؛شکریہ۔ باس!


کالم کا آغاز جناب مستنصر حسین تارڑ کی ایک تحریر سے شروع کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر مطالعہ کے دوران کچھ تحریریں آپ کے دل میں گھر کرجاتی ہیں۔ مطالعہ کے دوران مستنصر صاحب کی ایک تحریر میں گِدھوں کو گدھے کی پیٹھ میں سوراخ کرنے اوراس کی بوٹیاں نوچنے کا منظر پڑھا۔ اور اس کو کالم میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ مستنصر صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک زخمی گدھا کھڑا تھا گدھے کی پیٹھ پر گِدھ بیٹھا تھا۔ گدھ کی گردن گدھے کی پیٹھ کے سوراخ میں گم تھی، پیٹھ پر صرف گِدھ کے پر اور پاؤں رہ گئے تھے، گدھا تکلیف سے چیخ رہا تھا لیکن گِدھ اس کو اندر سے کاٹ کاٹ کر کھا رہا تھا۔ مستنصر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے گِدھ نے اپنی چونچ سوراخ سے باہر نکالی تو وہ گردن تک گدھے کے لہو سے لتھڑا ہوا تھا۔

اب یہ تو غیر اشرف المخلوقات کی بات تھی، اب انسان کا روپ دھارے گِدھوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ چمن زخمی گدھے کی طرح ہیں اور یہ خون خوار گِدھیں اس کا خون چوس رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے سسٹم ٹھیک نہیں۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن اس دیس کو اس نہج پہ لانے والے کون ہیں؟

جب باغ کا مالی ہی باغ کو نقصان پہنچائے گا تو باغ کے خوبصورت پھلدار درختوں کو پھل کیسے لگے گا۔ میرے پیارے چمن نما دیس کے رکھوالے جب رکھوالی کی بجائے خود مالک بننے کی کوشش کریں گے۔ تو پھر آہستہ آہستہ باغ اجڑ ہی جائے گا۔ ایسا ہی میرے وطن کے ساتھ ہورہا ہے۔

آزادی کے بعد اس وطن کو ان گنت مشکلات کا سامنا تھا، پھر چند سالوں کے بعد گند کھانے والے گِدھوں (حکمرانوں ) نے مشکل (زخمی) میں گِھرے وطن کو نوچنا شروع کردیا۔

ستم ظریفی تو دیکھے، قاضی ہو، غازی ہو یا پھر بادشاہ سب نے اپنے اپنے انداز سے حملے شروع کردیے۔ کبھی قاضی انصاف کی دھجیاں بکھیرتے بادشاہ کو سپہ سالار کے دباؤ کے نتیجے میں سولی پہ لٹکا دیتا ہے اور کبھی غازی قاضی کے انصاف کے قلم کو پاش پاش کردیتا ہے۔ اور غلام قوم کا باس بن بیٹھتا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہے کہ ہمیشہ بادشاہ نے جو اس کا ماتحت ہے اس کو ہی باس مانا ہے اور اپنے سے طاقت ورسمجھا ہے۔

کیونکہ تاریخ کے اوراق کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے۔

کہ اس دیس کے حکمران ہمیشہ مفلوج رہے اور وطن کے رکھوالوں کے مرہون منت رہے کیونکہ یہ صرف اپنے پیٹ پہ ہاتھ پھیرتے ہیں، اپنے مقصد پہ ڈٹے نہیں رہتے، جب تک انسان حق پہ ڈٹا نہ رہے تب تک حق ملتا نہیں۔

کیا کسی گھر میں ایسا ہوتا ہے کہ گھر کا چوکیدار گھر کے کھانے پینے، ڈرائی کلیننگ، پودوں کی کانٹ چھانٹ، گھر کے افراد کی روز مرہ کی ضروریات وغیرہ کو پورا کرائے؟ کہیں ایسا نہیں ہوتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر چوکیدارہی مالک بن جاتا اور وہ ایک ایسا باس بن جاتا ہے جو مالک سے بھی طاقت ور بن جاتا ہے مالک چاہے بھی تو چوکیدار کا اثر ختم نہیں کرسکتا، اس کا عملا نمونہ میرا وطن ہے۔

