اقبال کے شاہین


ربِ کائینات جب کسی قوم پر رحم کرتا ہے تو اسے مدبّر انسانوں سے نوازتا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیت عطا ہوئی جومعلم انسانیت کا درجہ رکھنے والے، جن کا فکروفلسفہ اور دستور العمل قرآن کے گرد گھومتا ہے۔ جن کا کلام آفاقی ہے۔ جن کے لفظ طاقتِ پرواز رکھتے ہیں اور سوچ و شعور کے شناور ہیں۔ علّامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک تلاطم پیدا کیا، جس کے نتیجے میں مسلمان قوم عمل پر کمربستہ ہوگئی۔ وہ اپنی شاعرانہ فکر اور اظہار کے قرینے کے اعتبار سے سمندر تھے۔ اقبال کی شاعری فکر، سوچ، تخیل اور عقل و شعور کا خزانہ ہے۔

نوجوان نسل کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہوا کرتی ہے نوجوان نسل کا ملکی ترقی اور بقا و سلامتی میں اہم کردار ہے اگر یہی نوجوان نسل گمراہی کے راستے پہ گامزن ہو جائے تو ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے اور ناکامیاں اس قوم کا مقدر بن جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے نوجوان نسل کی بھرپور طریقے سے رہنمائی کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں ان کا اصل مقام پہچاننے کی تلقین کی ہے۔ علامہ اقبال کا کلام ہمیشہ نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔ ان کے افکار کی کرنیں آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ اُصولوں پر استقلال سے چلتے رہنا کام یابی کا لازمی جزو ہے۔

علامہ اقبال کی شاعری اقوام مسلم کے لیے بالعموم اور مسلمانان ہند کے لیے بالخصوص ایک صور اسرافیل کا درجہ رکھتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی فطری شاعری کے لیے پرندوں کی مختلف خصو صیات کو بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اقبال نے دوسرے شعراء کی طرح سب سے زیادہ پرندوں کو اپنی شاعری میں برتا ہے مثلاً ان کے ہاں کوئل، بلبل، چکور، طوطی، مور، تیتر، قمری وغیرہ کا بہت ذکر ملتا ہے، وہ پروانے کو بھی روشنی کا استعارہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

۔ مگر جو اہمیت ان کے کلام میں شاہین کو حاصل ہے وہ کسی اور پرندے کو نہیں۔ اقبال کے تصور شاہین میں ان تمام صفات کا ذکر ملتا ہے جو کہ مرد مومن یا مردِ درویش میں پائی جاتی ہیں۔ اقبال کی دوربین نظروں نے دیکھ لیا تھا کہ جو انقلاب مغرب سے اٹھ کر مشرق کی طرف امڈ رہے تھے ان میں بُلبل نفس قومیں زندہ نہیں رہ سکتیں صرف شاہین صفت بلند بال پرندے ہی ان انقلابوں سے بچ نکلیں گے۔ شاہین کی سخت کوشی کی صفت اقبال کو بہت پسندھے۔ اور وہ اپنی قوم کے نوجوانوں میں سخت کوشی کی خوبی کو دیکھنے کے خواہاں ہیں تا کہ وہ زندگی کی دشواریوں اور مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر اپنے نصب العین تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

اپنی شاعری میں ملت کے نوجوان کو شاہین کا نام دے کر اقبالؔ جہاں اس میں رفعت خیال، جذبہ ٔ عمل، وسعت نظری اور جرأت رندانہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہاں اس کے جذبۂ تجسس کی بھرپور تکمیل بھی چاہتے ہیں۔ شاہین پرندوں کی دنیا کا درویش ہے۔ وہ اپنی خودی پہچانتا ہے، تجسس اس کی فطرت اور جھپٹنا اس کی عادت ہے۔ وہ فضائے بسیط کا واحد حکمران ہے جو فضاؤں اور دوریوں سے محبت کرتا ہے۔ شاہین کی زندگی عزم و ہمت سے عبارت ہے۔

اپنی خصو صیات کے لحاظ سے یہ دوسرے پرندوں سے بہت مختلف ہے، یہ اپنی پرواز سے کبھی بھی نہیں تھکتا بلکہ بلند سے بلند تر پرواز کر کے دلی سکون حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہ ہوا میں اپنے شکار کو زندہ پکڑتا ہے۔ اس کی تیز نگاہ کبھی بھی دھوکہ نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو بھی اس قابل بناتا ہے کہ وہ مصائب کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ اپنے مقاصد عظیم رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری نے جذبات کو فکر کا درجہ دیا ہے اور فکر کو جذبات کا آب و رنگ بخشا ہے۔

علامہ اقبال کے ہاں شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں ہے بلکہ اس پرندہ میں اسلامی فخر کی کل خصوصیات پائی جاتی ہیں وہ نوجوانوں کو بارہا تلقین کرتے ہیں کہ وہ شاہیں کے اوصاف اور عادات اپنائیں اس پرندے کی خودداری، غیرت مندی، خلوت پسندی اور بلند پروازی و دور بینی کو اپنائیں۔ اقبال نوجوان کو شاہین بننے کی تلقین فرماتے تھے کیونکہ شاہین قناعت کا قائل نہیں بلکہ وہ حرکت کو زندگی سمجھتا ہے کیونکہ جدوجہد میں ہی کامیابی کا راز پنہاں ہے اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ ایک ہی مقام پر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے نہ بیٹھیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ فی زمانہ امّت مسلمہ جس زبوں حالی اور انحطاط کا شکار ہے اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ ہمارا عمل سے عاری مسلمان نوجوان ہے۔ آج ہمارا نوجوان بے مقصد زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی فکر محدود ہوگئی ہے اور ذہن جمود کا شکار ہے۔ ایسے میں اس فکری سکوت اور ذہنی جمود کو دور کرنے کے لئے کلام اقبال بہترین طریقہ علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ یقیناً ہم مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ لیکن اس امّت کی شاندار تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی اس امّت کے نوجوان اپنے عزم و حوصلے لے کر اٹھے ہیں نصرت خداوندی نے ان کے قدم ضرور چومے ہیں، اور اسلام نے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک کر نگاھوں کو خیرہ کیا ہے۔

بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال کے اس شاہین نوجوان کو بیدار کیا جائے اور اس کے اندر وہ شاہین والی صفات پیدا کی جائیں تو پھر انشاء اللّھ بات بنے گی۔ ملت کے نوجوانوں کو اقبال کا شاہین بن کے محنت اور لگن سے کام لینا ہو گا اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر کے اقبال کا خواب پورا کرنا ہو گا تاکہ ہم پاکستان کو ایک عظیم ملک بنا سکیں۔ ہم تو اتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی بہترین طاقت و تعداد ہے۔

نوجوان ہماری قوت ہیں۔ مگر افسوس۔ کہ آج کا نوجوان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ غیر ملکی تقلید کو اپنانا چاہتا ہے۔ وہ اقبال کو نہیں بلکہ شاہ رخ خان اور لیڈٰی گاگا کو جاننا چاہتا ہے اور ان کو اپنا آئیڈل مانتا ہے۔ اس میں بھی قصور ہمارا ہے کہ ہم نے اپنی انفرادی آذادی کے لئے وقت سے پہلے اپنی نسل کو ٹی وی۔ موبائیل اور انٹرنیٹ تو دے دیا مگر کبھی اپنا قیمتی وقت دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی، تو پھر کیسے ہم امید رکھیں کہ ہمارا نوجوان ہماری امید بنے گا؟ کیسے قوم کا فخر بنے گا؟ کیسے اقبال کے شاہین کی طرح بلندی پر پہچے گا؟ سوچیئے گا ضرور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).