میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا


ماہ ربیع الاول کا مقدس مہینہ چل رہا ہے اس مہینے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی اور اسی مہینے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے، جبکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک کے تاریخ میں اختلاف ہے۔ کسی جگہ 8 ربیعُ الاول تو کسی جگہ 12 ربیع الاول کے تاریخ ملتی ہے۔ لیکن وفات کی تاریخ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ولادت باسعادت ساری انسانیت کیلے رحمت ہی رحمت ہے۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ولادت ایسے زمانے میں ہوئی جب دنیائے انسانی ظلم و جبر تشدد و نا انصافی، جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جہالت اس قدر عروج پر تھی کے نو زائیدہ بچیوں کو اس لیے زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ کہ یہ بڑی ہوگی تو شادی کے بعد جمائی بھی آئے گا اور ہمیں اس کے سامنے دب کر رہنا پڑے گا اور وہ اسے اپنی بے عزتیں سمجھتے تھے۔

اتنا ہی نہیں جہالت اس قدر عام تھی کے تلوار کی دھار کو جانچنے کیلے زندہ انسان کی گردن مار دی جاتی تھی۔ شراب عام تھی اور جس قبیلے کے پاس پرانی شراب ہوا کرتی وہ سب سے عزت والا قبیلہ مانا جاتا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا، اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ساری انسانیت کیلے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا، ایک مختصر عرصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی مقدس جماعت کو تیار کرلیا جو غیر معمولی شخصیات کے مالک تھے۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ اور ان کی تربیت گاہ مسجد تھی۔ یہیں وہ جگہ تھی جہاں سے ایسی جیالوں کو تیار کیا گیا جو اخلاق و کردار میں اعلی، جو دینی تعلیم کے ماہر تھے، جو قرآن کے حافظ تھے، جو احادیث کو یاد کرنے والے تھے، اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ایسی تربیت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پائی کے وہ میدان کے غازی بھی بنے، دین کے داعی بھی بنے، اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلے ہجرت کرنے والے بنے، انہیں کی قربانیوں کا یہ نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اہل ایمان پائے جاتے ہیں۔

لیکن آج مساجد کے دائرے کو محدود کردیا گیا ہے۔ مساجد کے اماموں اور خطیبوں پر ایسی بندیشی لگائی جاتی ہے۔ کہ وہ صرف نماز روزہ کی بات کریں دیگر ملی مسائل پر بولنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام آفاقی مذہب ہے اس کی تعلیمات آفاقی ہے۔ وہ صرف ایک قبیلہ یا ایک براردی کیلے نہیں ہے اور نا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے نبی ہے بلکہ وہ سارے عالم کے نبی ہے۔ اسلام کو سبھی مسالک و جماعتوں نے اپنے دائرے کار میں محدود کردیا ہے۔ ایک تو مسلمانوں نے خود اسلام کو صرف اپنا سمجھ کر رکھا ہے۔ جبکہ قرآن مجید ساری انسانیت کیلے ہدایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساری انسانیت کیلے نبی رحمت بنا کر بھیجے گئے ہے۔

یہ ہماری مذہبی جماعتوں اور مسالک کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے مذہبی تعلیمات کو محدود نا رکھے اور اسلامی تعلیمات کو اپنے مطلب کے مطابق لیے کر محدود نا کردے۔ مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اور اسی میں پوری انسانیت کی کامیابی کا راز عیاں ہے۔ قرآن میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ چاہے وہ زندگی کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہے۔ اور اب کوئی نبی دنیا میں نہیں آئے گا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو جھوٹا ہے کذاب ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ ہوتے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا دروازہ تو بند ہوچکا ہے اور یہ امت بھی آخری امت ہے۔ یہ اعزاز دینے کیلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی و رسول بنا کر بھیجا ہے۔

تاکہ آپ کے بعد کوئی نبی نا ہو۔ اور آپ کو کسی اور رسول کی شرعیت پر عمل کرنا نا پڑے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پیدا کرنا نا ہوتا تو میں دنیا کو ہی وجود نہیں بخشتا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں یہ دنیا کو وجود بخشا گیا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت نبی بن چکا تھا جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے بیچ میں تھے۔ آدم علیہ السلام کو جب جنت سے نکالا گیا تب آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا فرمائی کیونکہ آپ علیہ السلام نے عرش پر اللہ کے نام کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی دیکھا تھا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت دین حق کی شرط اول ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتی جب تک آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی محبت تمہاری جان مال عزت، اولاد اور دنیا کی تمام چیزوں سے بڑھ کر اس کی دل میں پیدا نا ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نا ہوجائے۔

جس طرح سے ربیع الاول کے مہینے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ وہ عقیدت و محبت ہوتی ہے۔ لیکن مسلمانوں کیلے ضروری ہے کہ اس طرح سے عشق و محبت کا اظہار کیا جائے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ثابت ہو خلفاء راشدین اور تابعین نے کیا ہو اپنی محبت کا مظاہرہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر عشق کا اظہار کرتا ہے۔ اگر وہ شریعت کے خلاف ہو تو اس سے رکنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہمارے لیے بہت ہی مقدس و محترم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لکھنے والے لکھتے آرہے ہے۔ آپ کی زندگی کے ایک ایک پہلو پر ہزاروں کتابیں لکھیں جاچکی ہے اور آج بھی لکھی جارہی ہے۔

اگر دنیا کے درختوں کو قلم بنا دیا جائے اور سمندر کے پانی کو سیاہی بنا دیا جائے اور ساری مخلوقات کو لکھنے کی صلاحیت عطا کردی جائے تب بھی وہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں آپ صلیٰ اللہ علیہ سے عشق و محبت کا جوش و جذبہ دکھائی دیتا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اور وہ مسلمانوں کی فطرت میں شامل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کو بالکل برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ جذبہ کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے ‌۔ صرف چند موقعوں پر جذبات میں بہے کر ایک دن میں اس کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ہے جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی بھر اس امت کیلے مانگا ہو راتوں کو اٹھ کر اس امت کیلے آنسؤں بہائے ہو، میدان عرفات کی کڑی دھوپ میں گھنٹوں اس امت کیلے دعائیں کی ہو کیا ایک دن میں ہم اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کرسکتے ہیں بالکل نہیں، ذرا سوچیئے کیا صرف گلی محلوں کو سجا لینے سے اور ایک دن عشق و محبت کے نعرے لگانے سے کیا حق ادا ہوجائے گا!

میں دیکھتا ہوں جو نوجوان راتوں کو جا گ کر اپنے اپنے علاقوں اور چوک چوراہوں پر سجاوٹ کرتے ہیں چراغاں کرتے ہیں۔ لیکن وہی نوجوان عشاء مین نہیں دیکھا ئی دیتے فجر کے وقت وہ تھک کر گھروں میں جاکر سوجاتے ہیں۔ کیا انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد نہیں آتی کہ نماز میرے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ کیا وہ یہ بھول جاتے ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے ایمان اور کفر کے درمیان فرق پیدا کرنے والی چیز نماز ہے۔

وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دین میں نماز کا درجہ ایسا ہے جیسے جسم میں سر کا درجہ ہے بغیر سر کے ا‌نسان زندہ ہی نہیں رہے سکتا ہے۔ ہمارے نوجوان بڑے جذبات میں آکر ایسے نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے کہ ان سے بڑھ کر کوئی عاشق رسول ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ ارے تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمات پر عمل پیرا کیوں نہیں ہوتے تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو کیوں نہیں اپناتے ہو، اللہ کے فرمان کو کیوں تم پس پشت ڈال دیتے ہو۔

کیوں صرف مطلب کی آیت کو لے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار نکاح والی سنت ہمیں یاد رہتی ہے۔ میٹھا کھانے کی سنت ہمیں یاد رہتی ہے۔ لیکن ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ اگر عشق ہے تو عشق کا ثبوت بھی تو پیش کرو، عاشق جب عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ صرف تو ہی تو کے عالم میں ہوتا ہے۔ وہ خود کچھ نہیں رہتا ہے ساری خواہشات سب کچھ وہ اپنے محبوب کے نام کردیتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں رنگا ہوا دکھنا چاہیے، ذرا غور کیجیے جتنی تعداد جلسے و جلوسوں میں مسلمانوں کی ہوتی ہے۔ وہ تمام فجر کے وقت کیوں مسجد میں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ یہ لوگ جلوس ہونے کے بعد ظہر کے وقت کہا چلے جاتے ہیں عشاء و فجر میں پہلی دو صف بھی‌مشکل سی پوری ہوتی ہیں۔ اور یہ صرف ایک دن کی ہی بات نہیں سال بھر کا یہی حال ہیں سوائے رمضان کے مہینے کہ۔ یہ کیسا عشق کا دعویٰ ہے۔ عشق ہے تو اس کا ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ عشق کا دعویٰ غیر شعوری ہوگا!

ہمارے پاس یہ ربیعُ الاول کا مہینہ بڑا قیمتی ہے اس موقع پر برادران وطن بھی ہمارے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ بڑا افسوس ہوتا ہے اس وقت جب وہ غیر مسلم افراد ہمارے ہی اسٹیج سے ہمیں دین اسلام کی طرف متوجہ کرتے ہیں وہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کے دیکھو تمہارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار ایسے تھے۔ اور قرآن کی پہلی وحی کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ مسلمان ایجوکیشن میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ عجیب تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے یہ جب کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان غیر مسلموں تک دین اسلام کی دعوت کو پیش کریں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیمات ان لوگوں تک پہچانے کی کوشش کریں کے جو معاشرت سے تعلق رکھتی ہے جو حقوق عدل و انصاف مساوت سے تعلق رکھتی ہو، ایسی جامع تعلیمات کو ان افراد تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت دل نرم ہوتے ہیں اور ایسے موقعے کم ہی میسر آتے ہیں۔

انہیں یہ بات بتانے کی ضرورت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے نبی نہیں ہے اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں کا اللہ نہیں ہے قرآن صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ اللہ رب العالمین ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہے، قرآن ہدالناس ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جو آخری خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر دیا تھا اس میں یہ پیغام بھی دیا گیا تھا کہ جو حاضرین ہے وہ غائبین تک پہنچا دے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میری طرف سے پہنچا دو خواں ایک آیت کیوں نا ہو۔

تیرے حسن خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).