راستہ بھولنے کے بعد خوشی کا سوال کیسا؟


”خوش کیسے ہوسکتی ہوں؟ “ اس نے اپنی بھاری بھاری پلکوں والی آنکھوں سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے کا کرب، اس کے من کا دکھ، اس کے اندر کی بے چینی سب کچھ جیسے میرے سامنے آگیا۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ یہ سوال مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیوں کیا ایسا میں نے! مجھے شرمندگی سی محسوس ہونے لگی۔

کوئی اپنے سگے بھائی کے قتل کے بعد خوش کیسے رہ سکتا ہے؟ کیسے خوش نظر آسکتا ہے، خوش دکھائی دینے کی کوشش کرسکتا ہے۔ خوشی کی تقریبوں میں شریک ہوسکتا ہے۔ خوش نہیں ہوسکتا ہے۔ کیسے ممکن ہے یہ اس کا جواب جیسے میرے سینے پر خنجر کی طرح گھستا چلا گیا تھا۔

ذکیہ کی زندگی کے پیچ و خم میں صرف بھائی کی المناک موت نہیں تھی اور بھی بہت کچھ تھا اور اس بہت کچھ سے تھوڑا میرا بھی تعلق تھا۔

ذکیہ کا بھائی شاہد میرا دوست تھا، گہرا دوست۔ ہم دونوں کا بچپن کوئٹہ میں گزرا۔ میرے ابا جان ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں ملازم تھے اورہمارا سارا خاندان کوئٹہ میں مقیم تھا۔ اس زمانے کا کوئٹہ بہت خوبصورت اور حسین تھا۔ چھوٹا سا شہر اور دو بڑی بڑی سڑکیں۔ پٹھان، بلوچ، پنجابی، اُردو بولنے والے مہاجر امن و امان سے رہتے تھے۔ نہ سڑکوں پر مسلح لوگ گھومتے تھے اور نہ بڑی بڑی چار وہیلوں پر دوڑنے والی گاڑیاں ہاتھیوں کی طرح شہر کو روندتی پھرتی تھیں۔ نہ مٹی اُڑتی تھی، نہ دھماکے ہوتے تھے اور نہ خون برستا تھا۔

مجھے یاد ہے جناح روڈ پر بے شمار گورے سیاح گھومتے ہوئے نظر آتے۔ چھوٹے چھوٹے ریسٹورانٹ اور چائے کی دکانوں میں ان کا اژدھام ہوتا، کیفے فرح، کیفے چائنا، کیفے فردوسی اور منان چوک پر کیفے ڈان میں چہکتے ہوئے مرد اور عورتیں بے خطر کھاتے پیتے نظر آتے۔ شہر میں کتابوں کی دکانیں تھیں ہر طرح کی اُردو اور انگریزی کی کتابیں مل جاتی تھیں، پڑھنے لکھنے والے لوگوں کا اپنا حلقہ تھا، شعروشاعری بھی ہوتی، بلوچی پشتو گانوں کی بہار بھی تھی۔ سیاسی جھگڑے نہیں تھے سیاسی گفتگو ہوتی تھی چائے اور کافی کی محفلوں میں۔ کوئٹہ شہر یورپ کا کوئی شہر لگتا تھا۔ صاف ستھرا، منظم، آلودگی سے پاک، پڑھے لکھے وضعدار، خوش اخلاق لوگ۔ وہ کوئٹہ تو کہیں کھوگیا۔ کوئی اسے چُرا کر لے گیا، کہیں گم گئے وہ لوگ، چلے گئے روٹھ کر نہ جانے کہاں؟

اس زمانے میں یورپ سے سیاحوں کا ٹولہ ترکی اورایران کے راستے کوئٹہ آتا۔ بعض سیاح کوئٹہ سے لاہور ہوتے ہوئے ہندوستان کے راستے نیپال جاتے اور بعض کوئٹہ سے کابل اور پھر پشاور سے لاہور ہوتے ہوئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں گھومتے گھامتے ہوئے نیپال پہنچتے۔ عام طورپرنیپال سے یہ سیاح ہوائی جہاز کے ذریعے اپنے ملکوں کو لوٹتے تھے اور کچھ اسی راستے سے واپس یورپ کی طرف چلے جاتے تھے۔

وہ اچھا وقت تھا، شہر کی سڑکوں پر لڑکیاں اور عورتیں گھومتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ سردار اس وقت بھی تھے مگر ان کی سرداری اپنے علاقوں میں تھی، کم از کم کوئٹہ سرداروں کے عذاب سے بچا ہوا تھا۔ لوگ اس وقت بھی مذہبی تھے اور سختی سے مذہبی عقائد اور رسم و رواج پر عمل کرتے مگر اسلام کے نام پر قتل و غارت گری نہیں ہوتی تھی۔ طالبان اس وقت بھی تھے جو صدیوں پرانے مدرسوں میں مذہبی تعلیم حاصل کرتے اور سماج میں عزت و احترام سے رہتے مگر قتل و غارت گری ان کا شیوہ نہیں تھا۔

