ٹھرک سے چھٹکارا نہیں ملا


زندگی میں بارہا اثنا نے” ٹھرکی” کا لفظ استعمال ہوتے سنا تھا۔ مگر اس لفظ کے باقاعدہ معنی کبھی سمجھ نہ آئے تھے۔ پہلی بار اس لفظ کے معنی سے آشنائی اُس وقت ہوئی جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی اور اسکول سے گھر واپس جا رہی تھی۔ اس کی عادت تھی کہ راستہ طویل ہو یا مختصر، ہمیشہ نیچی نگاہیں کیے اپنے راستے پر چلتی چلی جاتی۔ اِدھر اُدھر دیکھے بنا گزرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ لوگوں سے نہ نگاہیں چار ہوتیں اور نہ اُن کی شناخت کا مسئلہ در پیش آتا۔ اسکول کی چھٹی اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوئی تھی اور اس کا گھر دس منٹ کی مسافت پر تھا۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھے بنا تیز رفتاری سے اپنا راستہ طے کر رہی تھی۔ گورنمنٹ اسکول کے مخصوص یونیفارم اور سفید دوپٹے میں اس کا معصوم چہرہ کچھ زیادہ ہی چمک رہا تھا۔ اچانک سامنے سے آتے ہوئے سائیکل سوار نے تیزی سے اس کے سینے پر ہاتھ مارنے کی کوشش کی۔ سائیکل غیر متوازن ہونے کی وجہ سے ہاتھ اس کے شانے پر پڑا اور سائیکل پر سوار پختہ عمر آدمی پکڑے جانے کے خوف سے تیزی سے اپنی سائیکل آگے بھگا کر لے گیا۔ وہ گھر آنے کے بعد عجیب خوف میں مبتلا ہوگئی کہ یہ کیا تھا۔ نو عمری سے لڑکپن میں داخل ہوتے ہوئے جسمانی تبدیلیاں انسانی زندگی کا حصّہ ہوتی ہیں مگر اس ادھیڑ عمر سائیکل سوار کی ٹھرک نے معصوم اثنا کو ایک خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ جسمانی تبدیلی اس کے لیے خوش کن سے زیادہ پریشان کن ثابت ہوئی تھی۔ گھر آنے کے بعد اس نے اس بات کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا۔ مگر ایک ان جانے خوف نے اس کو آگھیرا۔ اگلے دن اکیلے اسکول جانے کا خوف اس پر عجیب و غریب ہیبت طاری کرنے لگا۔ دوسرے دن بحالتِ مجبوری وہ محلے کی دو چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ اسکول کے لیے روانہ ہوئی۔

آہستہ آہستہ اس واقعے کا اثر زائل ہونے لگا تھا کہ اسٹیشنری کی دکان سے اسٹیشنری خریدتے وقت اسکول کے دکان دار نے اس کے گال کو پیار سے سہلایا تو اس کے پورے جسم میں ایک عجیب و غریب سی کراہت کا احساس سرایت کر گیا۔ مگر یہ بات بھی کسی سے کہنے والی نہ تھی اس لیے وہ محتاط ہوگئی۔

اسکول کے چادر نما دوپٹے کو اپنے سر اور جسم کے گرد اچھی طرح پھیلا کر لینے لگی۔ انکل کے ہاتھ کی سرسراہٹ اسے کئی دن تک اپنے چہرے پر محسوس ہوتی رہی۔ نجانے یہ حرکت کر کے ان کی کون سی حس کی تسکین ہوئی تھی۔ شاید اپنی ٹھرک مٹانے کے لیے انھوں نے ایسا کیا تھا۔

