اقبال کے لوحِ مزار پر درج غلط تاریخ پیدائش


علا مہ محمد اقبال کی تاریخ پیدائش ہمیشہ سے ایک متنازع مو ضو ع رہی ہے اور اس سلسلے میں مختلف کتابوں میں اقبال کی تاریخ ِولادت پر ”کھلا تضاد“ موجود ہے۔ ان مضامین اور کتابوں میں اقبال کا سنِ ولادت 1870، 1872، 1873، 1875، 1876 یا 1877 بتایا گیا ہے۔

”خمخانہ جاوید“ جلد اول، مصنف لالہ سری رام میں اقبال کا سن ولادت 1870 درج ہے۔ اس کتاب کی تحریر اور اشاعت کے دوران اقبال انگلستان میں تھے اور عین ممکن ہے کہ لالہ سری رام نے اقبال کے حالات زندگی ان کے بعض جاننے والوں سے حاصل کیے ہوں۔ ”انتخاب زریں“ مرتب سید راس مسعود میں سنِ ولادت اگست 1870 درج ہے۔ نظامی بد ایونی کی کتاب ”قاموس المشاہیر“ اور جلا ل الدین احمد جعفری کی مرتب شدہ ”قنداردو“ میں بھی ولادت کا سال 1870 ہی دیا گیا ہے۔ سید راس مسعود کے علاوہ باقی کوئی بھی اقبال کے حلقہ احباب میں شامل نہ تھے۔ اس لیے قیاس کیا جاتا ہے کہ ان تمام حضرات نے سنِ ولادت ”خمخانہ جاوید“ سے نقل کیا ہو گا۔

ڈا کٹر خلیفہ عبد الحکیم اور عبد القادر سروری اقبال پر اپنے مضامین میں سنِ ولادت 1872 درج کرتے ہیں۔ اقبال کی وفات کے چند روز بعد روزنامہ ”انقلاب“ میں اقبال کے حالاتِ زندگی پر ایک مضمون شائع ہوا جو شیخ عطا محمد سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی تھا۔ اس مضمون میں عطا محمد کی معلومات کے مطابق ولادت کا مہینہ دسمبر اور سال 1876 تحریر کیا گیا۔ لیکن بعد ازاں روزنامہ انقلاب کی اشاعت 7 مئی 1938 میں اقبال کی پیدائش کے عنوان کے تحت مندرجہ ذیل نوٹ شائع ہوا:

حضرت علامہ اقبال کی جو مختصر سوانح حیات ”انقلاب“ کی کسی گزشتہ اشاعت میں چھپی تھی، اس میں شیخ عطا محمد کے بیان کے مطابق مرحوم کی تاریخ پیدائش دسمبر 1876 بتائی گئی تھی، لیکن اب تحقیقی طور پر معلوم ہو چکا ہے حضرت علامہ مرحوم 22 فروری 1873 کو پیدا ہوئے۔ اس ”ایجاد کردہ“ تاریخ پیدائش کا ماخذ تو ”انقلاب“ نے نہ لکھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ادارہ انقلاب نے سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش و اموات پر انحصار کیا ہے۔

عبد المجید سالک کی کتاب ”ذکرِ اقبال“، چراغ حسن حسرت کی کتاب ”حیاتِ اقبال“، عبد اللہ انور بیگ کی کتاب ”شاعر مشرق“، محمد طاہر فاروقی کی کتاب ”سیرتِ اقبال“ اور محمد حسین خان کی کتاب ”اقبال“ میں بھی تاریخ ولادت 22 فروری 1873 ہی درج ہے۔ اقبال کی بیسویں برسی پر 1958 میں حکومتِ پاکستان نے جو یاد گاری ٹکٹ چھاپے ان پر بھی سنِ ولادت 1873 ہی درج کیا گیا۔

اقبال کے احباب میں ان کے حالات زندگی پر ایک مضمون فوق نے تحریر کیا جو ”حالاتِ اقبال“ کے عنوان سے 1909 میں شائع ہوا۔ اس میں اقبال کا سنِ ولادت 1875 درج ہے۔ مولوی احمد دین ایڈووکیٹ نے بھی اپنی کتاب ”اقبال“ میں ان کا سنِ پیدائش 1875 لکھا ہے۔ 1930 میں فوق نے اپنی کتاب ”مشاہیر کشمیر“ کی طبع ثانی میں 1875 کو ہی اقبال کا سنِ ولادت قرار دیا لیکن 1932 میں ”نیرنگ خیال“ کے اقبال نمبر میں فوق نے اپنے مضمون میں پہلی بار سنِ ولادت 1876 تحریر کیا۔ محمد عبد الرزاق علیگ کی کتاب ”کلیاتِ اقبال“ میں بھی سنِ ولادت 1875 درج کیا گیا ہے۔ اسی طرح ”سرمایہ اردو“ مرتب حافظ محمود شیرانی میں بھی ان کا سنِ ولادت 1875 بیان کیا گیا ہے۔

