مولانا فضل الرحمان کے آنسو: پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کہاں کھڑی ہیں؟


مولانا فضل الرحمان 27 اکتوبر کو کراچی سے آزادی مارچ کرکے اسلام آباد پہنچے تھے، جمعہ کا دن تھا، جمعہ المبارک کی نماز ادا کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ سے خطاب کرنا تھا اس سے قبل گلگت بلتستان میں وزیر اعظم عمران خان نیازی نے اپنے خطاب میں نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ مولانا فضل الرحمان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تنقید کے وہ تیر چلائے جس کو مولانا نے نہ تو سیریس لیا نہ سنجیدہ مگر اپوزیشن جماعتوں میں بہت بڑی جماعت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نہ صرف ڈر گئی بلکہ مولانا صاحب کے کنٹینر تک بھی پہنچ گئے۔

مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کے خلاف تقریر کے جواب میں دو دن کی مہلت دیتے ہوئے اسے مستعفی ہونا کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی کہا کہ یہ لاکھوں کا مجمع وزیر اعظم ہاوس میں داخل ہوکر انھیں گرفتار کرکے آئیں گے۔ اس دھمکی کے بعد نہ صرف اپوزیشن کو وقتی آکسیجن ملی پر وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر حکمران جماعت میں جیسے زلزلہ برپا ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمان نے دو دن کے بعد رہبر کمیٹی میں فیصلہ کیا کہ وہ اب ڈی چوک کی طرف نہیں بڑھیں گے بلکہ وہ اے پی سی بلائیں گے اس میں آیندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اسی دوران مسلم لیگ قاف کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے مولانا فضل الرحمن سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے انہیں مبارکباد دی بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز سے بھی بڑا لیڈر تسلیم کرلیا۔ مولانا فضل الرحمان صاحب آپ نے میلہ لوٹ لیا۔ وہ تو ملاقات کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے کہ اندر کی باتیں کیا ہوتی ہیں۔ رات کو دیر سے مولانا فضل الرحمن جیسے ہی پہنچے تو وہ آبدیدہ تھے۔ جب انہوں نے کارکنوں کا جذبہ دیکھا تو مولانا نے انہیں سلام کیا اور کہا کہ آپ تو ہم سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے کیا پایا، کیا کھویا ہے۔ جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کراچی اسلام آباد تک آزادی مارچ کرکے وہ مقاصد تو حاصل کر چکے ہیں جن سے ان کو خطرات لاحق تھے، باقی ایک دو مقاصد ہیں جن کے لئے وہ کوشاں ہیں کہ بغیر کسی نقصان افہام و تفہیم کے ساتھ حل ہو جائیں وہ کیا مقاصد ہیں؟ ہم سے زیادہ مولانا یا ان کے قریبی رفقاء ہی جان سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی جنگ کسی فرد، جماعت یا حکومت سے نہیں ہے۔ بلکہ ان کی جنگ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ہے، امریکا، اسرائیل، بھارت اور دیگر پاکستان دشمن اور اسلام مخالف قوتیں ہیں، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے تو مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ دھرنا فائدہ مند ہے کہ وہ مولانا کا پریشر کے طور پر کیش کرائیں۔ اور دنیا کو باور کرائیں۔ دکھا سکیں کہ اب ہم پر مزید دباؤ نہ ڈالا جائے۔ مولانا فضل الرحمان سمجھ رہے ہیں کہ عالمی قوتیں عمران خان کے ہاتھوں پاکستان میں کیا کیا کھیل کھیلنا چاہ رہی ہیں۔

عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پاکستان میں اگر کوئی رکاوٹ تھا تو وہ نواز شریف، آصف زرداری یا ایم کیو ایم نہیں تھے۔ بلکہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت جے یو آئی ہے، اسی لیے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، لیاقت علی خان، ضیاء الحق کی راستے سے ہٹانے کے لئے مولانا فضل الرحمان کو بھی اسی راستے سے ہٹانے کے لئے پہلے سے مشق شروع کی جا چکی ہے، مولانا فضل الرحمان پر پہلے بھی 3 خودکش حملہ ہو چکے ہیں۔ جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کے طور پر ابھی تک زندہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی لڑائی کس سے ہے، وہ سب سے پہلے یہودیوں، قادیانیوں پھر امریکا اور اسرائیل کا نام لیتے ہیں، جب مولانا سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ یہاں پر تو موجود نہیں ہیں، ان کا ہر دفعہ یہی جواب ہوتا ہے کہ انہوں نے 20 سال قبل عمران خان کو تیار کرکے یہاں بھیجا ہے۔ اب وہ اسی ایجنڈا کے ساتھ ساتھ عمران خان چل رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان سمجھ رہے ہیں یا اسے بتایا گیا ہے کہ ان کو ان کی جماعت، سیاست، دینی مدارس، مساجد، اسلامی آئین میں اسلامی دفعات کی امکانی تبدیلی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا وقت آچکا ہے۔ اور حکمرانوں کی سرگوشیوں، نجی ٹی وی پروگراموں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے تبصروں، اور مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے جیسے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان اگر صرف بغض عمران خان میں ہوتے تو استعفیٰ لے کر سکھر سے ہی واپس آجاتے، مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ سے قبل سندھ میں ڈیرہ جما لیا تھا اور اگلے دو دن 27 اکتوبر کو کراچی سے آزادی مارچ شروع کرنے والے تھے، اسی وقت نہ صرف مولانا فضل الرحمان کو وزیر اعظم کی استعفی کی خاطری کرائی گئی تھی بلکہ مولانا کو پیغام دیا گیا تھا کہ آپ مارچ شروع نہ کریں، اگر آپ کراچی سے آزادی مارچ شروع کر رہے ہیں تو 27 اکتوبر کی شام سکھر میں پہنچ کر آپ آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کریں، اس سے پہلے آپ کے ہاتھ میں استعفیٰ مل جائے گا، مولانا فضل الرحمان مفتی محمود کے بیٹے ہیں وہ سمجھ رہے تھے کہ وزیر اعظم کی استعفے سے بات نہیں بنے گی۔

کیونکہ اصل مسئلہ اور پریشانی جو ہے وہ ہے مذہبی جماعتوں کو ٹارگٹ کرنا، انتہا پسندی، شدت پسندی دہشتگردی سے جوڑنا اور آیندہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے حکم کے تحت پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور دینی مدارس مساجد کی سائز کم کرنا، دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرنا، اور اس کے بعد پارلیمنٹ سے تحفظ ناموس رسالت و ختم نبوت جن کو 1973 ع کے آئین میں تحفظ دیا گیا ہے ان کو ختم کرنا اور 2020 تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ 2020 کے اواخر تک اسلام آباد پاکستان میں اسرائیل کا سفارتخانہ کھولنا اور تل ابیب میں پاکستانی سفارتخانے کا قیام شامل تھا۔

باخبر ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ اس کی جماعت کے یو آئی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ دینی مدارس و مساجد اور ان میں پڑھایا جانے والا نصاب غیر ضروری نہیں ہے بلکہ ان کے خلاف پروپیگنڈا کرکے ان کی جماعت، ان کی سیاست اور دینی مدارس و مساجد کو بدنام کیا جاتا رہا ہے کہ مولوی انتہا پسند ہیں، دہشت گرد ہیں، جب ان کو موقع ملے گا تو یہ عوام کا جینا اجیرن بنا دیں گے، مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر کو کراچی سے آزادی مارچ کی شروعات کی تو ان کی آزادی مارچ کے شرکاء کی جانب سے کسی بھی جگہ نہ رکاوٹ ڈالی نہ کسی کو تنگ کیا نہ ان رضاکار جن کو انصار السلام کا نام دے کر پروپیگنڈا کے تحت بدنام کیا جا رہا تھا انہوں نے مارچ کا ایسا طریقہ کار متعارف کرایا کہ کراچی سے لے کر اسلام آباد تک نہ رستہ بند ہوا نہ ٹریفک رکی نہ ہی کسی کو نقصان پہنچایا۔

کے پی کے، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، بلوچستان پنجاب و دیگر شہروں علاقوں سے سیکڑوں قافلے روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ نہ درخت کا پتا ٹوٹا نہ کسی گاڑی کا شیشہ توڑا گیا نہ ہی گملہ ٹوٹا۔ راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے تنگ کرنے واپس کرنے جیسی شکایتیں بھی موصول ہوئی مگر سیاسی بصیرت سے راستہ لینے میں کامیابی ملتی رہی۔ یہاں تک کہ راستے میں انصار السلام کے ورکرز نے ایمبولینس تک کو راستہ دے کر جگہ دیدی۔ کراچی سے سندھ پنجاب بارڈر کموں شہید تک آزادی مارچ میں 3 سے چار لاکھ تک افراد شامل تھے۔ جبکہ 50 سے زائد جگہوں پر استقبالیہ جلسے پروگرام منعقد ہوئے۔ ان میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد 35 لاکھ سے 40 لاکھ تک بتائی جاتی ہے، وہ الگ بات ہے کہ 30 سے 40 ہزار اور اب اسلام آباد میں ایک لاکھ تک تعداد بتانے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ میں وہ سب کچھ کر کے دنیا کو دکھایا ہے کہ آپ جو بھی پروپیگنڈہ کریں، الزامات لگائیں۔ ہم ثابت کریں گے کہ ہم اس طرح کے لوگ نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شامل تمام لوگ اپنے خرچے پر شامل ہیں۔

