقام کا شکار جس نے انسانیت کو ہی شرمسار کیا ہوا ہے۔

میاں صاحب ایک کیس میں اقامہ کی بنیاد پہ سزا کاٹ رہے ہیں تو ایک بار پھر انہیں ایک اور مقدمے میں نامزد کر کے انہیں جیل سے نیب کی تحویل میں دے دیا گیا ہے، جبکہ آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے ایسےالزام میں پابند سلاسل ہیں جس میں نہ تو مقدمہ بنا ہے نہ ہی کوئی ثبوت یا شھادت ملی ہے۔ ان کے خلاف، مگر محض ایک شخص کی ذاتی انا اور سیاسی بیانیے کو تقویت پہنچانےکے لیئے ملک کے سابق صدر و سابق وزیراعظم کو نشانِ عبرت بنانے کی پوری کوششیں جا رہی ہیں۔ ان کے اسی جارحانہ و انتقامی رویوں کے باعث نیب اب ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔

نیب نے ملکی تاریخ میں بدترین یک طرفہ احتساب کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جس کی نظیر اس سے پہلے ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ نیب کی انہیں کارروائیوں کے خلاف وفاقی سیکریٹریز کی تنظیم نے بھی نیب کے خلاف اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نیب کو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے نیب قانون میں فوری تبدیلی اور نیب کو اپنے دائرہ اختیار میں رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی انتقام و احتساب کے کھیل میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں، ایک موت کے دروازے پہ دستک دیتا نیب کی تحویل سے ہسپتال میں موت سے لڑ رہا ہے تو دوسرا ہسپتال میں اپنی مضبوط قوتِ ارادی کے بل پر زندگی کے لیے پر امید، مگر خان صاحب جیسے سیاسی مخالف سے کسی بھی قسم کی رعایت یا رحم کی درخواست کرنے سے انکاری ہے۔

وزیراعظم صاحب کو ان کے اپنے پرائے بارہا یہ مشورے دیتے نظر آتے ہیں کہ خان صاحب اب ڈھونگ رچانا چھوڑیں اور ملک کی تباہ حال معیشت، اخلاقی پستیوں کی کھائی میں گِرتی معاشرتی سماجی اور سیاسی صورتحال کی جانب توجہ مرکوز کریں، مگر خان صاحب کسی آواز کسی مشورے کو اہمیت دینے کے لیئے تیار نہیں ہیں۔ ان کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد نظر آتا ہے اور وہ ہے ہر حالت میں اپنے مخالفین اپنے سیاسی حریفوں کو کرپشن احتساب کے نام پہ سیاسی منظرنامے سے ہمیشہ کے لیئے دور کر دینا اور انہیں اتنا کمزور کر دینا کہ کوئی ان کے سامنے سر اٹھا کے چل ہی نہ سکے۔

دوسری طرف خان صاحب کی لفظی گولا باری بریگیڈ کی سُرخیل فردوس عاشق اعوان سمیت کچھ دیگر وزراء اور اراکین مسلسل میاں صاحب اور زرداری صاحب سمیت دیگر مخالف سیاسی قیدیوں کی صحت کو طنز و تنقید کی زد پہ لیے ہوئے ہیں جو کہ انتہائی قابلِ مذمت گھٹیا حرکت کے زمرے میں آتی ہے۔ خان صاحب نے شاید اپنے گولا باری جتھوں کو دونوں قائدین کی صحت پہ تنقید سے منع بھی کیا ہے، مگر اگر یہی اقدامات معاملات کے اس نہج پہ پہنچنے سے پہلے ہی اٹھائے جاتے تو شاید آج جس شدید ترین تنقید کا سامنا خان صاحب اور ان کی حکومت کو درپیش ہے وہ نہ ہوتا۔

خان صاحب کو انسانیت اور اسلامی قدروں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحب کی زندگیوں کو لاحق خطرات، ان کی صحت کو درپیش مسائل اور ان کے علاج معالجے کی بہترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے اقدامات کو یقینی بنانا چاہیئے۔ اگر خدانخواستہ دونوں قائدین کی زندگیوں کے ساتھ کوئی سانحہ رونما ہوگیا تونہ صرف ملک کی یکجہتی، سالمیت اور استحکام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے بلکہ اس کا خمیازہ بھی پھر بحیثیت وزیراعظم خان صاحب کو ہی ادا کرنا پڑے گا جو یقیناً ان کےسیاسی کیریئر کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).