اب حالات یہ ہیں سب باس کے مرہون منت ہیں۔ اگر باس کا موڈ ہو تو گھر کے سب افراد کو آپس میں لڑوادیتا ہے۔ اور جب موڈ تبدیل ہو تو صلح کروادیتا ہے۔ اور پھر سب کہتے ہیں باس! آپ کا بہت شکریہ، اپ نے گھر کے سکون کے خاطر سب کو ایک پیج پہ اکٹھا کیا۔ اور پھر سب کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح باس کا موڈ اچھا رکھیں تاکہ بوقت ضرورت باس کو اپنے حق میں رکھیں۔

خود ہی ذرا سوچے!

یہ کیا ہے؟ باس کا موڈ تھا تو سب کو ایسا الجھایا کہ سب کو اندر کرا دیا۔ پھر موڈ بدلا تو سب کو قاضی سے رہا کروادیا۔ اب گھر کے افراد بھی خوش کہ شکر ہے تھوڑا سکون ہے۔ اور اندر کرنے والا قاضی بھی خوش کہ شکریہ باس آپ نے مجھ سے کوئی اچھا کام کروایا اور پچھلے گناہوں کا ازالہ کروایا۔

کیا چھٹی والے دن عدالت لگا کے انصاف کا حکم نامہ جاری کرنے والوں سے قدرت سوال نہیں کرے گی کہ ایک جیسا انصاف سب کے لیے کیوں نہیں کیا؟ پہلے ایک جتھے کو سینکڑوں میل سفر کروایا کہ آپ ہی حق پہ ہیں۔ آپ ہی حقیقی طور پر اقتدار کے وارث ہیں لیکن اب ذرا ان کے حالات دیکھیے کہ وہ شہر اقتدار میں کانچے کھیل رہے ہیں، اور آنکھوں پہ پٹیاں باندھ کے ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ اقتدار کے حقدار پانچ سال کے بچے کی طرح وہاں شرارتیں کر رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ زور زبردستی سے اقتدار نہیں لے سکتے نہ ہی کسی کو گرفتار  ہیںکرسکتے۔ نہ ہی گستاخ رسول کے فتوے دینے سے، کیونکہ حقیقی اقتدار صرف حق پہ ڈٹے رہنے سے ملتا ہے نہ کہ لڑائی کرکے!

”فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟

مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر ”

اور دیار غیر میں تقاریر کرنے والوں کے دماغ بھی باس نیچے لے آئے ہیں جو سمجھتے تھے کہ ہم ہی سب کچھ ہیں ہم ہی صلاح ا الدین ایوبی ہیں۔ اب وہ باس کے مرہون منت ہیں اور کہتے ہیں باس جی! ”ایناں توں جان چھڑواؤ، تہاڈا بہت شکریہ“

میرے دیس کے حکمران آج شاید باس کو اس کے مقام پر رکھتے اور خود سب معاملات نمٹاتے لیکن ایسا ممکن نہیں، کیونکہ وہ باس سے میل ملاپ کرکے ہی تو آئے تھے۔

اب رات کو زیادہ تر دانشور ٹی وی پہ بیٹھ کے باس کو خوش کرنے کے چکر میں ولیِ کامل بنتے ہیں اور جادوئی پیشگوئی کرتے ہیں۔ اوراس لیے ہر کوئی مشکل میں باس سے مدد لیتا ہے، باقی تو صرف ڈرامہ ہی ہے اس کو کبھی صحت کارڈ، کبھی مذہب کارڈ، مہنگائی کارڈ اور کبھی جمہوریت کارڈ کا نام دیا جاتا ہے اور دیکھ لیجے ایسا ہی ہو رہا ہے اور ان مسائل کا ایک حل ہوتا ہے ”باس سیرپ“

پیتے جاؤاور ٹھیک ہوتے جاؤ! ۔ یہ باس کی محبت ہی تو ہے کہ میں باس کا نام تک نہیں لکھ سکتا۔ خدارا! بس کر دیجیے

۔ نہ گِدھ بنیے اور نہ باس!

صرف سچے پاکستانی ہی بنے!

باس! اگر لکھنے میں کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو پیشگی معذرت۔

باس۔ شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).