انوکھی ایف آئی آر


سردیوں کی دلفریب دوپہر تھی۔ رشید اے ایس آئی اس دن تھانہ میں ڈیوٹی آفیسر تھا۔ رشید اپنے تھانہ کے صحن میں دفتر لگائے دو پارٹیوں کے بیانات قلمبند کرنے میں مصروف تھا۔ یہ ایک محلے میں سیوریج کے پانی کی نکاسی کا جھگڑا تھا۔ دونوں پارٹیوں کے مشتعل افراد اٹھ اٹھ کر ہاتھوں کے اشاروں سے ایک دوسرے پہ طعنہ زنی میں مصروف تھے۔ رشید بار بار دونوں فریقین کو سمجھانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔

رشید نے سمجھانے کے انداز میں کہا دیکھو بھائیو!

میری سترہ سال سروس ہو چکی ہے۔ میں نے یہی سیکھا اور دیکھا ہے کہ لوگ ایک گالی کی وجہ سے غصے میں آکر قتل کر دیتے ہیں اور پھر عمر بھر جیل کی سلاخوں میں قید رہ کر پولیس والوں کی ہزاروں گالیاں برداشت کرتے ہیں۔ اس لیے گالی گلوچ اور جھگڑے کی میں ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ سلجھایا نہ جاسکے۔ ایک سیورج کا پانی ہے میں موقعہ پہ جاکر دیکھ لیتا ہوں اور معاملے کو سلیقے سے سلجھا لیتے ہیں۔ اگر دونوں طرف سے تحمل اور برداشت سے کام نہ لیا گیا تو مجبوراً مجھے دونوں پارٹیوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔

میں سب کو حوالات میں بند کردوں گا۔ ابھی رشید کی بات پری نہ ہوئی تھی کہ دھوتی کرتے میں ملبوس ایک تیس پینتیس سال کی خاتون تھانہ میں داخل ہوئی اور سیدھی رشید کی کرسی کے پاس آکر زور زور سے چیخنے اور بولنے لگی۔ پہلے تو رشید نے دھیان نہ دیا لیکن جب اس خاتون نے غلیظ گالیاں دینا شروع کیا تو رشید اس کی طرف متوجہ ہوا۔ رشید نے کہا محترمہ ابھی میں تھوڑا مصروف ہوں آپ وہاں بنچ پہ تشریف رکھیں میں فارغ ہوکر آپ کی بات سنتا ہوں آپ فکر نہ کریں۔ خاتون نے پنجابی میں کہا (جے مینوں جلدی ہووے تے مُڑ) اگر مجھے جلدی ہو تو پھر؟ ایک بزرگ نے رشید سے کہا بیٹا آپ پہلے اس عورت کی بات سن لیں ہم انتظار کر لیتے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے باقی لوگ بھی خاموش رہے۔ رشید نے کاغذ قلم پکڑ کر عورت کی طرف متوجہ ہوکر کہا جی بتائیں۔

عورت نے کہا (ایہہ گل ایہناں ساریاں دے سامنے کرن والی نہیں اٹھی کے اودھے اندرچل) یہ بات سب کے سامنے کرنے والی نہیں اٹھ کر اندر چلو۔ رشید نے دونوں پارٹیوں سے ایک گھنٹے کا وقت یہ کہہ کر لے لیا کہ میں ایک گھنٹے بعد موقعہ پر آتا ہوں ادھر ہی فیصلہ بھی کریں گے اور عورت کے ساتھ اپنے تفتیشی والے کمرے میں چلا گیا۔ اس عورت نے اس کے ساتھ ہونے والی واردات کا احوال اپنی دیہاتی زبان میں بتایا لیکن میں یہاں قاری کی سہولت کے لیے اپنی زبان میں لکھنے کی کوشش کروں گا۔

یہ ایک سادہ لوح دیہاتی عورت تھی۔ اس کا نام صوبو تھا۔ اس کا خاوند ایک فیکٹری میں چوکیدار تھا۔ جو رات کو ڈیوٹی پہ چلا جاتا اور صبح سات آٹھ بجے واپس آتا۔ یہ لوگ کسی دیہات سے روز گار کی تلاش میں لاہور آکر لاہور کے ایک قریبی گاٶں میں آباد ہوگئے تھے۔ ان کے خاندان کے کچھ مزید گھر بھی لاہور کے أس پاس دیہاتوں میں آباد تھے۔ جو شہر کے کارخانوں فیکٹریوں میں مزدوری کرتے۔ اس شام بھی صوبو کا شوہر گامو اپنی ڈیوٹی پہ چلا گیا۔

صوبو نے گھر کا کام کاج نمٹایا اور سونے کے لیے اپنے تنگ سے کمرے میں چلی گئی۔ رات کا کوئی دس سے گیارہ بجے کا وقت تھا جب اچانک بجلی چلی گئی۔ کمرے میں بہت گہرا اندھیرا ہوگیا۔ صوبو ابھی کچی پکی نیند میں منہ پر رضائی لیے لیٹی تھی کہ کسی نے صوبو کی ٹانگوں پر ہاتھ مسلنے شروع کر دیے۔ ہلکا ہلکا مساج صوبو کو بھی بھلا محسوس ہوا۔ آہستہ آہستہ انجان ہاتھوں نے صوبو کی دھوتی میں گھسنا شروع کردیا۔ صوبو کو لگا شاید آج گامو سرپرائز دینا چاہ رہا ہے۔

وہ بھی سونے کا ڈھونگ کرنے لگی۔ صوبو کو پہلے سے زیادہ لطف آ رہا تھا۔ یہ کام تو صرف گاموہی کرسکتا تھا مگر آج انداز اور پھرتیلا پن گامو والا نہیں تھا۔ صوبو کو شک ہوا مگر وہ نیند میں ہونے کا بہانہ بنا کر لیٹی رہی۔ اس کے ذہن میں تھا کہ گامو آج ایک ہفتے بعد اس وقت گھر آیا ہے شاید اسی لیے زیادہ گرمجوشی سے مل رہا ہے۔ اب صوبو کی دھوتی مکمل ہٹ چکی تھی مگر صوبو کے منہ سے رضائی نہ اتری۔ وہ گامو کو بھرپور موقع دے رہی تھی۔

صوبو کو آج وہ سکون مل رہا تھا جو پہلے کبھی میسر نہ آیا تھا۔ جب صوبو نے محسوس کیا کہ سات سال ہوئے شادی کو اتنا بھرپور اور مردانہ انداز تو گامو کا کبھی بھی نہ تھا۔ تو اس نے منہ سے رضائی ہٹائے بغیر پوچھا (وے کیہڑا ایں ) تم کون ہو؟ تو وہ انجان شخص سارا عمل ادھورا چھوڑ کر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آناً فاناً وہاں سے بھاگ نکلا۔

اب صوبو تھانے میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی رپٹ لکھوانے آئی تھی۔ وہ اپنے مجرم کو دیکھنا چاہتی تھی۔ صوبو نے حرف بہ حرف اور مکمل سچ رشید کو سنا دیا۔ پوری داستان سن کر صوبو کا بیان لکھنے کے بعد رشید نے سوچا یہ کوئی ذہنی مریضہ ہے ورنہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ کہ ایک عورت کے ساتھ مکمل جنسی عمل ہوجائے اور وہ اپنے ساتھ سونے والے مرد کا چہرہ نہ دیکھ پائے یہ ممکن نہیں۔ لہذا رشید نے جان چھڑوانے کے لیے صوبو کو کل آنے کا کہا۔

صوبو گالیاں دیتے ہوئے تھانے سے باہر نکل گئی۔ تھانے سے اگلی بلڈنگ ڈی ایس پی صاحب کا دفتر تھا۔ اب پتہ نہیں صوبو کو کسی نے کہا یا اس کے اپنے ذہن میں یہ بات آئی وہ ڈی ایس پی صاحب کے دفتر جا گھسی۔ صوبو کا شورشرابہ سن کر ڈی ایس پی صاحب نے اسے اپنے دفتر بلا لیا۔ صوبو نے بلاجھجک پوری کہانی دوبارہ ڈی ایس پی صاحب کو بھی سنائی۔ ڈی ایس پی صاحب انتہائی شفیق نرم دل اور عبادت گزار انسان تھے۔ ہفتے میں ایک دو روزے رکھتے۔

