عمران دھرنے کو ملک کے لئے فائدہ مند بنا سکتے ہیں


فضل الرحمٰن کے بارے آپ کیا سوچتے ہیں؟ آپ کی نظرمیں وہ ایک مفاد پرست ملّا ہے یا روٹی پر نوکری کرنے والا مولوی۔ حکومت کے بغیر اس کا دم گھٹتا ہے، اس کی طبیت ناساز رہتی ہے، اسے حکومت نہ ملنے کا دکھ ہے یا اسلام آباد کا گھر چھینے جانے کا، سرکاری پروٹوکال اور گاڑی کا غم ستا رہا ہے یا ہٹو بچو کی صدائیں سننے کی عادت اسے بے چین کیے ہوئے ہے، وغیرہ وغیرہ۔

مولانا عوام کو ذہنی اذیّت دے رہے ہیں۔ مولانا انڈیا کی مدد کررہے ہیں، اجیت ڈول سے ملاقات کی تھی، انڈین میڈیا مولانا کو ضرورت سے زیادہ وقت دے رہا ہے۔ آزادی مارچ کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا گیا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ میڈیا سے محو ہو گیا ہے۔ مولانا بلا مقصد کرتار پور کو نشانہ بنا رہے ہیں، اقلیّتوں کی انا مجروح کر رہے ہیں، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو انتہا پسند ملک ثابت کر رہے ہیں، کشمیری ماؤں بہنوں کی عزت نفس کو مودی سے زیادہ مجروح کر رہے ہیں اور وہ بد دعائیں کررہی ہیں۔

اسلام آباد کو محصور کر دیا گیا ہے۔ پورا شہر کنٹینرز کے نرغے میں آ چکا ہے۔ شہری زندگی محدود ہو گئی ہے۔ میٹرو بند کر دی گئی ہے، اسلام آباد کے کئی حصوں میں میں انٹرنیٹ بند ہے۔ شیخ رشید کی زبان بندی بھی مولانا کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اسلام آباد کے لوگ مولانا سے بری طرح تنگ آ چکے ہیں۔

اسلام آباد میں سردی بڑھ گئی ہے۔ بارش ہو رہی ہے۔ اسلام آباد خوش ہے کہ بارش دھرنا ختم کرانے کے لئے آئی ہے، بارش غیبی مدد ہے جو اسلام آباد کی سچائی اور مولانا کی برائی کو ثابت کرتی ہے۔ قدرت بھی عمران خان کی مدد کر رہی ہے۔

مولانا اب حکومت سے آگے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ الیکشن میں اداروں کی مداخلت کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، گمشدہ افراد کی باتیں کر رہے ہیں جنہیں ادارے اٹھا لے گئے، لیکن استعفٰے عمران سے مانگ رہے ہیں۔ فوج کے ترجمان اپنی صفائی دیتے نظر آرہے اور فضل الرحمٰن کی حب الوطنی کا اقرار کرنے پر مگر مجبور ہو چکے ہیں کہ ابھی تک اس مارچ نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے احتراز کیا ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے اور اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود قانون سازی کرائے جا رہی ہے۔ یہ اپوزیشن بھی عجیب ہے قانون سازی نہیں کرنی تو قومی اسمبلی میں کیا کرنے آتے ہیں۔ شور شرابہ تو کہیں بھی کیا جا سکتا ہے۔

پرویز الٰہی حکومتی کمیٹی کے رکن بلکہ سرخیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کو حکومتی کمیٹی کو بائی پاس کرکے مولانا سے مذاکرت کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ چودھری صاحب بھی مولانا کی طرح ہمیشہ اقتدار میں رہے ہیں، اندھا اندھے کی رمز جانتا ہے، دونوں ون ٹو ون ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اندر کیا باتیں ہوتی ہیں دونوں ہی جانیں، باہر تو مولانا سخت باتیں کرتے ہیں، برف پگھلتی نظر نہیں آرہی۔

مولانا کی کہانی آج تو شروع نہیں ہوئی۔ 2013 کے الیکشن میں بھی مولانا کو کے پی کے میں سائیڈ لائن کیا گیا، 2018 کے الیکشن میں بھی ان کو گیم سے باہر کر دیا گیا۔ مولانا پورے ملک میں دھاندلی کے خلاف عوام کو متحرک کرتے رہے۔ اپوزیشن کو قائل کرتے رہے کہ وہ اس جعلی اسمبلی کو نہ مانیں، مگر اپوزیشن ان کی بات سے اتفاق کرنے میں تامل کا مظاہرہ کرتی رہی۔ اپوزیشن روتی بھی رہی، جیلوں کی سختیاں بھی جھیلتی رہی، چور چور اور ڈاکو کے طعنے بھی سنتی رہی، فیاض چوہان، فواد اور فردوس کی بد کلامی پر بھی خاموش رہی، خان صاحب کے طعنے اور پرغرور لہجے کو برداشت کرتی رہی مگر مولانا کی اسمبلی چھوڑنے کی تجویز کو رد کرتی رہی۔ اس دوران چیرمین سینٹ پر عدم اعتماد کی غلطی نے اپوزیشن کے غبارے سے عوامی پذیرائی کے غرور کی ہوا نکال دی اور مولانا کے موقف کو مزید تقویت مل گئی۔ مولانا جم کے بیٹھے ہیں۔ بارش اور موسم کی سختی ان کے ارادوں میں مزاحم نہیں ہو سکی۔ وہ مذاکرات بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور مطالبات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔

اس دھرنے کو حقیقت میں آزادی مارچ بنایا جا سکتا ہے اگر سیاستدان، حکومت اور اپوزیشن عقل سے کام لیں۔ سب سے زیادہ عمران خان کو اس کی ضرورت ہے۔ اس کی پارٹی دو دہائیوں سے الیکشن ریفارمز کی تان اٹھائے ہوئے پاکستان کے عوام کو انصاف کی عملداری کا لالچ دیے کر اقتدار میں آئی ہے۔ منصفانہ اور غیر جانبدارنہ الیکشن پوری قوم کی آواز ہے اور جو بھی اس جانب قدم اٹھائے گا، حقیقی معنوں میں قوم کا ہیرو اور محسن بن جائے گا۔ کامیابی کا یہی ایک راستہ ہے۔ اس وقت مقتدرہ بھی دباؤ کا شکار ہے، جس کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ فضل الرحمٰن بھی خوشی خوشی واپس جا سکتا ہے اور عمران ہیرو بھی بن سکتا ہے یہی دور اندیشی ہے جو ملک کو آگے لے جا سکتی ہے بشرطیکہ عمران خان اس دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے کی جرات کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).