ڈاکٹر اقبال نیازی یوں چلے گئے؟


کل رات سے انتہائی مضطرب ہوں۔ ڈاکٹر ملا احسان کا فون آیا تھا، جس نے بتایا کہ کچھ ماہ پیشتر اقبال نیازی گزر گیا۔ ہائیں، فروری کے آخر میں تو ہم ڈاکٹر جنید قریشی ماہر امراض اطفال کے بیٹے کے ولیمہ سے اکٹھے ڈاکٹر عصمت اللہ خان ماہر امراض قلب کی کار میں ان کے گھر پہنچے تھے جہاں بیٹھ کے ہم نے چائے پی تھی اور بہت دیر تک گپ لگائی تھی۔ گپ کیا لگائی تھی نیازی کی باتیں ہی سنی تھیں، وہ کسی کو بولنے کب دیتا تھا، اپنی ہی کہے چلا جاتا تھا۔

اس کے خیالات بہت راسخ تھے۔ اپنے تجزیے کو وہ حتمی سمجھتا تھا۔ ڈی ایچ اے کے کسی فیز میں جب اسے ڈراپ کرکے میں اور عصمت گاڑی میں رہ گئے تو میں نے اقبال کے بارے میں گلہ کیا کہ یار وہ تو کسی کی سنتا ہی نہیں تو عصمت نے کہا چلو یار ٹھیک ہے ناں وہ آج بھی ویسا ہی متلون مزاج ہے جسے کالج میں ہوا کرتا تھا مگر ہے تو کلاس فیلو اور دوستانہ رویہ رکھنے والا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال نیازی محبت کرنے والا شخص تھا۔ وہ آخری ملاقات میں مسلسل مجھے کہتا رہا، ”مجاہد توں اینکر بنڑ ونج“ میں ہنس ہنس کے کہتا رہا، ”نیازی کیسے بن جاؤں یار؟ “ ”ہور جو بنڑے کھلوتے نیں تے توں کیوں نئیں بنڑ سگدا؟ “ اس نے عمران خان نیازی کی طرح سوال کے جواب میں سوال داغا تھا۔ اس ملاقات میں اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کی اہلیہ عمران خان کی کزن ہے اور اس کا ایک بیٹا تحریک انصاف کے ہی ٹکٹ پر لاہور سے پنجاب اسمبلی کا رکن بھی منتخب ہو چکا ہے۔

جب میں نے اسے بتایا کہ اینکر کیسے بنتے ہیں یعنی یا تو پاکستان میں مسلسل باقاعدہ صحافت سے وابستگی اور اسی اخبار کی طرف سے چینل بنائے جانے کے بعد مالک کی نظروں میں رہنے کی وجہ سے یا پھر چینل کے مالک سے کسی بھرپور کنکشن کے سبب تو اقبال نیازی ایک لمحے کو سوچ میں ڈوبا، پھر فوراً کہا تھا، ”کنکشن وی لبھ لینے آں، اللہ بہتری کرسی“۔ وہ لاہوری اور میانوالی کے دونوں لہجوں اور الفاظ کو باہم کرکے باتیں کیا کرتا تھا۔

میڈیکل کالج میں لاہور کے لکشمی چوک سے ملتان پڑھنے کی خاطر پہنچنے والا میرا ہم جماعت اقبال نیازی، بیشتر نیازیوں کی مانند انتہائی جذباتی گورا چٹا، گھنے سیاہ بالوں والا، خوشگوار شکل والا لڑکا تھا۔ چلبلا، پھرتیلا مگر سنجیدہ۔ جب غصے میں آتا، جو نیازی ہونے کے سبب وہ اکثر آ جایا کرتا تو اس کی سرخ ڈوریوں سے بھری بڑی آنکھیں کچھ اور بڑی ہو جاتیں جن میں سے ایک زیادہ بڑی ہوتی، زبان چلنے سے پہلے اس کا ہاتھ سامنے والے کو مارنے یا اس کا گریبان پکڑ کے جھنجھوڑنے کی خاطر بڑھا کرتا تھا مگر غصہ اترتے ہی جو اترتے بھی دیر نہیں لگا کرتی تھی اس کے چہرے پہ وہی معصوم بھرپور مسکراہٹ اور اپنے سامنے فرد کے ساتھ دل بستگی چشم زدن میں لوٹ آیا کرتی تھی۔

اقبال مولانا عبدالستار نیازی کا بھانجا تھا اور اس کی وابستگی بھی جمعیت علمائے پاکستان کے ساتھ تھی۔ کالج میں مذہب سے وابستگی والی اگر کوئی طالب علم تنظیم تھی تو جمعیت ہوا کرتی تھی۔ وہ جماعت سے اختلافات کے باوجود یاری دوستی میں اپنے ایک قریبی دوست لالہ ابراہیم کی وجہ سے انتخابات میں ان کے امیدوار کے لیے ہی غنڈہ گردی کیا کرتا تھا۔ غنڈہ گردی بھی کیا ہوتی تھی بس لڑ پڑنا، ایک آدھ جھانپڑ لگا دینا یا مکہ ٹھوک دینا۔

شاید میرا اپنا سبھاؤ تھا اور ساتھ میں اللہ کا کرم بھی کہ باوجود میرے لامذہب ہونے اور بائیں بازو کی سیاست میں ملوث ہونے کے جمعیت کے سارے ہی شناسا لوگ اگر میرے دوست نہیں تھے تو مخالف بھی نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات نہ صرف میری زیادتیوں سے صرف نظر کرتے تھے بلکہ کئی بار تو میری بات بھی مان لیا کرتے تھے۔ اقبال نیازی تو جمعیت کا تھا بھی نہیں اس لیے اس کا مجھ سے تعلق مربیانہ ہی رہا تھا۔ ہم دوست ہرگز نہیں تھے لیکن ملتے تو ایک دوسرے کے گلے لگتے، ایک دوسرے کی گردن یا گال پہ بوسہ بھی دیتے اور بہت دیر تک کھڑے گفتگو بھی کیا کرتے۔ اختلافی بھی اور غیر اختلافی بھی۔

پھر ہم سب بکھر گئے تھے۔ روس جانے سے پہلے میں ایک بار لاہور میں اسے ڈھونڈ کر ملا تھا، تب وہ شاید کارپوریشن میں ڈاکٹر تھا۔ اسی طرح تپاک اور محبت سے ملا تھا جیسے کالج میں ملا کرتا تھا مگر تب اسے شاید کوئی کام تھا، وہ عجلت میں تھا اور ہم دیر تک باتیں نہیں کر سکے تھے۔

گذشتہ برس کے اواخر میں جب میں پاکستان آیا تو میری پذیرائی کی خاطر ہم دوست بوجوہ باہم نہیں ہو پائے تھے مگر نئے سال کے اوائل میں میرے دوست اور ہمارے ہم جماعت ہارمون لیب کے مالک ڈاکٹر محمد خالد کے بیٹے کے ولیمے پر ہم بہت سے ہم جماعت اکٹھے ہو گئے تھے جہاں ایک طویل عرصہ کے بعد میری اقبال نیازی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے آنے سے پہلے چونکہ میں رطب اللسان تھا اس لیے وہ محبت کے ساتھ گلے مل کر شاید زندگی میں پہلی اور آخری بار میری باتیں غور سے سنتا رہا تھا جس کے بعد اس نے مجھے اینکر بنانے کی رٹ لگا دی تھی اور پھر حسب معمول بولتا ہی چلا گیا تھا۔

اس نے اب ہلکی ہلکی داڑھی رکھ لی تھی، چہرے کا تل کچھ بڑا ہو گیا تھا اور ہم سب کی طرح اس کے چہرے پر بھی عمر کے مدھم مدھم آثار نمایاں ہو چکے تھے۔ اگر ہم میں کسی نے کسی دوسرے دوست کے ساتھ بات کرنی تھی تو ہم قریب چلے جاتے مگر اقبال نیازی کی گفتگو جاری رہتی اور بیچ میں کہیں کہیں وہ پھر مجھے اینکر بنائے جانے بارے اپنی رائے دے دیتا تھا۔ یہ محبت ہی تو تھی کہ وہ میری کہی باتوں کو زیادہ سے زیادہ سامعین تک پہنچائے جانے کی خواہش کر رہا تھا۔

ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہم پھر سے ڈاکٹر جنید قریشی کے بیٹے کے ولیمے پر اکٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد چونکہ مجھے اور نیازی دونوں کو ڈی ایچ اے جانا تھا۔ میں تو ویسے ہی مسافر ہوتا ہوں، نیازی بھی کار کے بغیر آیا تھا چنانچہ عصمت ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا کے پہلے اپنے گھر لے گیا تھا۔ وہاں نیازی نے بہت باتیں کی تھیں، مولانا عبدالستار کے ساتھ اپنی وابستگی کے دور سے متعلق، عمران خان کی حکومت کے حق میں، معاشرے میں ابتذال سے متعلق، اگر معلوم ہوتا کہ وہ دو تین ماہ بعد ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گا تو ہم اس سے کچھ اور زیادہ باتیں سن لیتے۔

اگرچہ ڈاکٹر احسان نے مصدقہ خبر دی تھی مگر تسلی نہ ہو پائی تھی۔ رات عصمت کو فون کیا، اس نے اٹھایا نہیں۔ صبح اس نے کال کی، کٹ گئی پھر میں نے ملایا تو بات ہوئی اس نے بتایا کہ کوئی تین چار ماہ پہلے اقبال نیازی کو دل کا دورہ پڑا تھا جس کے دو ماہ بعد اس کی رحلت ہو گئی تھی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).