وہ طالب علم تھے لہٰذا طالبان کہلاتے تھے۔ ابھی بھی بلوچستان کے کئی علاقے ہیں جہاں طالبان کے مدرسوں کی عمارتیں قائم و دائم ہیں جنہیں علاقے کے معززین کی مالی امداد ملتی تھی۔ قتل غارت گری اور عورتوں کو مارنا پیٹنا ان کا شیوہ نہیں تھا۔ وہ طالبان تعلیم حاصل کرنے کے لئے تھے نہ کہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے

اس وقت کا کوئٹہ ایک شہر تھا جہاں قانون کی پاسداری تھی، ایک دوسرے کا احترام تھا، ایک دوسرے کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کیا جاتا اور ایک دوسرے کو زندہ رہنے کی جگہ بھی دی جاتی۔ لوگ غریب تھے مگر دل بڑا تھا ان کا۔

اب کوئٹہ ایک عجیب شہر ہوگیا ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں بن گئی ہیں، چھوٹے بڑے ہوٹل بلند ہوگئے ہیں، ہسپتالوں اور تجارتی اداروں کی بے ہنگم بلڈنگوں نے شہر کو بدصورت بنا کرر کھ دیا ہے۔ کہیں پر رکاوٹیں ہیں اورکہیں پر اسپیڈ بریکر بنا کر سڑکوں کا حسن تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ سڑکوں پر بڑی بڑی گاڑیوں میں عجیب چہروں والے لوگ اپنے آگے پیچھے گاڑیوں کا جلوس لے کر نکلتے ہیں۔ اسلحہ عام ہے اور نفرتیں ہر طرح کی شہر کے پانی اور ہوا میں رچ بس گئی ہیں۔

نفرتیں نسلی بھی، مذہبی بھی، زبان کے نام پر بھی لوگ قتل کرنے کو تیار ہیں اورجہاد کے نام پر جان دینے کو راضی ہیں۔ عام معصوم بے زبان شہری تو ایک کولہو کا بیل ہوکر رہ گیا ہے، کام کرتا ہے اور اسے پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کل اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ شہر میں ڈھونڈنے سے بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے گھومتے گھامتے آزادی سے سڑکوں پر رُلتے ہوئے سیاح نظر نہیں آتے ہیں۔ وہ کوئٹہ اب یرغمال بن گیا ہے اورنہ جانے کب تک اسی طرح یرغمال بنا رہے گا۔

شاہد اور میں ایک ہی سرکاری اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے۔ شاہد کے ابو گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں انگلش پڑھاتے تھے، میں بھی ان کا طالب علم تھا۔ وہ ایک عظیم استاد تھے۔ انگلش تو ان کا موضوع تھامگر زندگی ان کی یونیورسٹی تھی اور زندگی کی اس یونیورسٹی میں پڑھنے اور سمجھنے کو سب کچھ تھا۔ ایسے استاد بہت کم ہوتے ہیں جو اپنے طالب علموں کو صرف پڑھاتے نہیں ہیں۔ انہیں امتحان پاس کرنے کے لئے مخصوص موضوعات پڑھا کر اپنے کام سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ نمبر حاصل کرلیں اورمیڈیکل، انجینئرنگ کالج یونیورسٹی اورمختلف اداروں میں انہیں داخلہ مل جائے اور ان کا کام ختم۔

شاہد کے والد رضا سر طالب علموں کو زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھاتے تھے، حالات سے مقابلے کا گُر بتاتے تھے۔ پڑھاتے وہ انگلش تھے مگر شرافت، انسانیت، سچ اور قربانی کے بیج بوتے تھے جو جوانی میں ایک پھلدار درخت کی طرح پھل دیتا ہے۔ آج کل سماجیات، تاریخ، مذہب اور بہت کچھ پڑھایا جاتا ہے اور دل میں نفرتوں کی جوت جگائی جاتی ہے۔ جو یہ سکھاتا ہے کہ مذہب کے نام پر قتل کرنا بھی صحیح ہے، قومیتوں کے نام پر گھر بھی اُجاڑا جاسکتا ہے۔ یہ ہے فرق آج کی تعلیم میں اور گزرے ہوئے کل کی تعلیم میں۔

شاہد اورمیری دوستی بڑھتی چلی گئی۔ ساتھ اٹھنا ساتھ بیٹھا۔ کبھی وہ میرے گھر پر اور کبھی میں اس کے وہاں۔ ہماری دوستی کے ساتھ ہمارے خاندانوں کی دوستی بھی بڑھی۔ پھر ایسا ہوگیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی شناخت بن گئے۔ وہ اچھا دور تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3