میاں شہباز شریف سقراط نہیں بن سکتے


گزشتہ دو روز سے اسلام آباد میں ابر خوب برسا۔ موسم نے انگڑائی لی، سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ ہڈیوں تک سرایت کر جانے والی ٹھنڈی ہواؤں سے بچاؤ کے لیے کشمیر ہائی وے پر براجمان مکینوں نے سیاسی ماحول میں گرمی پیدا کرنے کے لیے خیمہ بستی بسا لی۔ خیمہ بستی کا چکر لگائیں تو آپ کو مکینوں میں بلوچستان، کے پی کے کسی حد تک اندرون سندھ اور خال خال پنجاب سے لوگ ملیں گے۔ ان لوگوں نے مولانا فضل الرحمان کی کال پر عمران خان کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے یہاں بستی بسا لی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم اُس وقت تک واپس عازم سفر نہیں ہوں گے جب تک عمران خان استعفیٰ ہمارے قائد کے ہاتھ میں نہیں دیتا۔

مولانا فضل الرحمان نے مارچ شروع کرنے سے قبل اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں سے حصہ بقدر جثہ تعاون مانگا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے تعاون کا پورا پورا یقین دلایا۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے نام میاں نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل سے ایک خط لکھا۔ خط کے متن کے مطابق قائد ن لیگ نوازشریف نے پارٹی صدر شہباز شریف کو ہدایت کی کہ آپ جامع پروگرام ترتیب دے کر باقاعدہ اعلان کریں۔ ن لیگ کے رہنماء اور کارکن آزادی مارچ کو کامیاب بنائیں۔ یہ کھڑا ہونے کا وقت ہے۔ ہر مصلحت کو ایک طرف رکھ کر اپنا حق منوانے کا وقت ہے، اب ووٹ کی عزت بحال کرنے کا وقت ہے۔

عوام کا خیال تھا کہ پنجاب اٹھے گا۔ نوازشریف پنجاب کے بابا گرونانک بن کر ابھریں گے اور انقلابی لیڈر بن جائیں گے۔ دوسرا بڑا گمان یہ تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں شہبازشریف سقراط بن کر ابھریں گے۔ پنجاب پوری طاقت کے ساتھ میدان میں نکلے گا دُنیا نے دیکھا، پنجاب نہیں جاگا۔ پنجاب وسوسوں کی نذر ہو گیا۔ میاں شہباز شریف ویسے ہی ڈیل کے چکر سے باہر نہیں نکلے۔ انھوں نے کیا بولنا تھا، اُلٹا میاں نواز شریف اور مریم بی بی کو بھی سمجھاتے رہے ہیں کہ جو بول رہے ہو، یہ بھی بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مولانا کا مارچ شروع ہونے سے قبل کیپٹن صفدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اور ن لیگ مولانا فضل الرحمان کی امامت میں اسلام آباد نماز ادا کریں گے۔ آخری خبریں آنے تک معلوم ہوا ہے کہ اُنھوں نے مصلحت پسندی کی امامت میں نماز کی نیت کر لی۔

ایک بات کی مولانا فضل الرحمن کو داد دینا پڑے گی کہ اُنھوں نے آزادی مارچ کے کینٹنر سے اُن طاقتوں کو للکارا ہے جن کا نام بھی زبان پر لانے سے بڑے بڑے کاغذی لیڈروں کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مولانا نے اُن طاقتوں کو بیک فٹ پر لا کھڑا کیا اور وہ صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ مولانا عمرانی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ وہی معاہدہ جس کا ذکر ماضی قریب میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس کھوسہ نے اپنی تقریب حلف برداری کے روز کیا تھا۔ مولانا پاکستان کی سیاست میں مقتدرہ کو غیر جانبدار دیکھنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ فوج کی سیاست میں مداخلت سے بھری پڑی ہے۔ سیاستدانوں نے 1954 ءمیں آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنا کر وفاقی کابینہ میں شامل کرلیا۔ بیوروکریٹ صدر سکندر مرزا نے 1958 ءمیں مارشل لاءنافذ کر کے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بنادیا۔ 1969ء میں کنونشن مسلم لیگ کے مرکزی صدر ایوب خان نے اپنے ہی آئین 1962ء سے انحراف کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کی بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا۔

 آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے 1988 ءکے انتخابات سے پہلے آئی جے آئی تشکیل دی جس کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی تھے۔ جن کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی مکمل سپورٹ تھی۔ آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان سیاسی تنازع حل کرایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے این او آر کا معاہدہ کیا۔ وکلا تحریک کے دوران صدر آصف علی زرداری نے آرمی چیف جنرل پرویز کیانی سے لانگ مارچ روکنے کے لیے معاونت حاصل کی۔ کیری لوگر بل میں فوج کے بارے میں شرائط کے حوالے سے فوج نے حکومت کو سخت پیغام دیا۔ ڈان لیکس کے دہانے سے پانامہ کا چشمہ پھوٹا، تاریخ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

میاں شہبازشریف نے ایک بار پھر تاریخ میں امر ہونے کا موقع گنوا کر ثابت کیا کہ اُن میں لیڈرشپ کی خصوصیات نہیں پائی جاتی۔ تاریخ کے کچھ حوالے بڑے معتبر ہوتے ہیں اور کچھ خواب بڑے مقدس ہوتے ہیں۔ ان حوالوں کو جنس بازار بنانے اور اُن خوابوں کو دماغوں سے نکالنے سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ قومیں ان حوالوں سے مدد لے کر آگے بڑھتی ہیں اور ان خوابوں کے سحر میں ڈوب کر منزلیں طے کرتی ہیں۔

جن لوگوں کو گمان تھا کہ میاں شہبازشریف سقراط کا کردار ادا کر کے تاریخ میں امر ہو جائیں گے، وہ یاد رکھیں کہ تاریخ نے سقراط کو اس لیے امر کیا کہ وہ کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوا، سقراط کبھی طاقتور حلقوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوا، سقراط نے کبھی جلسوں میں اپنا نام بدلنے کا نعرہ نہیں لگایا، سقراط کبھی گومگو کی کیفیت کا شکار نہیں ہوا، سقراط کبھی رات کے اندھیروں میں مقتدر قوتوں سے نہیں ملتا رہا، سقراط نے کبھی مقتدر قوتوں سے اقتدار کی بھیک نہیں مانگی تھی، سقراط نے کبھی یہ بہانہ نہیں بنایا کہ اُن کی گاڑی رش میں پھنس گئی تھی جس کی وجہ سے وہ بھائی کا استقبال نہیں کر سکے تھے۔

فلک کو برسوں گردش میں رہنا پڑتا ہے تب جا کر خاک کے پردے سے کوئی سقراط نکلتا ہے ایسے لوگوں کو آسمان خاک چھان کر ڈھونڈتا ہے سقراط جیسے لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں، یہ موتی ساحل کی ریت پر نہیں ملتے، انھیں سمندر کی تہہ میں اتر کر ڈھونڈا جاتا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui