فوج طے کرے کہ آئندہ عام انتخابات سے ان کا کوئی تعلق نہیں: مولانا فضل الرحمان


جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہر الیکشن میں مداخلت کی جاتی ہے اور مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتی ہے، ہماری فوج اس بات کو طے کرے کہ آئندہ عام انتخابات سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اس سے ادارہ متنازع ہوتا ہے، ہم ادارے کو متنازع نہیں بنا نا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات الیکشن کمیشن، ٹربیونل اور عدالت نہیں کرے گی بلکہ پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اداروں کا دائرہ ہے۔ اپنے دائرے سے وابستہ رہیں گے تو ٹھیک ہے۔ اسلام آباد میں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج نے کہا تھا کہ از سر نو عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے کیونکہ ہم آئین سے بہت دور چلے گئے ہیں، لہذا سب اداروں کو طے کرنا ہو گا کہ آئین سپریم ہے تاکہ آئین کے تحت اپنے نظام کو چلا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری ادارے بے معنی ہو کر رہ گئے، جمہوریت نام کی چیز ہو کر رہی گئی۔ ہر شخص الیکشن میں عوام کی بجائے کسی اور طرف دیکھ رہا ہو تا ہے۔ اب عوام کے ووٹ کو عزت دینی ہو گی، اب عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کو ایک سال ہو گیا، نہ میٹنگ ہوئی نہ قواعد طے ہو ئے، حکومتی بینچوں نے بھی اتنی بڑی دھاندلی ہوئی ہے کہ کسی ادارے کے سامنے شکایات پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

آج ہمیں کہا جاتا ہے الیکشن کمیشن میں جاؤں، تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن ٹربیونل میں ہے، پانچ سال میں فیصلہ نہیں ہوا وہ دھاندلی کا فیصلہ کیسے کرے گا۔ اکبر ایس بابر آج بھی رل رہا ہے، حساب مانگ رہا ہے، تم لوگوں سے حساب مانگتے ہوں اور خود اپنے حساب کے لیے کسی ادارے کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران آئین پاکستان کی اسلامی دفعات کے بارے میں بین الاقوامی دباؤ کے تحت اس میں رد و بدل کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں، مستقبل میں اسلامی دفعات کو چھیڑنے کی کسی کو ہمت نہیں ہو گی۔ جس طرح بین الاقوامی سطح پر دینی مدارس کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، ان کو بتانا چاہتے ہیں دینی مدارس کو نقصان پہنچانے کی جرات کی گئی تو پھر ان کا خاتمہ ہو گا، مدارس کا نہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک بات بہت واضح ہے کہ اس وقت اگر کوئی دنیا میں پریشان ہے تو یا تو وہ اسرائیل ہے یا قادیان ہیں، وہی پریشان ہیں، کیوں پریشان ہیں۔ 1996 کے مئی کا نوائے وقت پڑھیں، واضح طور پر سرخی لگائی تھی کہ 2020 تک اسرائیل کا اثر ورسوخ بڑھ جائے گا اور یہ بھی لکھا ہے کہ کرکٹر عمران خان کو یہ ڈیوٹی دی گئی ہے۔ اس اجتماع نے یہودیوں کی 35 سالہ سرمایہ کاری پر پانی پھیر دیا اور آئندہ چالیس سا ل کوئی مائی کا لعل اسرائیل کو قبول کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔

 ان کا کہنا تھا کہ بڑے شوق سے کہتے ہو کہ مدارس کے نصاب کی اصلاح ہونی چاہیے، مدارس غریبوں کی وجہ سے ہیں اور یہاں غریب بچے پڑھتے ہیں جنہیں مفت تعلیم اور رہائش دی جاتی ہے، بیکن ہاوس جیسے ادارے جہاں خاص طبقے کے لوگوں کو تعلیم دی جاتی ہے، ان بڑے بڑے لوگوں کے تعلیمی اداروں کی اصلاحات کیوں نہیں کی جاتی۔ اگر اصلاح کی بات کی جاتی ہے تو پہلے تمہارے پروں کے نیچے جو بڑے بڑے ادارے چل رہے ہیں ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا گزشتہ اٹھارہ سالوں میں تمام دینی ماحول کی یہ واحد جماعت ہے جس نے مذہبی نوجوان کو اعتدال کی راہ دی، مذہبی نوجوان کو سیاسی راستہ بتایا، مذہبی نوجوان کی تربیت کی۔ آج ان کو اشتعال دلایا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد کے ماحول میں دینی قوتوں کو اعتدال میں رکھا ہے، نوجوانوں کو بغاوت اور اسلحے سے دور رکھا ہے اسلحے سے دور رکھا ہے تو یہ بات لوگوں کو دکھائی ہے، ہمیں نہ سمجھاؤ۔

امریکہ کی پالیسی تھی کہ اسلامی دنیا کے نوجوانوں کو اشتعال دلاؤ تا کہ ریاستی قوت سے ان کا خاتمہ کر دیں۔ جو حالات یمن، مصر، شام اور عراق میں کیے گئے اور اب سعودی عرب میں پیدا کرنے جا رہے ہیں، امریکہ پاکستان میں بھی یہ ہی کرنا چاہتے تھے لیکن ہماری حکمت عملی نے اس کو ناکام بنایا۔ آج ہمارے نوجوان پاکستان، آئین جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، کوئی سازشی قوت یہ نہ سوچے کہ ہم غلط راستہ اختیار کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).