کراچی کی قتل گاہوں میں روندے گئے ہمارے علم…


جان تو عزیز ہمیشہ سے تھی لیکن اس بار واقعہ بھی سخت ہوگیا ہے۔ اس کی تاب کیوں کر لائیں گے؟ جو کچھ پیش کیا جا رہا تھا اگر اسے معمول کے مطابق چلنے دیا جاتا تو اس طرح کا واقعہ نہ بنتا۔ پہلے پہل یہاں چہ میگوئیاں ہوئیں، سوشل میڈیا پر خبر پھیلی پھر بین الاقوامی اداروں نے اس کو نشر کرنا شروع کر دیا۔ کراچی کی تہذیبی تاریخ میں (اگر اس نوع کی کوئی چیز ہوسکتی ہے!) یہ ایسی نشانی بن گئی جس پر لوگ بات کرتے رہیں گے اور اس کا حوالہ سامنے آتا رہے گا۔ اس میں جو مواد تھا اس کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور اس سے جو سوال اٹھتے ہیں۔ کئی دن سے میں کراچی بینالے کے بارے میں سوچے جارہا ہوں کہ اس کے مجموعی معنی کیا بنتے ہیں۔ یہ کیا بتانے چلا تھا اور اس نے کیا دکھا دیا۔ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا تو یہ کراچی کے بارے میں بہت کچھ واضح کررہا ہے جس کی شدّت کا اندازہ بہت سے لوگوں کو نہیں تھا۔

یہ اپنے منتظمین کی توّقع سے بھی زیادہ بڑی خبر بن گیا مگر کسی اور طرح سے۔ کراچی میں تھوڑی بہت پبلک اسپیس موجود ہے جس میں نئے فن پارے سامنے آتے ہیں اور تھوڑے دن اپنی بہارِ جاں فزا دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دیکھنے آتے ہیں، پہلے اسی انگریزی اخبار میں تصویر کے ساتھ خبر چھپ جاتی تھی جو میں پڑھتا آیا ہوں، اب سوشل میڈیا پر رواں ہوتی ہے اور اس سے بڑی خبر نہیں بنتی۔ ایسی نمائشوں کے تواتر سے شہر میں ایک ثقافتی ہلچل رہتی ہے، بلکہ شہر کے بعض حصّوں اور چند حلقوں میں۔ اس بار زبردستی مداخلت کی گئی، اس نے کام خراب کردیا۔ اس نے ایک بحث مباحثے کو جنم دیا اور خبر دور تک پھیل گئی۔ اس کے اثرات بہت دن تک باقی رہیں گے، مسموم ہوا کی طرح۔ جسم میں پھیلتے زہر کی طرح۔

دنیا کے بہت سے مقامات میں اس طرح فن پارے ایسی جگہوں پر سجائے جاتے ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد ان کو دیکھ سکے۔ یہ آرٹ کو بند کمروں سے باہر نکال کر عوامی جگہوں پر لانے کی کوشش ہے۔ بینالے کا لفظ ہمارے میڈیا نے جوں کا توں استعمال کرنا شروع کر دیا ورنہ اس کا مفہوم ’’دو سالہ‘‘ سے بھی ادا کیا جاسکتا تھا لیکن اس لفظ میں وقت کی مدّت سے زیادہ ایک خاص قسم کی فنّی نمائش مراد ہے اس لیے یہ لفظ بھی بین الاقوامی لُغت کا حصہ بن گیا ہے۔ کراچی میں اس طرح کی فنی سرگرمی کا آغاز چند سال پہلے ہوا جب بصری فنون (visual arts) سے متعلّق چند باہمت اور فن سے محبت رکھنے والے لوگوں نے کراچی بینالے کی 2016ء میں بنیاد ڈالی۔ اس بار دوسری نمائش کا انعقاد ہوا جسے عرفِ عام میں KB19 کا نام دیا گیا۔ ڈر مت جائیے گا، یہ کسی رائفل کا ذکر نہیں، اس نمائش کا نام ہے لیکن یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکام نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو غیرقانونی اور خودکار ہتھیاروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یا پھر ان کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔

بہت دھوم دھڑکے سے اس بینالے کا افتتاح ہوا۔ فریئر ہال اور باغ ابن قاسم میں installations نصب کیے گئے۔ نمائش کی پوری ترتیب سامنے آئی اور اس میں حصہ لینے والے سینکڑوں فن کاروں کے نام آیا جن میں متعدد بین الاقوامی شخصیات بھی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ کراچی کا ایک نیا فنّی اظہار ہے جو کھلی ہوا میں سانس لے رہا ہے۔ لیکن آزادی کے سانس سب کو نہیں بھاتے، دم گھونٹ کر رکھنا ان لوگوں کا شیوہ ہے۔

اگلی صبح نمائش کا باقاعدہ آغاز تھا اور میں اپنے کاہل وجود کو وہاں جانے کے لیے ٹھیل رہا تھا کہ اس کے بارے میں خبریں آنے لگیں۔ سننے میں آیا کہ فریئر ہال میں لگائے جانے والے انسٹالیشن کو نامعلوم افراد نے بند کروا دیا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو پہلا خیال یہ آیا کہ ہو نہ ہو مذہب کا نام لینے والوں نے یہ کارروائی کی ہوگی۔ میں نے جانے کا ارادہ ترک کردیا اور سوشل میڈیا پر تفصیلات دیکھنے لگا۔ اس طرح یہ واقعہ میرے لیے کانوں سنی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی بن گیا۔

اسکرین پر ایک امیج ابھری۔ فریئر ہال کی پرشکوہ عمارت کے سامنے جبران ناصر میڈیا والوں کو خبر دیتے ہوئے نظر آئے اور ان کے برابر انسٹالیشن کی فن کارہ کھڑی ہوئی تھیں۔ جبران ناصر نے بتایا کہ چند نامعلوم افراد نے ڈرا دھمکا کر نمائش کے اس حصے کو بند کروا دیا۔ عدیلہ سلیمان کے بنائے ہوئے انسٹالیشن کا نام تھا The killing fields of Karachi اور اس میں فریئر ہال کی عمارت کے باہر ۴۴۴ علامتی قبریں بنائی گئی تھیں۔ یہ قبریں ان لوگوں کی نشانی تھیں جن کو پولیس کے اہل کار رائو انوار نے اپنی ملازمت کے دوران ’’پولیس مقابلہ‘‘ کا نام دے کر قتل کروا دیا۔ عمارت کے اندر ایک وڈیو چل رہی تھی جس میں نقیب اللہ محسود کا باپ چپ چاپ کھڑا کیمرے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس بے آواز وڈیو میں وہ ایک لفظ بھی نہیں ادا کرتا۔ شاید ایک لفظ یا پس منظر کی موسیقی بہت بلند بانگ ہو جاتی۔ نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یہ مجرم اور ان کا طریقۂ کار کھل کر سامنے آیا لیکن اس کیس سے پہلے جو لوگ مارے جا چکے تھے ان کا نام بھی نہیں لیا جاتا۔

اس کے بعد جبران ناصر کی پریس کانفرنس کی وڈیو لوگوں تک پہنچی۔ وہ اس واقعے کے بارے میں احتجاج کررہے تھے کہ اتنے میں ان کو بات کرنے سے روکا جانے لگا۔ ایک شخص نظر آیا جو مائک ان کے سامنے سے چھین رہا ہے اور کہہ رہا ہے، آپ کو اجازت نہیں دی جاسکتی، آپ باہر جائیں۔ جبران ناصر اس کا نام پوچھتے رہے اور اس کو روکتے رہے۔ کافی ردّ و قدح کے بعد اس شخص نے اپنے آپ کو شہری حکومت کا اہل کار ڈی جی پارکس بتایا اور اصرار کیا کہ یہ سیاسی سرگرمی ہے اور پارک میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ان کو باور کرایا گیا کہ یہ آرٹ ہے تو اس پر انھوں نے ارشاد فرمایا (انگریزی میں!) This is not good art۔ کیا خوب۔ اب سرکاری اہل کار فتویٰ دیں گے کہ کون سا آرٹ اچھا ہے اور کون سا بُرا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کراچی کے پارکوں کی جو حالت ہے اور ان پر مافیا جتنی آسانی سے قبضہ کر لیتی ہے، وہ کون سا آرٹ ہے؟ پھر ان صاحب نے فرمایا کہ آپ جو کر رہے ہیں اس سے پاکستان کی بدنامی ہوگی۔ وہ بھول گئے کہ ان کی اس زبردستی سے جتنی بدنامی ہو رہی ہے، اس کا حساب نہیں۔

