مشرف عالم ذوقی اور “مرگِ انبوہ”


مرگِ انبوہ، فا شزم اور کیپٹلزم کے تانے بانے سے بُنے، آج کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی، ثقافتی اور اخلاقی سسٹم کو سمجھنے کی ایک بھرپور کوشش ہے، جہاں نیکی اور بدی کے درمیان فاصلہ ختم ہو چکا ہے، پیسہ خدا، انٹرنیٹ کائنات اور گوگل گرو ہے۔ اور ان تینوں نے مل کر خون و نفرت سے لتھڑی گالیوں، اور آنکھوں میں اجنبیت اور بے گانگی کی دہشت لئے، ڈیتھ گیم کے گمنام سکواڈ میں شامل، ”ینگستان“ کی ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو ایلومیناٹی اور خدا کے درمیان ریسلینگ میں خدا کو لہولہان اور شکست خوردہ دیکھنا چاہتی ہے۔

 اپنی خالی روح کو بریفو میٹ کے پاس گروی رکھنے کے لئے بے قرار، بلیو وہیل کے جبڑے میں اپنا سر دیے بیٹھی ہے۔ خوشی سے نا آشنا اور نابلد ان گائڈڈ میزائل بنے یہ نوجوان جن کے نصیب میں کہانیاں سنانے والی نانیاں اور دادیاں نہیں آئیں، آئے تو انگلیوں اور انگوٹھوں کی مسلسل جنونی حرکت سے چلنے والے، طرح طرح کے فینسی ہتھیار اور گوری گیمز۔ جن میں وہ لمحے بھر میں خود کو ہیرو بنا کر شاندار عمارتوں کوبلاسٹ کرتے، لوگوں کو گولیوں سے بھونتے، لاشوں کو قدموں سے روندتے، لہو، بارود، تباہی اور زوال سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اس نسل کا اپنے والدین سے ذہنی فاصلہ لازمان اور لامکان ہو چکا ہے۔ ماں اور باپ سے نفرت ان کے خون میں سیا ل مادے کی طرح بہتی ہے۔ والدین ان کی زندگی سے ڈرتے ہیں اور وہ ”دا پاس آوٹ چیلنج“ اور ”دا سالٹ اینڈ آئس چیلنج“ کی کامیابی کے پہلے زینہ پر چڑھنے کا جشن اپنے والدین کی آنکھوں میں خوف دیکھ کر مناتے ہیں۔ جنہیں کتابوں سے بھرا کمرہ کباڑ خانہ دکھائی دیتا ہے، جن کے لئے اتہاس صرف ”ڈاٹا“ ہے اور جن کا ماننا ہے کہ یہ تم پر ہے کہ، ”تم اس ڈاٹا کو کتنا اپڈیٹ کرتے ہو۔ “ یہ غصے، اشتعال اور وحشت میں صدیوں سے کشیدکیے ہوئے تجربات پر مبنی اپنے آبا کے لکھے ہر اس قصے کا ورق ورق جلا دینا چاہتے ہیں جس میں اخلاقیات، احساس، محبت اور تہذیب نامی فضول باتیں لکھی ہوں۔

منچورین، پیزا اور برگر پر پلنے والے، ایپل، لیپ ٹاپ، ڈیٹنگ اور بریک اپ کی غلام گردش میں گھرے ینگستان کے یہ نوجوان جن کے لئے زندگی ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ جو اپنی مرضی و خوشی سے انسان سے ہندسہ بن رہے ہیں۔ جورومانس پر تھوکتے ہیں اور وافر سیکس کی بے لذتی سے گھبرا کر تشدد اور ڈرگز میں پناہ لیتے ہیں۔ جن کے پاس گر کوئی کشش، تخیل، فیشن اور تصور ہے تو صرف مر گ انبوہ کا، جسے بیان کرنے کا اسم اعظم مشرف عالم ذوقی کے ہاتھ لگا ہے۔

 مشرف عالم ذوقی جو اکیسویں صدی کے زندہ اردو ادب کا نمایاں ترین نام ہے۔ جس نے موت کی خون آلود تلوار کے نیچے اور دہشت کے جلتے کڑھاوٴ کے سامنے بیٹھ کر حیرت انگیز جرات سے ”مر گ انبوہ“ قلمبند کیا ہے۔ ایک ان چھوا سبجیکٹ جسے چھوتے ہوئے ہم سب کے ہاتھ جلتے ہیں کہ یہ ڈائنامایٹ ہے کہ یہاں چھوا اور وہاں دھماکہ ہوا اور شاید پھر دلی اجڑے، لاہور کہ کراچی یا پھر سارا بر صغیر، مگر نہیں اب تو ہم ”ہندو اور مسلمان ہو گئے ہیں“ تو ماب لنچنگ ہمارا مستقبل طے کرے گی۔

