کیا ہم بند گلی کے قیدی ہیں؟


انگریزی زبان میں What goes around comes around اور اردو میں ”جو بویا وہ کاٹا“ کا محاورہ اسلام آباد کے پشاور موڑ میں تجسیم ہو چکا ہے۔ دارالحکومت پر جتھے لے کر چڑھ دوڑنا اور وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کرنا اور اس مطالبے کے نہ ماننے کی صورت میں بزور قوت وزیر اعظم کو ایوانِ اقتدار سے گھسیٹ کر باہر نکال پھینکنے کی دھمکیاں دینا ایسے مناظر ہیں کہ جو چشم فلک نے اسلام آباد کی شاہراہوں پر پہلے بھی دیکھے ہیں اور اج یہ مناظر ایک بار پھر پوری شدت و قوت سے دوبارہ وارد ہو چکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کی معیت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اسلام آباد میں لانگ مارچ اور اس کے شرکاء کا پڑاؤ اس بات کا غماز ہے کہ یہ احتجاج جلد انجام کو پہنچے والا نہیں۔ اسلام آباد پر مولانا صاحب اور ان کے اتحادیوں کی چڑھائی ہماری سیہ بخت سیاسی تاریخ کا کوئی انوکھا پہلو نہیں کیونکہ اج اقتدار کی راہداریوں میں دبکی اور خوف زدہ حکومت جس جماعت کی ہے وہ آج سے پانچ سال قبل دارالحکومت پر چڑھائی کر کے اپنا ٹریک ریکارڈ اس حد تک خراب کر چکی ہے کہ اب اس کے لبوں سے حزب اختلاف کے مارچ کے خلاف پھسلنے والے تمام الفاظ معنویت اور اخلاقیات سے مکمل طور پر عاری ہیں۔

عمران خان اور ان کی جماعت کی گل افشانیوں اور شعلہ بیانیوں نے جب نواز لیگ کو اپنی زد پر رکھا تو سیاسی اختلاف کے سارے شائستہ قرینے ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے اور اختلاف نے گراوٹ کی ان حدوں کو چھو لیا تھا کہ تہذیب، تمیز اور اخلاقیات کونے کھدروں میں اپنی موت آپ مر گئے۔ اج تحریک انصاف نشانے پر دھری ہوئی ہے اور لفظی توپوں کے گولوں کی زد میں ہے۔ آ ج وزیر اعظم عمران خان کو جتھوں کے ذریعے گرفتار کرنے کی وہی گیدڑ بھبھکیاں دی جا رہی ہیں جس کے موجد خان صاحب خود ہیں جب انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کو باہر پھینکنے کا اعلان کیا تھا۔

آج سے پانچ برس قبل عمران خان نے جو غلط روش اپنائی تھی وہ آج اپنی تمام تر بدصورتی کے ساتھ ان کے تعاقب میں ہے۔ تاہم جس طرح عمران خان کے دھرنے کو کسی طور ایک صحت مند جمہوری قدم نہیں قرار دیا جا سکتا کچھ ایسے ہی موجودہ صورت حال کو بھی فقط عمران خان کی دشمنی میں جواز کی سند نہیں فراہم کی جا سکتی۔ حکومت کے خلاف دھرنا اور اس میں وزیر اعظم سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کا مطالبہ اور اسمبلیوں کی تحلیل پر اڑے رہنے کا قصہ اس ملک میں بار بار دہرایا گیا ہے۔

بد قسمتی سے ہر بار ایسی صورتحال میں ملک ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا جاتا ہے کہ پھر اس سے نکلنے کی کوئی تدبیر کسی سیاسی کھلاڑی اور جماعت کے پاس نہیں بچتی اور ایسے ہی لمحات میں ایک غیر سیاسی قوت کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے اس ملک پر نافذ کر سکیں۔ بھٹو صاحب کے خلاف جب پی این اے کی تحریک چلی تو اس کا نتیجہ ایک ایسے خوف ناک مارشل لاء کی صورت میں بر آمد ہوا کہ اس کے اثرات سے معاشرہ آج تک نہیں سنبھل سکا۔

نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان کے دھرنے نے سول بالادستی کو بڑی طرح مجروح کیا جس کی بناء پر مقتدر قوتوں کو ان معاملات میں بھی دخیل ہونے کا موقع ملا کہ جن کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ تحریک انصاف کے دھرنے کے نتیجے میں نواز شریف بطور وزیراعظم کمزور ہوئے اور اس کے نتیجے میں مقتدر قوتوں کو زیادہ گراؤنڈ ملا کہ جس پر وہ کھیل سکیں۔ اج کی حکومت کو مقتدر حلقوں کی آشیر باد حاصل ہے اور وزیر اعظم عمران خان خود اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ فوج ان کی پشت پر کھڑی ہے۔

فوج کے بطور حکومتی ادارہ ان کی پشت پر کھڑا ہونے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور اسے ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اعتراض اس وقت اٹھتا ہے کہ جب فوج کو سیاسی میدان میں گھسیٹا جاتا ہے یا پھر ان کے کسی بیان سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ فوج سیاسی جھگڑوں میں فریق بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی فوج ملک کا منظم ادارہ ہے اور اس کی غیر جانبداری ہی اس کی مضبوطی کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔ عمران خان کے خلاف مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد میں پڑاؤ نے ملک کو ایک بار پھر ایک تشویشناک صورتحال سے دو چار کر دیا ہے۔

مولانا صاحب کے بقول وہ استعفیٰ لیے بغیر ٹلنے والے نہیں اور ان کے بالمقابل عمران خان بھی ضدی طبیعت کے حامل ہیں اور بادی النظر میں وہ ہرگز مولانا کا مطالبہ ماننے والے نہیں ہیں۔ سیاسی احتجاج اور دھرنوں کی بنیاد پر پاکستان میں ماسوائے ایوب خان کے کبھی بھی کوئی مستعفی نہیں ہوا۔ عمران خان مستعفی نہیں ہوتے اور مولانا اپنا قیام طویل کرتے ہیں تو پھر لازماً ملک میں ایک ایسی سیاسی فضا بن جائے گی کہ جس میں کوئی بھی غیر معمولی اقدام بعید از قیاس نہیں۔

اس پیچیدہ سیاسی صورتحال میں ہمیشہ کچھ سوجھ بوجھ والے سیاستدان ہی آگے بڑھ کر مسئلے کو سلجھاتے ہیں جو اس وقت سیاسی منظر پر سرے سے عنقا ہیں۔ حکومت وقت ایسی صورت میں کچھ دھیمے پن اور ٹھہراؤ کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ سب وزراء نے کونین کی گولیاں چبا رکھی ہیں کہ جو بھی منہ کھولتا ہے اس کی زبان انگارے ہی اگلتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کا استعفیٰ لیے بغیر واپس جانے والے نہیں۔

مولانا ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے خالی ہاتھ واپس جانا ان کی سیاست کے لیے زہر قاتل ہو گا اس لیے یہ تو اب حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمان وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ نا سہی کچھ نا کچھ ایسا وصول کر کے ہی جائیں گے کہ جو ان کے حامیوں اور ہمدردوں میں ان کا بھرم اور عزت برقرار رکھ سکے۔ عمران خان کی حکومت اور مقتدر حلقے مولانا کو کس طرح رام کر پاتے ہیں یہ ان کا اصلی امتحان ہے۔ حکومت ابھی تک تمام امتحانوں میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، اس میں کیسے کامیاب ہوتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).