پریس بریفنگ کی ایسی تیسی کردی گئی۔ ظاہر ہے کہ ان صاحب سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔ جب 444 لوگوں کو ہلاک کرنے والوں سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی تو ان صاحب سے کیا ہوگی۔ حکومت کے مختلف شعبے اس طرح خاموش ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔

انسٹالیشن کی نمائش بند کرنے پر اکتفا پیش کیا گیا بلکہ اس کے مختلف اجزاء کو یعنی ان تراشیدہ پتھروں کو جو نامعلوم مقتول افراد کی قبریں ظاہر کررہے تھے اور ان پر بکھرے ہوئے پتھر کے پھول، توڑنے پھوڑنے کی کوشش کی گئی۔ یہ فن کی تباہ کاری اور غارت گری نہیں تو کیا ہے، جسے فن کی تاریخ میں vandalism کے نام سے جانا جاتا ہے، اس تباہ کاری کے پیش نظر نوجوان طلبا اور آرٹ کے بعض شیدائی ان پتھروں سے لپٹ گئے کہ ان کی طرف ہاتھ اٹھنے نہ دیں گے۔ کافی دیر تک وہ ان پتھروں کو سینے سے لگائے بیٹھے رہے۔ لیکن ان کے ہٹتے ہی ان پتھروں کو توڑ دیا گیا۔ انسٹالیشن ختم کر دیا گیا۔ آرٹ کے شیدایوں کا یہ جوش و جذبہ اور تباہ کاری پر مصر انتظامیہ، ایک ہی صورت کے دو متضاد روّیے ہیں اور کراچی کے لیے ایک نئی مثال جس کی بازگشت دور تک جائے گی۔

واقعہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ کراچی بینالے کے مُنتظمین نے پریس میں ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے سارا ملبہ فن کار پر گرا دیا اور اپنے آپ کو ایک طرح سے بری الذّمہ قرار دے لیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ انسٹالیشن فن کار کے نقطۂ نظر کے مطابق ہے مگر اس کے باوجود، یہ اس بینالے کی تھیم سے مطابقت نہیں رکھتا اور ہم فن میں سیاست کی آمیزش کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اس طرح ہم حاشیے پر کام کرنے والے فن کاروں کو مرکزی دھارے میں قائم ثقافتی ڈسکورس میں شامل نہیں کر سکیں گے۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ۔ اگر یہ انسٹالیشن آپ کے لائحہ عمل سے (جو کچھ بھی وہ ہے) مطابقت نہیں رکھتا تو کیا آپ نے دیکھے بھالے بغیر اسے شامل کر لیا تھا؟ یہ اس فن پارے کی غلطی نہیں، آپ کی کوتاہی ہے۔ کسی فن پارے میں احتجاج کا رنگ موجود ہے تو کیا وہ فن پارہ، فن کا حصّہ نہیں رہا؟ اس کو سیاست کا نام کیوں کر دیا جا سکتا ہے کہ ایک فن کار نے معاشرے میں موجود ایک ہولناک عمل کو موضوع بنایا ہے۔ کیا شہر میں اس طرح مار دیے جانے والے لوگوں کا ذکر سیاست ہے؟

پرانی کتاب ہے، اس لیے شاید انھوں نے پڑھی ہو ورنہ میرا جی چاہتا ہے کہ ہر برٹ ریڈ کی ’’آرٹ اینڈ سوسائٹی‘‘ ان لوگوں تک پہنچا دوں جنھوں نے یہ بیان تحریر کیا۔ معاشرے کے بعض ادارے اگر وحشیانہ عمل کر رہے ہیں اور brutalize ہوگئے ہیں تو ان کی عکاسی کرنے والا آرٹ سیاسی ہونے کا الزام سہے گا؟ جدید اردو ادب میں احتجاج کا رنگ نمایاں رہا ہے تو کیا آپ اسے سیاسی قرار دے کر ٹاٹ باہر کر دیں گے؟ اگر کسی نے اس واقعے میں سیاست کی ہے تو ان لوگوں نے جنھوں نے فن پارے پر پابندی عائد کردی، یہ کہتے ہوئے کہ سیاسی ہے۔ وہ خود یہی کام کررہے ہیں اور سیاسی کے لفظ کو گالی کی طرح فن کار کے منھ پر پھینک رہے ہیں۔ اس گالی نے مجھے بے مزہ کر دیا۔ گالی تو کوئی اچھی لاتے۔