محتاط روی کے ساتھ بھاگتے دوڑتے یہ دور بھی گزر گیا، کئی ایک سرسری واقعات پیش آئے جنہوں نے اس کے جسم سے زیادہ روح کو زخمی کیا۔ عام لوگوں کے لیے وہ واقعات غیر اہم تھے مگر اس کی روح پر اپنا ایک نہ مٹنے والا داغ چھوڑ گئے تھے۔  میڑک کرتے ہی اس کا شمار سیانوں میں ہونے لگا۔ امی اور بھابھی اکثر اسے بازار لے جانے لگیں۔ بازاروں مارکیٹوں میں چیزوں کے بھاو تاو کے دوران، اس کا کئی قسم کے ٹھرکی مردوں سے واسطہ پڑا۔ مارکیٹ کے رش میں بعض اوقات بوڑھے، باریش، مولوی ٹائپ لوگ بھی چلتے چلتے اس کے یا دیگر خواتین کے کولہے پر ہاتھ مار جاتے یا پھر پیچھے سے کسی بھی خاتون کے جسم کو چھوتے گزر جاتے۔ ایسا نادانستگی میں ہوتا تو خواتین کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ مگر ارادتاً جو مرد حضرات اپنی ٹھرک مٹانے کے لیے یہ حرکت کرتے، ان کے لمس کے ساتھ ایک کراہت کا احساس عورت کے وجود میں بیدار ہو جاتا، اور  اس حصے کو کاٹ کر پھینک دینے کا دل چاہتا۔ مارکیٹ میں اگر کسی جی دار عورت کے ساتھ یہ حرکت ہو جاتی تو وہ پوری مارکیٹ سر پر اٹھا لیتی۔ اثنا نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ رش کے دنوں میں بازار جانا چھوڑ دیا، یا پھر امی سے اس کا مطالبہ ہوتا کہ کسی بڑے شاپنگ سینٹر چلیں۔ جہاں اس قسم کی حرکات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

کالج میں داخلہ لیتے ہی ایک اور عجیب و غریب صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ کالج جانے کے لیے وہ عوامی بسوں کا استعمال کرتی تھی۔ ڈرائیور کے سامنے منی بس میں موجود تین سیٹیں اس کو زیادہ بہتر محسوس ہوتیں،اس لیے زیادہ تر وہ ان ہی پر بیٹھنا پسند کرتی۔ اس سیٹ پر بیٹھ کر اسے ڈرائیور کا تاڑنا اور تیز آواز میں فحش ہندی فلموں کے گانوں کو برداشت کرنا پڑتا۔ جب کہ ان کے پیچھے والی سیٹیں جو مردوں سے آگے ہوتی ہیں۔ ان پر بیٹھنے کی صورت میں پیچھے بیٹھے ہوئے مردوں کی سرسراتی ہوئی انگلیاں برداشت کرنی پڑتیں۔  جو کبھی اچانک سر کے پیچھے سے آتیں اور کبھی سیٹ کے نچلے حصے سے۔ مڑ کر دیکھنے کی صورت میں پیچھا بیٹھا ہوا شخص سویا ہوا ملتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ پیچھے بیٹھا ہوا مرد اپنے پیروں کی انگلیاں سیٹ کے نیچے خلا میں ٹکا لیتا اور آگے بیٹھی ہوئی عورت اپنی بیچارگی پر سمجھوتا کرتی ہوئی سیٹ سے ٹیک لگانے کے بجائے آگے ہو کر بیٹھ جاتی یا پھر سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوتی۔

بسوں میں سفر کرنے والے ایسے نجانے کتنے ذہنی بیمار اس نے مختصر سی زندگی میں دیکھ لیے تھے۔ شکلیں بدل جاتیں اور حرکات وہی رہتیں۔ کالج کی زندگی کے اختتام کے ساتھ ہی اس نے گھر کے قریب ایک اسکول میں بحیثیت استاد پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ بی اے کے نتیجے کی منتظر تھی اس لیے وقت ضائع کرنے کی بجائے یہ حل اسے مناسب نظر آیا۔

جماعت میں تدریس کے دوران دوسرے دن ہی اسے عمر رسیدہ پرنسپل زرک علی کی ٹھرک کا سامنا کرنا پڑا، وہ کلاس کے دوران اس کے اس قدر قریب آکر کھڑے ہو گئے کہ اس کے اور پرنسپل کے درمیان چند انچ کا فاصلہ بھی نہیں رہا، ان کی شہوت انگیز نظروں نے اسے عجیب و غریب کراہت کے احساس میں مبتلا کر دیا۔ اس تجربے کی وجہ سے اس نے جان بوجھ کر پرنسپل سے بچنا شروع کر دیا۔ وہ بات تو اثنا سے کر رہے ہوتے مگر ان کی نظر اس کے سینے پر گڑی ہوتیں۔ نجانے دوپٹے کے پیچھے وہ کیا تلاش کرنا چاہتے تھے۔ کبھی کبھی اثنا کو یوں محسوس ہوتا کہ شاید اس کے جسم پر لباس موجود ہی نہیں اور پرنسپل کی بھوکی نظریں اسے بھنبھوڑ رہی ہیں۔ وہ اکثر اسے اپنے آفس بلاتے مگر وہ کسی نہ کسی سینئر استاد کو ساتھ لے کر جاتی جو پرنسپل کی فطرت کو جانتی تھیں۔ دو ماہ اس غیر معیاری نوکری کو کرنے کے بعد اس نے پرنسپل کی شہوت انگیز نظروں سے گھبرا کر وہ نوکری ہی چھوڑ دی۔