میڈیا کے مطابق تمام لوگوں کے پاس ایک ماہ سے زائد عرصہ کا راشن، کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ پکانے کے لئے گیس سلینڈر، رہائش کے لئے بستر، گرم کپڑے اور سولر پلیٹس بیٹری ساتھ لے کر آئیں ہیں۔ اب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ وہ گراونڈ کی صفائی ستھرائی کا کام بھی خود کر رہے ہیں، کم از کم میری زندگی کا یہ پہلا سیاسی آزادی مارچ یا دھرنا کہ دیں ہے کہ جہاں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جا رہی ہے، رات کو آٹھ کر تہجد پڑھا جا رہا ہے، ہر وقت باوضو ہر ذکر اذکار کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت اور درود پاک کا ورد زبان پر ہے، ایسے لوگوں سے بھلا کون جیت سکتا ہے۔

آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پہلے دن سے مولانا راشد محمود سومرو ہیں، جو نہ صرف کراچی سے چلے ہیں بلکہ آزادی مارچ کی نگرانی شیڈول اور کور بھی خود کر رہے ہیں، مرکزی سالار انجنیئر عابد لاکھو کے ساتھ مل کر راستہ بھی بنا رہے ہیں بلکہ موٹرسائیکل پر نگرانی کر رہے ہیں۔ آزادی مارچ میں سب سے بڑی خوبی نظم و ضبط نظر آیا ہے۔ ایک سینئر صحافی نے ٹویٹ کیا کہ جب بلاول بھٹو زرداری کنٹینر پر پہنچے تو ان کا پرس بٹوا کہیں گرگیا جس میں شناختی کارڈ، رقوم اور اہم کاغذات شامل تھے۔ کچھ دیر نہیں ہوئی کہ انصار السلام کے رضاکار نے انہیں وہ پرس بٹوا واپس دیدیا کہ آپ کی امانت ہمیں ملی ہے وہ واپس کی ہے۔ آزادی مارچ کے پہلے روز جب سینئر صحافی اینکر پرسن حامد میر کنٹینر پر پہنچ کر تقریر کی کہ ان کی خواتین جرنلسٹ جو ایک گروپ میں مارچ کی کوریج کرنے کے لئے آرہی تھی تو ان کو رضا کاروں نے روک دیا کہ مرد صحافی کوریج کریں گے آپ خواتین واپس جائیں۔ حامد میر کے مطابق جب میں نے مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کرکے بتایا تو ان کا کہنا تھا کہ خواتین جا سکتی ہیں۔

پھر وہی خواتین آزادی مارچ میں گئی کوریج کی، کنٹینر پر گئی اور پروگرام کیے انٹرویو کیا تو ان کی زبانی تھی کہ 2014 کے دھرنوں میں انہیں وہ عزت نہیں ملی جو مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں ملی ہے۔ یہاں ان کو مکمل پروٹوکول دیا گیا۔ جب کہ 2014 کے آزادی مارچ میں خاتون جرنلسٹ کو پتھر تک مارے گئے تھے۔ مگر اب ملکی و غیر ملکی صحافی خاتون بھی دوپٹا اوڑھ کر بہت خوش نظر آرہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہ دیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ آپ الیکشن کمیشن میں جائیں، الیکشن کمیشن تو ہم سے بھی بے بس ہے۔

پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کیس میں فیصلہ ابھی تک نہیں دیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ وہ اپنی کشتیاں جلا کر آئے ہیں، خالی ہاتھ واپسی کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے۔ وہ اسلام آباد جذبہ جہاد اور شوق شہادت لے کر آئے ہیں۔ مولانا کے کارکنوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ واقعی تیار ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ کی وجہ سے اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو فائدہ بھی پہنچا ہے۔

ان کے بیمار قیدی جیلوں سے اسپتالوں تک پہنچ گئے ہیں۔ اگر مولانا کا ساتھ دیتے ہیں تو باہر بھی رہ سکتے ہیں اگر ساتھ چھوڑتے ہیں تو باہر آکر دوبارہ اندر بھی جا سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے اور امن امان کے ساتھ خیر و عافیت کرے۔ کیونکہ اب ملک لال مسجد جیسا واقعہ مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).