ایک سو چالیس کروڑ آبادی والے ملک کی کہانی کا ایک کردار کہتا ہے ”پینتیس کروڑ تھے سترہ کروڑ پر لاکھڑا کیا۔ اور پھر ایک دن ایسا آئے گاجب ہم گیس بن کر اڑ جائیں گے۔ “ جہاں حادثے، سانحے، قتل، اغوا اور ریپ روزمرہ کے عام واقعات بن جاتے ہیں۔ قاتل اور بدمعاش حکمران بن جاتے ہیں، مجرم شان سے تقریبات کا افتتاح کرتے ہیں، دہشتگرد سڑکوں پر آرام سے گھومتے ہیں۔ اچانک تین سو ستر چنار کے درخت غا ئب کر دیے جاتے ہیں۔

راتوں رات بسے بسائے گھر اپنے جگہ سے گم ہوجاتے ہیں۔ اور لوگ پریشانی کے عالم میں سوچتے ہیں، کیا یہ سب خواب میں ہو رہا ہے؟ مالیخولیا ہے، ڈپریشن ہے، اسکیزوفرینیا یا ہیلیوسی نیشن ہے؟ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑی عیاری سے ہمارے نظریات میں نقب لگا کر انہیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ اہنسا کا پیامبر گاندھی قابل نفرت اور ہنسا کا علمبردار گوڈسے ہیرو بن چکا ہے۔ ”آپس کی بڑھتی ہوئی نفرت 1947 کے شعلوں سے بھی آگے نکل چکی ہے“۔

مگر ٹھہرئے، کیا یہ ناول صرف ہندوستان یا پاکستان جیسی ”ان سیٹیلڈ کالونیز“ کی داستان ہے؟ نہیں بلکہ یہ ناول برقی رابطوں میں الجھے ہر اس انسان کا قصہ بن گیا ہے جس کی ذاتی زندگی اور پرائیویسی کو ٹیکنالوجی نگل رہی ہے۔ یہ ناول کریڈٹ کارڈز، کارپوریٹ ورلڈ اور مصنوعی سول سوسائٹی کے ٹریپ میں پھنسے ہر گھر کی کہانی ہے خواہ یہ گھر نارتھ امریکہ کے کسی شہر میں ہو یا یورپ کے کسی قصبے میں۔ یوں ذوقی نے ہندوستان کے منظر نامے میں رہتے ہوئے دنیا کے کینوس پر ایک بڑا ناول لکھ ڈالا ہے۔

 تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا کے حوالے سے اردو ادب میں اس سے زیادہ بلیغ، واضح اور فلسفیانہ ناول کوئی دوسرا اب تک نہیں لکھ پایا ہے۔ ہوسکتا ہے چند لوگ اسے سیاسی ناول کہہ کر اس ناول کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کریں مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کا کوئی بڑا ناول غیر سیاسی بھی ہے؟ میری دانست میں ماڈرن اردو لٹریچر کا یہ پہلا ناول ہے جسے جتنی جلدی ممکن ہو انگریزی میں ترجمہ کیا جانا چاہیے کہ اس المئے سے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا گزر رہی ہے۔

دنیا جو ایک مضبوط ”رئکٹ“ کا حصہ ہوچکی ہے۔ ہم اس ”پلاسٹک کی تہذیب“ کے اندر کاکروچوں، چوہوں اور مرغابیوں میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ کسی بھی وقت، کوئی بھی الزام لگا کر بے وجہ مار دیے جاتے ہیں۔ ہم اس دنیا کے باسی بنا دیے گئے ہیں جہاں کوئی قابل اعتبار نہیں۔ ہم اپنوں اوردوستوں کے درمیان خوفزدہ میمنے کی طرح وقت گزارتے ہیں۔ ہمارے اطراف اچانک لاشیں بکھر جاتی ہیں اور قاتل نامعلوم رہتے ہیں۔ ہم سب بہت چالاکی، عیاری اورمکاری سے ایک گیس چیمبر یا لوہے کی بدنما گاڑی میں جمعکیے جارہے ہیں۔

زہریلی گیس کسی بھی وقت مرگِ انبوہ کا سامان کرسکتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تبدیلی کی رفتار ہے یا موت کی کہ ایک گروہ غائب ہورہا ہے دسرا ملٹی پلائی ہورہا ہے۔ ہم نہ چاہنے کے باوجود ”بی مشن کے مہرے“ بنے ہوئے ہیں اورجادوگر کی کسی بھی چال کو ناکام بنانے کی ہمت کھو بیٹھے ہیں بلکہ بقول مشرف عالم ذوقی ”یہ دنیا کچھ کرنے کے لئے چھوٹی پڑ گئی ہے“۔ ہاں مگر اسی ناول کے کسی پنے پر ذوقی نے یہ بھی لکھا ہے ”نفرت کی ایک منزل محبت بھی ہے“۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).