وطن میں سات دن


ماسکو سے لاہور تک سوا چار ہزار کلومیٹر کا ہوائی سفر کر کے اب علی پور ضلع مظفرگڑھ میں بیٹھے مجھ فقیر باتقصیر کو وطن پہنچے سات روز بیت چکے ہیں۔ ایک دو مداحین نے رابطہ ضرور کیا مگر دوستوں میں چاہے وہ کالج کے زمانے کا کوئی دوست ہو یا سابق نظریہ کے توسط سے شناسا ہوا کوئی دانشور دوست ہو، کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ میرے فون کرنے کے بعد فون کر لیتا۔ اگر کسی سے میں نے ایک بار پھر سے فون کرکے گلہ کر بھی دیا تو اس نے کہا یار مسائل ہیں کہ حل ہونے کا نام نہیں لیتے، بیٹھیں گے تو بات کریں گے۔
سنا ہے کچھ دوستوں کی بیویوں نے میری آپ بیتی کا پہلا حصہ پڑھ لیا ہے اور اپنی قدامت پسندی کے سبب خود تو ناراحت ہیں سو ہیں مگر شوہروں کی نکیل بھی کھینچی ہوئی ہے۔ یہ اور بات کہ وہ کھنچاؤ کے سبب ناک میں درد کا اظہار نہیں کر پا رہے۔ ابھی دسمبر جنوری میں جب خودنوشت کا دوسرا اور آخری حصہ منظر عام پر آ جائے گا تب اگر وہ ایسی بھابیوں کی نظر سے گذر گیا تو وہ میرے دوستوں کو مائیوں بٹھا لیں گی شاید۔
دوستوں کا رابطہ نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ دوست چاہے ہم عمر ہیں یا مجھ سے کم عمر وہ کس قدر مصروف ہیں۔ ایک طرح سے مصروف ہونا اچھی بات ہے مگر دوسری جانب بری بات اس لیے کہ مصروفیت کے پہلو معاشرے میں ابتذال کے سبب ہمہ جہت ہیں۔ کچھ کو بہت زیادہ وسائل ہونے کے مسائل ہیں تو کچھ کو کم وسیلہ یا بے وسیلہ ہونے کے مسائل۔
لوگ خاطر مدارت کرنا چاہیں بھی تو کر نہیں سکتے کیونکہ اب ہرا دھنیا بھی اچھی خاصی قیمت کا ہے، ادرک، پیاز، ٹماٹر کی تو بات ہی کیا کرنی۔ پھلوں کی قیمت دیکھو تو دو سو روپے کلو سے کم قیمت میں شاید ہی کوئی پھل مل سکے۔ انگور انار کے نرخ وہی ہیں ‌جو بہت دور ماسکو میں۔ آمدنیاں کم ہو گئیں اور اشیائے صرف کی قیمتیں زیادہ۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
میں اپنا حال کیا لکھوں۔ فیس بک سے میں ویسے ہی توجہ کم کر چکا ہوں۔ ذاتی معاملات کا ذکر اب اس لیے نہیں کرتا کہ اب میری زندگی کے حقائق کے اظہار پر میری سرگذشت کے پبلشر زاہد کاظمی کا حق زیادہ ہے۔ سب باتیں سوشل میڈیا یا مین سٹریم میڈیا پہ کہہ دیں تو اس کی چھاپی کتاب کون پڑھے گا۔ ویسے بھی آج کل میرے احباب کا زور ” لوگ کیا کہیں گے؟” پر زیادہ ہے۔
جیسے میرے دوست اور کتابوں کے رسیا ایک بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر نے سرگذشت کا پہلا حصہ پڑھ کے کہا کہ میرا تاثر ملا جلا ہے ۔ انسان کو سڑک پر کپڑے نہیں اتار دینے چاہییں۔ میں نے ان سے پوچھا آیا انہوں نے رالف رسل کی آپ بیتی پڑھی ہے، میں نے ان سے محض ایک قدم آگے لیا ہے تو کہا، رالف رسل کہاں کا اور تم کہاں کے؟ میں نے جواب میں کہا کہ بھائی میں تو جوانی سے ہی ڈینش یعنی ڈنمارک کا تھا، ظاہر ہے مزاجاً۔ پھر بولے کتاب پڑھ کے میرا تماری سابقہ بیوی کے لیے احترام زیادہ ہوا ہے جب کہ تم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ میں نے کہا بھائی وہ سابق اہلیہ سامنے بیٹھی ہے، اس سے پوچھ لو کہ ہم بیچ یگانگت اس قدر زیادہ ہے جتنی تمہاری اپنی موجود بیوی کے ساتھ نہ ہوگی۔
ایک دوسرے دوست نے حال پوچھا تو میں نے کہا، “کیا حال سناواں دل دا ۔۔۔۔” بولے یہ بات تو پرانی ہو گئی ہے۔ اب تو سارا زمانہ تمہارا محرم راز ہے۔ میں نے ڈانٹ کے کہا کہ مجھے اخلاقیات کے سبق مت دو کوئی اور بات کرو تو وہ ہنس دیا۔
اب میں علی پور میں بیٹھا ہوں، چاروں جانب سے عصر کی اذان کی صدائیں آ رہی ہیں۔ سڑک پر موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہے۔ گاڑیاں بھی کچھ کم نہیں مگر گندگی پہلے سے کہیں زیادہ۔ شور کان پھاڑتا ہوا۔ ماحولیات کثیف تر۔ قوت خرید زیادہ ہو گئی مگر شہریت کا شعور پائیں تر ہو گیا۔ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ بہت زیادہ لوگ ہیں جن کی آمدنی دس ہزار سے بیس ہزار ماہانہ تک ہے۔ ان کو کھانے کے لالے پڑے ہیں وہ صفائی یا کسی طرح کے شہری شعور سے کیوں بارور ہوں۔ جن کی آمدنیاں بہتر ہیں وہ اپنے جالی لگے دروازوں کے پیچھے صاف ستھرے گھروں اور دفاتر میں خوش ہیں، انہیں اس سے غرض نہیں کہ باہر کیا غلاظت بکھری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).