ادب میں موضوع اور اسلوب کا سنگم!


اسلوب کی پُختگی نو مَشقی کی منازل کو پار کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ اسلوب کی وسیلے سے ہی اپنی اشک افشانی کو قِرطاس پر لکھ کر روگردانی کیفیات کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔

چنانچہ اسلوب کی پُختگی کے ساتھ موضوع پر دسترس ہی ادب میں اِنفرادیت بخشتی ہے۔ اب وہ شعری تخلیق ہو یا نثری تخلیق ہو۔ موضوع کا ثَقیل و مُستغرق مشاہدہ اسلوب کو تخلیق کرتا ہے ؛ مُتشکک بَشر پر روگردانی کیفیات کو ختم کرکے اس کا شمار تِشنگانِ علم کے متعلمین میں کر دیتا ہے۔ اب وہ بات الگ ہے نہ تعلیم کی عزت باقی ہے نہ متعلم کی اور نہ معلم کی۔ بفضلِ خدا اہلِ حق کا نِبرد آزما گروہ اِتنا قلیل ہے کہ اِن کے نعرہ ہائے خارا کی آواز کانوں تک آتی ہی نہیں ہے۔

چنانچہ نوع بشریت کی ابتدائی تاریخ سے لے کر اب تک بَشر کے اندر جذبات، احساسات اور رونما ہونے والے حالات کو تخلیق کار اپنی نادیدہ کَمک کی وساطت سے تخلیق کو اچھوتا بنا کر انفرادیت کی شکل میں ڈھال دیتا ہے۔ چونکہ شعر، افسانے، ناول عرصے سے بیان کیے جارہے ہیں۔ مگر اسلوب کی وجہ سے موضوع پر رہتے ہوئے تخلیقی بنانا تخلیق کار کا نصب العین ہونا چاہیے۔ اب گویا تخیلق کار اپنی رائے کو مشتہر کرنے کے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتا ہے۔

تاکہ وہ موضوع اپنی طرز پر لکھے کے وہ پیغام عوام الناس تک پہنچ جائے۔ بعض اوقات وہ اپنے پیغام کو براہ راست یا مخفی طور پر پہنچا رہا ہوتا ہے۔ اب یہ تخلیق کار پر منحصر ہے کہ وہ کس اسلوب کو چُنتا ہے، اگر وہ نثری اسلوب کا انتخاب کرتا ہے، تو اسے ناول، افسانہ، ڈرامے کا سہارا لینا پڑے گا۔ اگر وہ شعری اسلوب میں بیان کرنے کی سعی کرتا ہے، تو اُس کو غزل، نظم اور رباعی کے توسط سے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنا سکتا کیونکہ بشر کو اپنے مَمدوح کی مجہول الشعوری طور پر تقلید اِس کے اعتقاد کو مزید پختہ کردیتی ہے۔

حتٰی العلم بعض بڑے بڑے اہلِ علم، اِنشاپَرداز اپنے اسلوب کے توسط سے شہرت کی مَنازل کو طے کرچکے، اِس کی اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تخلیق کے اسلوب کو اِستعجاب کا سُنہرا لِبادہ پہنا کر موضوع پر چڑھا دیا تھا۔ جس وجہ اِن کی پذیرائی میں اضافہ ہوا ہے۔ اِس بات سے ہم اِنحراف نہیں کرسکتے کہ تخلیق منصوبہ بندی کا قائل نہیں ہوتا بلکہ اِس کے اندر زبان و بیان کی صلاحیت اِس کو ممتاز کرتی ہے۔ اسلوب کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور موضوع ہی اسلوب کا تعین کرتا ہے۔ یہ سَہل الفہم سی بات ہے کہ جو موضوع مشکل ہوتا اِس پر تخلیق کیا جانے والا مواد بھی مشکل ہوتا ہے، جو بَشر کو اِضطراب میں بھی مبتلا کر کردیتا ہے۔ اگر تخلیق کار چاہے، تو اپنی اِستعداد سے اُسے سَہل کر سکتا ہے۔

دراصل اسلوب ہی موضوع کے تابع ہوتا ہے، نہ کہ موضوع اسلوب کے تابع ہو۔ یوں نہیں ہوتا کہ تخلیق کار صَنف، اسلوب کا تعین پہلے کرلے پھر موضوع کا مُتلاشی رہے۔ کیونکہ ثقیل موضوع کو سَہل اسلوب قابلِ فہم بنا دیتا ہے۔ اب جب بھی کسی موضوع کو بیان کیا جاتا ہے، تو اسلوب، زبان و بیان، فطرت موضوع سے ہم آہنگ ہوں، تو بیان کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔

چنانچہ اِس بات دھیان رکھنا اہم ہے کہ موضوع دِلچسپ اور اچھوتا ہو، لیکن تخلیق کار کے نَحیف انداز میں بیان کرنے سے اِس کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ جبکہ پیش پا افتادہ موضوع بھی کسی گمبھیر انداز کا بھی مُتحمل نہیں ہوتا ہے۔ موضوع اور اسلوب ایک دوسرے سے غیر فطری، غیر ہم آہنگ نہ ہو، جس وجہ سے وہ عدم توازن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ موضوع پر منحصر ہے کے کہ بڑا ہو یا چھوٹا زبان و بیان اور اسلوب اِس کو مدِنظر رکھتے ہوئے تعین کیا جائے گا۔

البتہ موضوع اور اسلوب کی اہمیت اپنی اپنی جگہ ہے۔ اسلوب کی حیثیت ثانوی، موضوع کی آفاقیت تخلیق کو بڑا بناتی ہے۔ مزید براں بقصد تعزر اسلوب کی گمبھیرتا تخلیق کو جواز فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ادب میں تخلیق کا باقی رہنا وہ ہی ہوتا ہے ؛ اور تخلیق کار زندہ جب ہی ہوتا ہے، جب اس کا موضوع آفاقی، انفرادیت کے ساتھ منفرد فکر؛ اور اچھوتے اسلوب کا عکاس ہو۔ ورنہ عدم ارتباط والی تحاریر اپنی نَزع کو پہنچنے سے پہلے دم توڑ دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).