سعید میمن۔ جدید سندھی ادب کے نمائندہ، جواں مرگ شاعر


ویسے تو ہر نفس کی موت کا ایک دم مُعیّن ہے، مگر سندھی ادب ماضی قریب میں یکے بعد دیگرے جن شخصیات کے داغ ہائے مفارقت سے دو چار ہوا ہے، اُن شخصیات کے خلا بھرنے میں طویل مُدّتیں درکار ہوں گی۔ پچھلے چند ایک برس میں جہاں ڈاکٹرموتی پرکاش، مقصودگل، عبدالواحد آریسر، منیرسولنگی، بشیرسیتائی، مخدُوم امین فہیم، آغا سلیم، علی بابا، غلام نبی گُل، پروانو بھٹی، محمّد ابراہیم جویو، رسول بخش پلیجو جیسے اہم شعراء اور ادیب ہم سے بچھڑے ہیں، وہیں جواں مرگی کے لحاظ سے سندھی جدید شاعری کے تین انتہائی اہم شاعروں، طارق عالم، حَسن درس اور ایاز جانی کے بعد سعید میمن کا انتقال سندھی ادب کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

سعید میمن، 8 نومبر 1968 ء کو تعلقہ و ضلع لاڑکانہ کے ”عاقل“ نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں مولوی اور استاد، بشیر احمد میمن کے گھر میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ہے۔ نہ جانے یہ اس دریائی شہر کی ٹھنڈی ٹھنڈی مٹّی کا اثر تھا، یا دریائے سندھ کی موجوں کی روانی کا کمال، کہ اس خمیر سے اُٹھنے والی سعید کی مٹی میں وہ روانی شامل ہو گئی کہ وہ اُن کے خون کا حصّہ بن کر اُن کی رگ و پے میں سما کراُن کے اشعار میں ڈھل گئی اور اُس روانی کے ساتھ سعید کے تخیّل کی اُڑان کی رفعتوں نے مل کر، وہ دل آویز ترانے لکھے، کہ جو نہ صرف ان گنت دلوں کی دھڑکن بنے، بلکہ سندھی ادب میں سعید کو ایک اعلے ٰ مقام دلوانے کا باعث بھی بنے، جن کی رعنائیاں صدیوں تک سعید کو زندھ رکھیں گی۔

سعید میمن نے ابتدائی اور مڈل تک کی تعلیم اپنے گاؤں ”عاقل“ سے حاصل کرنے کے بعد سیکنڈری کلاسیں، گورنمینٹ ڈی سی ہائر سیکنڈری اسکُول لاڑکانہ سے پاس کیں۔ 1982 ء میں مئٹرک کرنے کے بعد انہوں نے 1984 ء میں انٹر کا امتحان، گورنمینٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے پاس کر کے 1986 ء میں وہیں سے گریجوئیشن کیا۔ بعد ازاں سعید نے 1995 ء میں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے سندھی ادب میں ایم۔ اے۔ کا امتحان، امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ سعید 1988 ء میں بحیثیت پرائمری استاد، محکمہء تعلیم، حکُومتِ سندھ سے وابستہ ہوگئے اور ان کی یہ تدریسی وابستگی تادمِ آخر قائم رہی۔ انہوں نے اپنی ان تدریسی خدمات کی انجام دہی کے دوران اساتذہ کے لئے تعلیمی کورس، پرائمری ٹیچرس کورس اور بیچلر آف ایجوکیشن (بی۔ ایڈ) بھی کیے۔

شاعری سے سعید کی لو، غالباً پیدائشی تھی، جس کا اظہار انہوں نے بچپن ہی سے کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنی پہلی نظم 1980 ء میں کہی، جب وہ آٹھویں کلاس کے طالب العلم تھے۔ چونکہ سعید کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، لحٰذا انہوں نے ابتدائی دنوں میں کچھ حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی کہا۔ سعید نے باضابطہ طور پر ادبی دنیا میں قدم 1988 ء میں رکھا، جب سندھ کی اہم ادبی تنظیم ”سندھی ادبی سنگت“ کی لاڑکانہ شاخ کے رکن بنے۔

اسی دور میں ان کی پہلی ”وائی“ حیدرآباد سے شایع ہونے والے پندرہ روزہ ’عبرت‘ میگزین میں شایع ہوئی۔ جہانِ شعروسُخن کے فن خواہ فکر کے اسرارورمُوز اور داؤ پیچ سیکھنے کے حوالے سے وہ انتہائی ابتدائی ایّام میں اپنے ہی گاؤں کے اسکول کے استاد، محمّد ہارُون بلوچ سے اصلاح لیتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے سندھی کے نامور شاعر، ”آتش سندھی“ سے بھی رہنمائیء سُخن حاصل کی۔ سعید میمن نے سندھی شاعری کی کم و بیش ہر صنف پر طبع آزمائی کی، مگر غزل سعید میمن کی خاص پہچان بنی۔