فوق اور مو لوی احمد دین کی طرح اقبال سے گہرے تعلقات رکھنے والے نواب ذوالفقار علی خان نے اقبال پر اپنے انگریزی کتابچہ بعنوان ”مشرق سے ایک آواز“ میں اقبال کا سنِ ولادت 1876 کے لگ بھگ تحریر کیا ہے۔ اسی طرح ملک راج آنند نے اقبال پر اپنے انگریزی مضمون میں، جس کا اردو ترجمہ 1932 میں ”نیرنگ خیال“ کے اقبال نمبر میں چھپا، ان کا سال پیدائش 1876 بیان کیا ہے۔ شیخ اکبر علی کی کتاب ”اقبال، شاعری اور پیغام“ میں بھی یہی سنِ ولادت دہرایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ جن کتب میں اقبال کا سنِ ولادت 1876 درج ہے ان میں ”مختصر تاریخ اردو ادب“ از سید اعجاز حسین، ”تذکرہ شعرائے پنجاب“ مرتب نسیم رضوانی، ”اقبال کامل“ از عبد السلام ندوی اور ولیم کینٹول سمتھ کی کتاب ”ہند میں جدید اسلام“ سرِ فہرست ہیں۔ ”زندہ رود“ از ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق اقبال کی زندگی میں جس سنِ ولادت کو اقبال کی تائید حاصل تھی وہ 1876 ہی تھا۔

”اقبال یورپ میں“ کے مصنف سعیدا ختر درانی کی تحقیق کے مطابق یورپ میں قیام کے دوران اقبال نے یکم اکتوبر 1905 کو ٹرینٹی کالج کیمبرج کے رجسٹر میں اپنے ہاتھ سے اپنی پیدائش کا سن 1876 تحریر کیا۔ پھر انہوں نے 6 نومبر 1905 کو لنکنز ان لندن کے رجسٹر داخلہ میں اپنی عمر انتیس برس درج کی، اس کے مطابق بھی سنِ ولادت 1876 بنتا ہے۔ 1907 میں اقبال نے ڈاکٹریٹ کے لیے اپنا تحقیقی مقالہ ”ایران میں فلسفہ ما بعد الطبیعیات کا ارتقاء“ میو نخ یونیورسٹی میں پیش کیا تو اس کے ساتھ حسب دستور ایک خود نوشت سوانحی خاکہ بھی منسلک کیا جس میں اقبال نے اپنے ہاتھ سے لکھا:

میں 3 ذیقعد 1294 ہجری ( 1876 ) کو سیالکوٹ، پنجاب (انڈیا) میں پیدا ہوا۔ 1931 میں جب گول میز کانفرنس میں شمو لیت کی خاطر انگلستان جانے کے لیے پاسپورٹ بنوایا تو اس میں بھی اپنا سنِ ولادت 1876 ہی تحریر کیا۔

”ہندوستان میں کون، کون ہے“ مرتب تھامس پیٹر میں اقبال کا سن پیدائش 1877 درج ہے۔ پی۔ ڈی چندر کی مرتب کردہ ”انڈین انسائیکلو پیڈیا“ میں بھی سنِ ولادت 1877 درج ہے۔ اقبال کی وفات کے دوسرے روز 22 اپریل 1938 کو انگریزی روزنامہ ”سول اینڈ ملٹری گزٹ“ نے اپنے ایک نوٹ میں 1877 کو ہی ولادت کا سال قرار دیا۔

روسی متشرق کو بیکوا نے بھی اپنی کتاب میں سن پیدائش 1877 تحریر کیا ہے۔ 1958 میں پراگ یونیو رسٹی کے پروفیسر یان مارک کا اقبال کی تاریخ پیدائش پر ایک مدلل مضمون، رسالہ ”آرچیو اورنیٹلی“ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اقبال کی ٹھیک تاریخ ولادت 9 نومبر 1877 ہے۔ 1963 میں ”روز گارِ فقیر“ کے مصنف سید وحید الدین نے شیخ اعجاز احمد کے پیش کردہ شواہد کی روشنی میں طویل بحث کے بعد ثابت کیا کہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت 9 نومبر 1877 ہے۔ اس کے بعد اہلِ علم نے اقبال کی اسی تاریخِ ولادت کو درست تسلیم کیا۔ دیگر مصنفین نے بھی اپنی کتابوں کی نئی اشاعت میں تاریخِ پیدائش اسی حساب سے بدل کر 9 نومبر 1877 کر دی۔

1969 میں جسٹس ایس۔ اے رحمن کی سربراہی میں قبال کی ٹھیک تاریخِ پیدائش کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ 9 فروری 1974 کو کمیٹی کی سفارشات پر حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ اقبال کی صحیح تاریخِ ولادت 9 نومبر 1877 ہے۔

اقبال کے مزار پر درج سنِ ولادت کے حوالے سے ان کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی کتاب ”زندہ رود“ میں لکھتے ہیں، مزار کی تکمیل غالباً 1950 میں ہوئی۔ تعویذ اور لوح مزار حکومت افغانستان نے کابل سے تیار کرا کے بھیجے۔ لوح مزار پر علامہ محمد اقبال کا سنِ ولادت 1292 ہجری ( 1874 ء) کندہ ہے جو ان کے مروجہ یا مفروضہ کسی بھی سنِ پیدائش کے مطابق نہیں۔

نوٹ: تحریر کا مواد ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب زندہ رود سے لیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).