عدیلہ سلیمان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ انتہائی سنجیدہ اور باشعور خاتون ہیں۔ انڈس ویلی اسکول جیسے مُعتبر ادارے میں فائن آرٹ کے شعبے کی سربراہ ہیں اور فن کے بارے میں ڈی جی پارکس کو پڑھا سکتی ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو ایسے سرکاری اہل کاروں کی ڈوری ہلا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ دو گھنٹے کے اندر اندر اس نمائش کو بند کروا دیا گیا۔ یہ لوگ سوچ پر تالے لگا رہے ہیں، لیکن اس کے بعد زیادہ لوگ فن کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہیں اور بینالے کو جا کر دیکھ رہے ہیں۔ فن کار کی سب سے بڑی کامیابی اس کا فن پارہ ہے لیکن عدیلہ سلیمان نے ایک اور کامیابی حاصل کی ہے جو جبری بندش کے منھ پر طمانچہ ہے اور کراچی بینالے KB19 کی اس سے بڑھ کر کامیابی ہو گی۔

یہ سب کیا ہوا اور کیوں؟ ریاست ان نامعلوم افراد کے قتل کے بارے میں تحقیقات کرنے پر مستعد کیوں نہیں ہے اور محض چند افراد کی حفاظت کے لیے اس قدر سرگرم؟ اس بات کا ذکر کرنے والے فن پاروں کو بھی تہس نہس کردیا جائے گا اور خاک میں ملا دیا جائے گا؟ ریاست کا بیانیہ ان افراد کے اخراج سے مکمل ہوتا رہے گا؟ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ آرٹ ہے یا نہیں۔ یا پھر آرٹ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سنسر شپ کیا ہے اور اب یہ اس کی ایک نئی اور انتہائی مکروہ صورت ہمارے سامنے آئی ہے۔ افسوس کہ اس سنسر شپ میں ریاست کی مشینری ہی نہیں، خود فن کار بھی شامل ہوگئے ہیں جو بینالے کی انتظامیہ کی صورت میں عدیلہ سلیمان کے کام سے اپنی جان چھڑا رہے ہیں، یہ کہہ کر کہ ہمیں اس کی خبر نہیں تھی۔ ناواقفیت کے اس کم زور دعوے نے سنسر شپ کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، وہ ہاتھ جو نامعلوم افراد کی بے نام قبروں کو مسمار کرکے فن کار کی گردن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

Sundeep Sen

ان واقعات سے چند باتیں بہت واضح ہوئی ہیں اور نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں۔ لیکن اس کے بارے میں جو تبصرے یا تاثرات سامنے آئے ہیں ان میں ہندوستان کے ممتاز شاعر اور میرے عزیز دوست سُدیپ سین (Sudeep Sen) کی نظم بہت اہم معلوم ہوتی ہے، فن پاروں کی تباہی کے خطرے پر فن پارہ۔ اصل نظم انگریزی میں ہے اور اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے __

پتھر کے ستون، سر بُریدہ پڑے ہیں، ترک کر دیے گئے ہیں __

یہ کوئی اسٹون ہینج (Stonehenge) نہیں جو تاریخ کو محفوظ رکھیں۔

فن کار غارت زدہ ، کہانیاں مٹا دی گئیں، خاندان برباد

انسانوں کو مٹا دیا گیا __ 444 زندگیاں، بھاری قیمت

ان قتل گاہوں میں خاک آلودہ ہوائیں چیختی ہیں

خالی کمروں میں کھوکھلی گونج بن کر __

پھر بھی آوازیں نامحکوم رہتی ہیں، اور مضبوط __

سیاسی طاقت کے باوجود، اس کے پھسلتے پارے بن کر۔

کنتسوگی __ ٹوٹےٹکڑوں کو جوڑنے کا قدیم جاپانی عمل (kintsugi)

برتنوں کو سونے چاندی کے شفا بخش لمس سے جوڑ کر

یہ شعور کہ اب یہ ٹکڑا

ٹوٹ جانے کے بعد پہلے سے زیادہ خوب صورت ہے

تمام نفرت کے باوجود آزادی اظہار فاتح ٹھہرتی ہے

اس شکستگی میں حُسن اور فن فتح مند ہیں

عصمت دریدہ قبروں کی لوحیں اب بھی سانس لیتی ہیں

ہارے ہوئے دل دھڑکتے ہیں __ پہلے سے بھی زیادہ

بلند تر، مضبوط تر __ ہماری دنیا کی آزادی کے نام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).