سندھی زبان کے انتہائی منفرد لہجے والے شاعر ’پربھُو وفا‘ کی جانب سے متعارف کرائی گئی صنفِ سُخن ”پنجکڑو“ (جو پانچ مصرعوں پر مُشتمل ایک نظم ہوتی ہے ) ، جو کہ تقریباً مترُوک ہو چکی تھی، کو سعید نے دوبارہ سے علمِ عرُوض کے جامے میں لکھ کرحیاتِ نو بخشی، جو سعید کے قلم سے لکھے جانے کے بعد اُن کے کئی معاصرین نے ذوق اور شوق سے لکھی اور ’پنجکڑے‘ کو صحیح معنوں میں حیاتِ نو ملی۔ سعید نے نظم ہی نہیں، نثر میں بھی قلم آزمایا اور خوب لکھا۔

مختلف شخصیات پر سعید کے لکھے ہوئے خاکے، مختلف کتابوں کے تحریر شدہ دیباچے اور مختلف کتب کے ادبی مطالعے اور تبصرے، سعید کے نثر کی اعلے ٰ مثالیں ہیں۔ انہوں نے سندھی کے قدآور شاعر، استاد بخاری کی شاعری پر مُفصّل تنقیدی مقالہ، بعنوان: ”اچھی عینک وارو، رنگین مانہُو“ (سفید عینک والا رنگین شخص) بھی لکھا، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

سعید میمن کے تادمِ مرگ شایع شدہ مجموعہ ہائے کلام کی کُل تعداد 9 ہے، جن میں ’نین سفر میں‘ (غزلیات۔ 1998 ء) ، ’کارے برَ میں چنڈ‘ (پنجکڑے اور طویل نظم۔ 2000 ء) ، ’خواب چارا‘ (مجموعہء غزلیات، وائی، ہائیکو اور قطعات۔ 2005 ء) ، ’درد جُوں آیتُوں‘ ( 2009 ء) ، ’اساں جو عشق انپُورو‘ ( 2010 ء) ، ’دل دنبُورو‘ ( 2010 ء) ، ’آؤُں لہر سمُونڈ جی‘ ( 2014 ء) ، ’ازل جو آڈانو‘ ( 2015 ء) اور ’آلا دگ برسات میں‘ (مئی 2016 ء) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری کے تین اور نثر کا ایک مجموعہ غیر طبع شدہ بھی موجُود ہیں۔ سعید میمن نے اپنے انتہائی قریبی رفقاء کو یہ بتایا تھا کہ وہ اپنی خودنوشت بعنوان ’انپُوریُوں سارُونیُوں‘ (نامُکمّل یادداشتیں ) لکھ رہے ہیں، جو یقیناً وہ مُکمّل نہ کرسکے۔

سندھی جدید شاعری کے امام، شیخ ایاز نے، سعید میمن کو سندھ کے نمائندہ شعراء میں شمار کرکے، ان کے تعارف اور شاعری کو ’ڈیئا ڈیئا لاٹ اساں‘ (ترجمہ: ہم دیوں کی لو ہیں ) نامی مشترکہ مجمُوعہ ہائے کلام میں شامل کیا، جس کا تفصیلی مقدمہ شیخ ایاز نے خود تحریر کیا تھا، جو ایک اہم ادبی دستاویز ہے۔ اس مقدّمے میں ایاز نے سعید میمن کی شاعری کو انتہائی خوبصُورت کلمات سے نوازا ہے۔ سندھی کے اعلے ٰ پائے کے شاعر اور دانشور، ڈاکٹر تنویر عبّاسی نے سعید کی شاعری کے حوالے سے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ”سعید کی شاعری پڑھ کر سندھی شاعری کے مُستقبل پَر ایمان پُختہ ہو جاتا ہے۔ “

سعید نے 1989 ء میں اپنی چچا زاد سے شادی کی، جن سے اُنہیں 5 بیٹیاں اور 2 بیٹے (دانش اور دانیال) ہوئے۔ سعید کی زندگی انتہائی غربت اور کسمپُرسی میں گزری۔ شاید یہی محرُومیاں، ان کی اس قدر حسین شاعری کا مُحرک بھی رہیں۔ سعید نے محنت کو کبھی عیب نہیں سمجھا اور پیغمبری پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کا چُولہا جلانے اور اخراجات پُورے کرنے کے لئے رکشا بھی چلایا اور کئی برسوں تک لاڑکانہ کے راستوں پر بکھرے غم اپنے آٹو رکشا کے شیشے سے دیکھ کر سمیٹتے اور رقم کرتے رہے۔

عمر کا آخری حصّہ انہوں نے نوجوانی کے باوجُود علالت میں گُزارا۔ دسمبر 2016 ء کے وسط میں برین ٹیُومر کا نشانہ بننے والے سعید میمن ابتدائی طور پر لاڑکانہ کے سول ہسپتال میں داخل کیے گئے، جس کے بعد اُنہیں کراچی کے آغا خان ہسپتال میں لایا گیا، جہاں بمشکل ایک رات بے خبری میں مہمان رہ کر، سندھی ادب کا یہ روشن ستارہ، 48 برس، 9 دن کی عمر پا کر، تقریباً تین برس قبل 17 دسمبر 2016 ء کو ہمیشہ کے لئے بُجھ گیا اور اپنے دوستوں، قارئین اور مدّاحوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).