بابری مسجد کے بارے میں حقائق ضرور پڑہیں


آج انڈین سپریم کورٹ نے 1528 ع میں پہلے مغل بادشاہ ظہیر بابر کے کمانڈر میر باقی کی جانب سے ایودھیا اتر پردیش میں تعمیر کروائی گئی بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اور مسجد کے کے لیے حکومت کو متبادل جگہ پر پانچ ایکڑ زمین فرہام کرنے کا حکم دیا ہے۔

ویسے ہندؤن اور مسلمانوں کے درمیان خدا کو گھر دلانے کے لئے یہ جگھڑا 1853 سے چل رہا ہے، ہندو کہتے یہ ہمارے بھگوان کا مندر ہے، مسلم کہتے یہ ہمارے اللہ کا گھر ہے، حالانکہ خدا کو گھر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی! برٹس حکومت نے آدھا، آدھا بانٹ کر دونوں کو راضی کیا لیکن 6 ڈسمبر 1992 کو ہندوں نے مسجد گراکر مندر تعمیر کرنے کی کوشش کی لیکن حکومت نے تمام جگہ سیل کردی اور کیس عدالت میں چلتا رہا۔

2003 میں انڈین کورٹ نے انڈین آرکیالاجی ڈپارٹمنٹ کو تحقیقات کا حکم دیا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ پہلے کوئی تعمیرات تھی یا نہیں۔ مارچ سے اگسٹ تک آرکیالاجی ڈپارٹمنٹ کی تحقیقاتی سروے رپورٹ الہ آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی تھی۔

”رپورٹ کے خلاصے میں مسجد کے نیچے دسویں صدی کے ایک مندر کی موجودگی کا عندیہ دیا گیا تھا۔ اے ایس آئی ٹیم نے کہا کہ، اس مقام پر انسانی سرگرمی 13 ویں صدی قبل مسیح میں تک مل رہی ہے۔ اگلی کچھ پرتیں شونگا عہد (دوسری پہلی صدی قبل مسیح کا پشمتریا شونگا بادشاہ جس کی سلطنت موجودہ انڈیا، بنگلادیش اور نیپال پر مشتمل تھی) اور کوشن دور (جو 01 ع سے 03 ع تک یونانیوں کے قبضے حکومت جو افغانستان، انڈیا، پاکستان کے حصوں پر مشتمل تھی) کے دور کی ہیں۔

قرون وسطی کے ابتدائی دور ( 11۔ 12 ویں صدی عیسوی) کے دوران، تقریبا 50 میٹر شمال۔ جنوب میں ایک بہت بڑا لیکن قلیل رہائشی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس ڈھانچے کی باقیات پر، ایک اور بڑے ڈھانچے کی تعمیر کی گئی تھی: اس ڈھانچے میں کم از کم تین ساختی مراحل اور اس کے ساتھ لگاتار تین فرشیں منسلک تھیں۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ اس تعمیر کے اوپری حصے پر ہی متنازعہ ڈھانچہ مطلب بابری مسجد 16 ع صدی کے اوائل 1528 ع میں تعمیر کیا گیا تھا۔

انڈین ماہر آثار قدیمہ کھدائی کا سروے کرنے والے لوگوں کی ٹیم میں شامل مسلمان رکن مشہور آرکیالاجسٹ ”کے کے محمد“ نے بھی انفرادی طور پر تصدیق کی کہ اس کے اوپر بابری مسجد کی تعمیر سے پہلے ہی اِس طرح کا ہیکل بنا ہوا تھا۔ جس سے مراد ایک وسیع تعیمیر جو رام کی یاد گار جنم بھومی کا مندر بھی ہوسکتا ہے۔ جوکہ ہندؤ رہنماؤں کا موقف بھی ہے۔

ویسے میں یہ سوچ رہی ہوں جب دسویں اور گیاریں صدی میں محمود غزنوی سومنات کے مندر لوٹنے کے لئے 17 حملے کرسکتا ہے، برصغیر کو تاراج کرسکتا ہے تو 16 صدی میں مغل بادشاہ ظہیر بابر مندر کے اوپر مسجد کیسے تعمیر نہیں کرواسکتا۔ ایک بات اور بتاتی چلوں جب بابر ہندوستان پر غزوا ہند کی غرض سے آیا تو ہندوستان پر ابراہیم لودھی کا قبضا تھا۔ ظہیر بابر پنجاب کے شہروں میں قتل گارت گیری کرتا لاہور پہنچا تو ابراہیم لودھی کا چچا گورنر دولت خان لودھی لاہور چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا تب بابری مسجد بنانے والے ظہیر بابر کی فوجوں نے شہر میں قتل عام کیا اور لاہور تین دن تک جلتا رہا۔ ایک اور بات بتا دوں پاکستان نے ہمارے قاتل بابر کے نام سے 2005 میں بابر میزائیل بھی لانچ کیا تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).