بی اے کا نتیجہ آتے ہی اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یونیورسٹی کی فضا اس دنیا سے مختلف تھی جو وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ یونیورسٹی وہ پوائنٹ سے جایا کرتی تھی۔ پوائنٹ گھر کے قریب سے ملتا، گھر کے قریب ہی چھوڑتا۔ اس لیے یونیورسٹی آتے جاتے ہوئے اسے ٹھرک کے بنیادی مسائل درپیش نہیں آئے جس کا سامنا دیگر بسوں میں کرنا پڑتا تھا۔ یہاں تمام لوگوں کی ایک الگ ہی دنیا تھی۔ سنا تھا کہ ٹھرکی اساتذہ یونیورسٹی میں ہوتے ہیں۔ مگر وہ لڑکی دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ اس نے یونیورسٹی کے کئی ایک واقعات سنے ضرور، مگر اسے یونیورسٹی میں کسی استاد کی ٹھرک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ دور ایک اچھا اور بھر پور دور تھا۔ اِسی دوران اس کی شادی ہوگئی اور اسے اس بات کا احساس ہوا کہ محرم رشتے کے لمس میں اللہ تعالیٰ نے اطمینان اور سکون رکھا ہے۔

شادی کے بعد بھی اسے کئی ایک عزیزوں رشتے داروں کی صورت میں ٹھرکی لوگوں سے واسطہ پڑا، مگر ان کی ٹھرک گفتگو تک محدود رہی اور اسے متاثر نہیں کیا۔ چار بچوں کی پیدائش کے بعد اس کا حسن اور عمر کافی ڈھل چکی تھی۔ وہ عمر رسیدگی کے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ اکثر شاپنگ سینٹر اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ جایا کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی خود اعتمادی بڑھ چکی تھی۔ وہ بیٹے کے ساتھ قریبی شاپنگ سینٹر کے ایک ایسے بوتیک میں داخل ہوئی جہاں دکان دار اکیلا تھا۔ دکان خالی تھی۔ عمر رسیدہ دکان دار کو دیکھ اس نے دو چار اپنی پسند کی کرتیاں دِکھانے کی فرمائش کی تو دکاندار اس کے بیٹے کو نظر انداز کرکے اس کے بے حد قریب آکھڑا ہوا۔ “باجی یہ دیکھ لو، باجی وہ دیکھ لو ” کر کے دکان دار نے اس کے جسم کو چھونے کی کوشش کی، ایک لمحے کو تو اسے اپنا وہم محسوس ہوا مگر  دوسری بار جب اس دکاندار نے کرتی کا ہینگر آگے کرتے ہوئے دانستہ اس کے جسم کو چھونے کی کوشش کی تو اثنا کا دل چاہا کہ دکاندار کو گولی مار دے۔ اثنا کو چند سیکنڈ میں ہی اس کی نیت کا اندازہ ہو گیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اس بوڑھے کو پرے دھکیلتے ہوئے اپنے بڑے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے باہر نکل گئی اور بوڑھا دکاندار اپنی ٹھرک نہ مٹنے پر کف افسوس ملتا رہ گیا۔ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر دوڑتی ہوئی اثنا کے ذہن کی عجیب و غریب کیفیت ہو رہی تھی۔ لڑکی سے عورت اور عورت سے ماں بننے کے عمل تک اس نے بے شمار مردوں کی ٹھرک دیکھی تھی۔ اسے افسوس ہو رہا تھا چودہ برس کے بیٹے کی موجودگی میں، اور ادھیڑ عمری کے باوجود بھی عورت مردوں کی ٹھرک سے محفوظ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).