پانچ وقت نماز پڑھتے انسانوں کے لیے اللہ نے ڈی ایس پی صاحب کی شکل میں فرشتہ تعینات کر رکھا تھا۔ ڈی ایس پی صاحب نے  اپنے ریڈر سے کہا ڈیوٹی أفیسر کو بلاٶ۔ رشید جب ڈی ایس پی صاحب کے دفتر پہنچا تو صوبو کو دیکھ کر کہنے لگا سر یہ کوئی نفسیاتی مریضہ ہے۔ میں نے اس کی پوری بات سنی ہے۔ میری عقل اس کی کہانی کو سچ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ڈی ایس پی صاحب نے کہا تم اس کا بیان لکھو اور اس کے بیان کے تناظر میں نامعلوم پرچہ درج کرو۔

اس کے گھر کے آس پاس جتنے آوارہ قسم کے لڑکے ہیں سب کو شامل تفتیش کرو۔ اس کے شوہر کو بلاٶ۔ اس کا بھی بیان لو۔ رشید یس سر کہہ کر باہر آگیا۔ رشید جب دفتر سے باہر نکلا تو ریڈر نے کہا رشید صاحب فی الحال آپ پرچہ مت دیں۔ پہلے اس کے شوہر کو بلائیں بھلا وہ کیا کہتا ہے۔ رشید صوبو کو لے کر تھانے آگیا۔ اس نے صوبو سے کہا اپنے شوہر گامو کو بلاٶ۔ گامو کو تھانے بلایا گیا تو اس نے اپنی بیوی کو بالکل ٹھیک ٹھاک تندرست کہا اور صوبو کے کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہونے سے انکار کر دیا۔

گاموں بھی حیران تھا کہ ہمارے گھر تو کوئی آتا ہی نہیں پھر یہ سب کیسے ہوگیا۔ بہرحال رشید نے ایف آئی آر چاک کیے بغیر ہی محلے کے چند اوباش لڑکوں اورگامو کے ایک دو رشتے دار لڑکوں کو تھانے بلالیا۔ صوبو بار بار ایک ہی بات کر رہی تھی۔ کہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص بالکل کم عمر لڑکا ہے۔ جب رشید نے دوچار لڑکوں کو چھتر مارے تو اٹھارہ انیس سال کا گامو کا بھتیجا اخترا رشید کو ہاتھ سے پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گیا۔

اس نے رشید کے پیر پکڑ کر کہا صاب جی انسان کی زندگی میں ہزاروں گناہ اللہ معاف کردیتا ہے۔ ایک گناہ کی مجھے بھی معافی لے دیں۔ صوبو کے ساتھ رات زیادتی میں نے کی ہے۔ جوتے کھا کربھی تو بتانا ہے تو کیوں نہ ابھی سچ بتا دوں۔ اخترے کی بات سن کر رشید کی زبان گنگ ہوگئی۔ رشید نے صوبو کو اس کے شوہر سے علیحدگی میں بلا کر کہا تمھارا مجرم مل گیا ہے۔ بتاٶ اب اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ صوبو نے کہا ( تھانیدارا مینوں وکھا تے سہی کون میرا عاشق ہیہ) تھانیدار صاحب مجھے دکھاٶ تو سہی میرا عاشق کون ہے۔ رشید صوبو کو اس کمرے میں لے گیا جہاں اخترا بیٹھا تھا۔ صوبو نے اخترے کو دیکھ کر کہا۔ (وے اختریا تیڈا ایڈا روح ہا تے ڈس تاں ڈیویں ہا۔ اوہ ویلا کوئی بھجن دا ہإ) تیری اتنی ہمت ہے تو بتا تو دیتا، وہ وقت بھاگنے کا تھوڑی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).