یومِ اقبال اوراقبالِ جرم


کیا ہر تہوار پہ چھٹی ضروری ہے؟ اپنے مشاہیر سے منسوب ایام پہ تعطیل عام ہر قوم کی معاشرتی اقدار کا حصہ ہوتی ہیں جن کا مقصد اپنے ہیروز کی یاد منانا اور ان کے افکار کو عام کرنا ہے۔ مگر ہمارے ہاں چھٹی کا مفہوم اکابرین سے استفادہ کی بجائے محض چھٹی ہی ہے۔ کام سے فرار اور چھٹیوں سے پیار ہمارے معاشرے کی عادت ہے۔ کوئی تہوار ہو یا کوئی ہنگامہ ہم چھٹی کے طلب گار رہتے ہیں۔ گزشتہ سال کی طرح اس برس بھی یوم اقبال پہ تعطیل عام کا نہ ہونا یار لوگوں پہ خاصاگراں گزر رہا ہے۔

دوسری جانب سیاسی جماعتیں یومِ اقبال پہ بھی سیاست سے باز نہیں آتیں۔ دو سال قبل وفاقی حکومت نے چھٹی معطل کی تو کے پی کے حکومت نے ضد میں چھٹی بحال رکھی۔ مگر ا ب پچھلے سال سے ان کی وفاقی حکومت خود تعطیلِ اقبال معطل کر رہی ہے۔ تھوڑا سا غور کریں کہ یہ کوئی ضروری امر نہیں۔ ہماری قوم فراغت و فرصت کی دلدادہ ہے اور کام اور محنت سے فرار اس کے مزاج کا حصہ ہے۔ کا ش چھٹیاں رہیں ہزار برس، ہربرس کے ہوں دن پچاس ہزار کے مصداق اپنا بس چلے تو پورا سال ہی چھٹیاں رہیں۔

اصل میں مشاہیر کے ایام منانے کامقصدقوم کو ان کی زندگیوں اور کارناموں سے روشناس کرانا ہے اور اس کا اظہار اس دن کے حوالے سے تقریبات کے انعقاد سے ہوتا ہے۔ سوچئے کے ہم بہتر برس سے ایسے کتنے یوم اقبال اور یوم قائد منا چکے ہیں اورقوم کس حد تک اقبال شناس ہوئی ہے۔ اور کتنے لوگوں کو اقبال کے اشعار اور ان کے خیالات کی روح سے آشنائی ہے۔ کیا ہم اس دن صرفٖ تعطیل ہی سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ اقبال تو خود بیکار اور فارغ رہنے کو غلام قوم کی علامت سمجھتے تھے جبکہ قائد کام کام اور کام کی نصیحت کرتے تھے مگر ہم ان کی باتوں پر عمل کرنے کی بجائے ان کی بہانے صرف فرصت کے رات دن تلاش کرنے میں مگن ہیں۔

ہم نے تو ویسے بھی اقبال ؒ کو قوالوں اور گویوں کے حوالے کر رکھا ہے اور اقبالؒ کا نام محض حوالوں کے لئے مختص کر چکے ہیں۔ کیا کہنے اپنی قوم کے کہ جس سے اقبال کا شاہین کب کا اڑ چکا اور کرگس کا ہم خیال ہوگیا۔ جس کی خودی برقرار نہ رہی بلکہ خودی کی راکھ سے محض بکرے کی ران پیدا کرنے کی رسم روا ہو چکی۔ جس قوم کی شمع بجھنے اور پروانہ مرنے پہ آمادہ ہے، جو غریبی میں نام پیدا کرنا ہی بھول گئی اور جو مقام بیچ کر مکان پیدا کرنے کے چکر میں محو ہے۔

جو آداب ِ سحر گاہی بھول کر شب گزیدگی کے سراب پہ رقصاں ہے۔ جہاں دن کو فقیہان اور رات کو غزالان سے صحبتیں پروان چڑھتی ہوں۔ جہاں ابلیس کو مجلس ِ شوریٰ کے اہتمام کی حاجت بھی رہے۔ جہاں کا مرغ ِ چمن نغموں کی بجائے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔ نیلے، پیلے اودے پیرہن کم لباسی پہ نازاں ہوں۔ جہاں اوقات ِ قیام بھی سجدہ ریزیوں میں کٹتے ہوں۔ جہاں اعمال پہ اذکار کو ترجیح دی جائے۔ اور پروازوں میں کوتاہیوں کا پچھتاوا نہ رہے۔

جہاں نگاہ ِ مردمومن کور چشمی کا شکار ہوکر تعصب کی عینک لگا بیٹھے۔ جہاں رزمِ حق و باطل میں بریشم اور حلقہء یاراں میں فولاد ہونے کا رواج ہو۔ جہاں شہروں کے خوگر تا حال وسعت ِ صحرا سے نا آشنا ہوں اور آہو مزید بھٹک کر در بدر ہو جائے۔ اسے اقبال صرف چھٹی نہ ہونے کے موجب یاد آ رہا ہے۔ خدا را چھٹی کا غم دل سے نکال کر اقبال کے افکار کو دل میں جگہ دیجئیے اور اس قوم کے لئے اپنے حصے کی شمع جلا نے کی سوچئے۔

آیئے اس یوم ِ اقبال پہ اپنا احتساب کریں اور مرقومہ بالا حقائق کے پیشِ نظر یوم ِ اقبال پہ اپنے ”اقبال ِ جرم“ کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).