بابری مسجد اور پاکستانی ہندو


جیسے ہی چھ دسمبر انیس سو بانوے کو بابری مسجد ٹوٹنے کی خبر پاکستان پہنچی، یہاں سے وہاں تک غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اگلے دو تین روز تک احتجاج اور توڑ پھوڑ کا ملک گیر زور رہا۔ سات دسمبر کو تعلیمی اداروں میں سوگ کی چھٹی کر دی گئی۔

دفترِ خارجہ نے انڈین سفیر کو طلب کر کے زبردست احتجاج کیا اور بابری مسجد کا سانحہ اور انڈین مسلمانوں کی سلامتی کا معاملہ اقوامِ متحدہ اور اسلامی کانفرنس تنظیم سمیت بین الاقوامی سٹیج پر اٹھانے کا اعلان کیا۔

قائدِ اعظم یونیورسٹی کے مشتعل طلبا نے بھارتی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا اور وزیرِ اعظم نرسیمہا راؤ کا پتلا جلایا۔

لاہور میں ائیر انڈیا کے دفتر میں توڑ پھوڑ ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے قریب ایک متروک جین مندر کو بلڈوزر اور ہتھوڑوں سے مسمار کر دیا گیا۔ پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ لاہور میں پانچ دیگر متروک مندروں کو نذرِ آتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

ملتان کے قلعہ قاسم باغ میں حضرت بہاؤ الدین زکریا کے دربار سے متصل پرلاد مندر کے بچے کھچے آثار کو مسمار کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی پرلاد مندر سے اٹھائیس سو برس پہلے ہولی کے تہوار کی روایت کا آغاز ہوا تھا۔

مشتعل ہجوم کی قیادت ملتان کے مئیر صلاح الدین ڈوگر ( مرحوم ) نے کی۔ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ اس کے علاوہ سورج کنڈ کے پہلے سے تباہ حال مندر پر بھی اسلامیانِ ملتان نے مزید غصہ نکالا گیا۔

رحیم یار خان میں جب کوئی مندر دستیاب نہ ہوا تو یار لوگوں نے چرچ جلانے کی کوشش کی۔

کراچی میں پانچ مندروں پر حملے ہوئے۔ سکھر میں ہندو دوکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اندرونِ سندھ لگ بھگ پچیس مندروں کو نقصان پہنچا۔ کوئٹہ میں ایک مندر پر حملہ ہوا اور ہندو گھروں پر پتھراؤ بھی ہوا۔

بابری مسجد

بابری مسجد کو چھ دسمبر سنہ 1992 کو ہندو تنظیم کے کار سیوکوں نے منہدم کر دیا تھا

گویا پورے پاکستان میں کل ملا کے چھ تا نو دسمبر کے درمیان لگ بھگ چالیس مندر اور ایک چرچ نشانہ بنا۔

یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ متروکہ وقف املاک کا ادارہ پورے پاکستان میں گیارہ سو تیس مندروں اور گوردواروں کا نگہبان ہے۔ ان میں سے صرف تیس مندر اور گوردوارے ایسے ہیں جو آباد ہیں۔ باقی ویران ہیں۔

ہندو اقلیت پاکستانی آبادی کا محض دو فیصد ہے۔ پچانوے فیصد ہندو آبادی سندھ میں آباد ہے۔ پچھلے تہتر برس کے دوران ہندوؤں کو چار بار بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا۔ یعنی سینتالیس کا بٹوارا، پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ اور بابری مسجد کا انہدام۔

انیس سو بانوے کے بعد سے سینکڑوں ہندو خاندان یاترا اور بٹے ہوئے خاندانوں سے ملاقات کے بہانے بھارت کوچ کر گئے اور زیادہ تر گجرات، راجستھان اور دلی کے اطراف میں بنائے گئے مہاجر کیمپوں میں بس گئے۔ ان میں سے اکثر کو پانچ پانچ سال کے قابلِ توسیع ویزے جاری کئے جاتے ہیں۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد کے دس بارہ برس میں پاکستانی ہندوؤں کی نقلِ مکانی کا ایک بڑا سبب جان و مال کا خوف تھا۔

بابری مسجد

بابری مسجد کی زمین کی ملکیت پر تین گروپ اپنا دعوی پیش کرتے ہیں

مگر دو ہزار پانچ کے بعد سے ہندو لڑکیوں کے اغوا، تبدیلیِ مذہب اور جبری شادیوں کا رجہان اور پیسے والے ہندوؤں کا اٹھایا جانا اور سیاسی و لینڈ مافیا کی جانب سے ان کی املاک ہتھیانے کی کوششیں نقلِ مکانی کا بڑا سبب بنیں۔

بھارتی وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار پانچ سے دو ہزار اٹھارہ کے درمیان بیس ہزار پاکستانی ہندوؤں کو شہریت دی گئی۔ جبکہ دو ہزار گیارہ سے اٹھارہ کے درمیان چھتیس ہزار سے زائد پاکستانی ہندوؤں کو طویل المیعاد نوعیت کے ویزے جاری کئے گئے۔ سب سے زیادہ ویزے ( بارہ ہزار سات سو بتیس ) دو ہزار اٹھارہ میں جاری ہوئے۔

البتہ جو پاکستانی ہندو پچھلی دو دہائیوں سے راجھستان، گجرات اور دلی کے شرنارتھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں ان میں سے اکثر کی شہریت کی درخواستیں التوا میں ہیں چنانچہ ان کی گذر بسر معمولی کام کاج پر ہے۔

ان حالات سے تنگ آ کر بہت سے ہندو خاندان تنگ آمد دوبارہ پاکستان آ گئے۔ جودھپور کے الکوثر نگر میں پانچ برس تک اپنے خاندان کے ہمراہ رہنے والے باغ چند بھیل ( یہ اصل نام نہیں ہے ) بھی خاندان سمیت واپس آنے والوں میں شامل ہیں۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ایک حالیہ رپورٹ میں باغ چند بھیل کی روداد کے حوالے سے بتایا گیا کہ جب وہ بھارت گئے تو ان کے پاس فارمیسی کا ڈپلومہ اور میڈیکل سٹور چلانے کا تجربہ تھا مگر شہریت نہ ملنے کے سبب انھیں پیٹ پالنے کے لیے معمولی محنت مزدوری پر گذارہ کرنا پڑا۔

ویزے کی مدت میں تو توسیع ہوتی رہی مگر شہریت کے وعدے وعدے ہی رہے۔

بقول باغ چند پاکستان میں تو ہم سے ہندو ہونے کی بنیاد پر سماجی و معاشی امتیاز برتا جاتا تھا مگر انڈیا میں مجھے ادنی ذات ( بھیل ) ہونے کے سبب ہر قدم پر امتیاز اور حقارت کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ میں نے سوچا کہ وطن ہی غنیمت ہے۔ لہذا میں واپس لوٹ آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp