دھرنا دھرنا کردی وی میں آپ ہی دھرنا ہوئی


پھر سے سڑکیں سج گئی، دھاڑی کمانے والوں کے اچھے دن آگئے، اور سنسان میدان آباد ہوگئے، کیونکہ اسلام آباد میں پھر سے دھرنا لگ گیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام فنکشنل نے، اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوئا ہے، اور بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ، دھرنا دینے کا بڑا لمبا پروگرام بنایا ہوئا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ ملاقاتوں کے باوجود اب تک کوئی بات نہیں بنی، اور مولانا اپنے پہلی شرط سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں، جو کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ہے۔

حکومتی کمیٹی کا یہ موقف ہے، کہ اگر مولانا کو مہنگائی، کرپشن اور دیگر مسائل پر تشویش ہے، تو ہماری اصلاح کرے، ہم اس کی تجاویز پر عمل کریں گے، پر انہوں نے دو ٹوک یہ پیغام دیا ہے کہ، کوئی استعفیٰ نہیں ملے گا۔ جب پیپلزپارٹی کے حکومتی ادوار میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا تو، مولانا اس وقت حکومت کا اتحادی تھا، اور اس دھرنے کا بڑا نقاد تھا۔ جب نواز شریف کے دور حکومت میں عمران خان نے تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا ڈی چوک اسلام آباد میں دیا تو بھی مولانا صاحب نے، اس کی حمایت تو نہ کی، بلکہ عمران خان کو خوب اڑے ہاتھوں لیا۔

مولانا کی دھرنا مخالف تقاریر ابھی بھی محفوظ ہیں، جن میں وہ کہتے تھے کہ، کسی بھی جمہوری حکومت کو دھرنوں کے ذریعے یرغمال بنا کر گرانا درست نہیں۔ جب کہ تحریک انصاف نے دھرنے سے پہلے یہ مطالبہ رکھا تھا، کہ جن چار حلقوں پر انہیں دھاندلی کا پکا یقین ہے وہ کھولے جائیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے وہ حلقے نہ کھولنے پر عمران خان نے دھرنا دیا، اور اس کا ساتھ علامہ طاہر القادری نے دیا، جو کہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولوں کو انصاف دلوانا چاہتا تھا، اب تو خیر وہ سیاست سے دستبردار ہو چکا پے۔

ہماری سیاسی قائدین کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے، کہ وہ سیاست اصولوں پر نہیں، موقع پرستی اور مطلب پرستی پر کرتے ہیں۔ جو بات ان کو اقتدار میں رہتے ہوئے اچھی لگتی ہے، اچانک سے وہ اپوزیشن میں آتے ہی اس کی مخالفت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جیسے عمران خان نہ صرف دھرنے کا، پر سول نافرمانی کا، پارلیامینٹ ہاؤس پر دھاوا بولنے کا، اور شہر کو لاک ڈاؤن کرنے کا بڑا حامی ہوئا کرتا تھا، پر جوں ہی اس نے اقتدار کے مزے چکھے ہیں، اس کی نظر میں دھرنا دینا اور لاک ڈاؤن کرنا بُرا بن گیا ہے۔

اور دھرنا سیاست کے سخت مخالف مولانا فضل الرحمان آج دھرنا سیاست کھیل رہے ہیں۔ حکومت نے تو انہیں آفر بھی دی ہے کہ اگر آپ اپنا حلقہ کھلوانا چاہیں جہاں سے آپ ہارے ہو، تو ہم وہ کھولنے کو تیار ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا سے الیکشن جیتنے والے وفاقی وزیر امین گنڈاپور نے تو یہ بھی پیشکش کردی ہے کہ مولانا چاہے تو میں اس حلقے میں سے پھر سے الیکشن جیت کر دکھا سکتا ہوں۔ پر مولانا اپنی رٹ پر قائم ہے کہ یہ حکومت ناجائز ہے، اسے گھر بھیجا جائے۔ ابھی وہ ڈی چوک پر تو نہیں گئے، پر وہ امپائر کو وارننگ ؑ بھی دیتے آ رہے ہیں کہ، کوئی تصادم کیا گیا تو سمجھو عوام کے ساتھ ہوگا، ہم اداروں کے نہیں بلکہ عمران خان کے خلاف اکٹھے ہوئے ہیں، اور جب تک اس کا استعفیٰ نہیں مل جاتا کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔

اسلام آباد میں بارش ہوئی ہے، اور ٹھنڈ میں بھی اضافہ ہوئا ہے، جس سے دھرنا دینے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے، جب کہ ایک آدمی دل کا دورہٴ پڑنے کے باعث فوت بھی ہوگیا ہے۔ پر مولانا لمبے دھرنے کی تیاری کر کے آئے ہیں، انہوں نے بارہ ربیع الاول کو سیرت النبی ﷺ کانفرنس کرنے کا بھی بول دیا ہے۔ مولانا کی سیاست میں یہ نیا رنگ دھرنے کی وجہ سے لگا ہوئا ہے، جس کی کوریج بھارتی میڈیا بھی دے رہا ہے۔ پر مولانا تو اس سب کے خلاف تھا، اور بحیثیت سیاستدان، مولانا عمران خان کو یو ٹرن کے طعنے دیتا آیا ہے، اور دیکھو تو وہ خود ہی اس بات پر یوٹرن لے بیٹھا ہے۔

کل تک دھرنا اس کے لیے خراب تھا، جمہوریت کے خلاف سازش تھی، بیرونی قوتوں کا اشارہ تھا، پر آج وہ اب سب باتوں پر خود عمل پیرا ہے، اور وہ عمران خان کی حکومت کو اڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔ ان سب سیاسی پارٹیوں میں فقط پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے، جو دھرنا سیاست کی مخالفت کرتی آئی ہے، اور پیپلزپارٹی نے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے یوٹرن نہیں لیا۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں عمران خان کا دھرنا ہو، یا خادم رضوی کا، پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کی سر عام مخالفت کی ہے۔ وہ اس موقف پر اٹل ہیں کہ جیسے بھی لولی لنگڑی جمہوری حکومت ہے اسے چلنے دیا جائے، ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی فوجی آ کر حکمران بن جائے، اور سسٹم کو نقصان پہنچے۔

مولانا کے دھرنے پر اخلاقی سپورٹ کرنا اور کنٹینر پر جا کر مختلف رہنماؤں کی تقاریر کے علاوہ پیپلزپارٹی سربراہ بلاول بھٹو نے عملی طور پر دھرنے میں کوئی حصہ نہیں لیا، نہ ہی اپنے کارکنوں کو بھیجا ہے۔ جب کہ بلاول بھٹو ہی وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے قومی اسمبلی میں، وزیراعظم عمران خان کے لیے سیلیکٹیڈ کا لفظ استمعال کیا تھا۔ اس کا مطلب پیپلزپارٹی والے بھی سمجھتے ہیں کہ الیکشن پوری طور پر شفاف نہیں ہوئے، اور پی ٹی آء کے اقتدار میں آنے کے پیچھے بھی ایک سازش ہی ہے، پر وہ اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہتے۔

جب کہ مسلم لیگ کی یہ روایت رہی ہے، کہ وہ اپنے زبان وقتاً بوقتا بدلتے رہتے ہیں۔ پر اس دفعہ بات مولانا کی ہے، جو کہ دھرنا سیاست کا بڑا مخالف تھا، پر آج وہ کہتا ہے میں دھرنا دے رہا ہوں تو میں حق پر ہوں، پر عمران خان والا دھرنا ناحقی پر مشتمل تھا۔ تمام تر باتوں کے مدنظر رکھتے ہوئے، ہمارے سیاستدانوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ، دوسروں پر تنقید کے تیر پھیکنے والے کیا خود اصولوں کی اور نظریاتی سیاست کرتے ہیں، یا یو ٹرن لے کر خود کو کنگ آف یوٹرن بنانے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں۔

اب شاید مولانا اپنے کسی نامعلوم پلان بی پر غور و فکر کر رہا ہے، اور رہبر کمیٹی کی طرف سے بھی یہ تجویز آئی ہے، حکومت پر اور دباوٴ ڈالا جائے۔ مولانا کو چاہیے کی اصولوں کی سیاست کرے، اور اپنے دھرنے کے شرکاء کو مزید درسگاہوں سے دور نہ رکھے، اور اپنی موقف پر لچک دکھائے، کیونکہ دھرنا زیادہ دن چلا، تو مولانا کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اگر مولانا کے کارکنوں نے مزاحمت کی یا ڈی چوک کی طرف روانا ہوئے تو، خدانخواستہ جانی نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).