کیا آپ خطوط لکھتے ہیں؟


آپ نے کسی کو آخری دفعہ خط کب لکھّا تھا؟ ”یاد نہیں؟ “ جی ہاں۔ مجھے اکثر یہی جواب ملتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ میں نے آخری دفعہ جو خط لکھّا تھا وہ اپنی اہلیہ کوافریقہ سے 20 سال قبل تحریر کیا تھا۔ یہ 1999 ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں اقوامِ متحدّہ کی طلب پر کانگو (سابقہ زائر ( میں فوجی مبصّرکے طور پر تعیّنات تھا۔ میں راولپنڈی کے مضافات میں ایک کالج میں پرنسپل ہوں۔ ہمارے ہاں 1900 سے اُوپر طلباء و طالبات جبکہ 100 سے زائد اساتذہ ہیں۔ میں جب ان سے یہی سوال پُوچھتا ہوں تو اکثر جواب ملتا ہے۔ ۔ ”سر اُردو کے پرچے میں، ایک دوست کو خط لکھّا تھا۔ “

میرا ا تعلق آزاد کشمیر کے دور دراز پہاڑی علاقے سے ہے۔ 1970 ء کی دہائی میں ہم ٹین ایجر (Teenager) تھے۔ ہمیں اپنے گاؤں میں چِٹھی لکھنے، لکھوانے، پڑھنے اور پڑھوانے کا چلن ابھی تک یاد ہے۔ اس کا الگ رُومان بھی تھا اور چاشنی بھی۔ 1970 ء کی دہائی میں ہمارے گاؤں کی ایک اچھی خاصی افرادی قوّت مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں چلی گئی۔ ان دنوں خط و کتابت کے علاؤ ہ ر ابطے کا کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ ان دنوں کئی نئی نویلی دلہنیں جن کو ان کے مجازی خدا شادی کے ارمانوں بیچ تڑپتا چھوڑ کر خاندان کی خوشحالی کے لئے اور دبئی، شارجہ اور ابوُ ظہبی کو تعمیر کرنے کے لئے مشرق وسطیٰ سدھار گئے تھے، چِٹھیاں لکھوانے کے لئے مجھ سے رجوع کرتیں۔

اب وہ خواتین نانیاں اور دادیاں بن چکی ہیں۔ میں جب گاؤں جاتا ہوں تو ان کو ان کے وہ ذو معنی فقرے جو مجھے بچّہ سمجھ کر اپنے محبوب شوہروں کو لکھواتی تھیں، یاد کرواتا ہوں۔ پھر ہم مل کر خُوب ہنستے ہیں۔ اپنے گاؤں کا چِٹھی رسان (Postman) محمد صادق بھی مجھے ابھی تک یاد ہے۔ وقت کے پابند، دبلے پتلے اور درازقد محمد صادق کے چہرے کے تاثرات اچھی یا بُری خبر کا پتہ دیتے تھے۔ مثلاً کسی کا منی آرڈر آیا ہوتا تو اور قسم کی چمک اس کے چہرے پر ہوتی۔

تار (ٹیلی گرام) کی صورت میں چہرہ متانت سے لبریز ہوتا۔ اور کسی بیٹے کی پہلی چِٹھی کی آ مدکی صورت میں محمد صادق اس طرح خوش ہوتا جیسے وہ اسی خاندان کا فرد ہو۔ ۔ ان دنوں گاؤں کے مرکز میں محمد شریف کی کریانہ کی دُکان سے ڈاک خانے کا کام لیا جاتا تھا۔ محمد صادق بھی چھٹی کے دن خط لکھنے کا کام بڑے شوق سے انجام دیتا۔ اور جس گھر میں کھانے کا وقت ہو جاتا۔ اُس کے خُوب خاطرداری کی جاتی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک خط یا تار پُورے گاؤں کا ماحول خوشگوار یا سوگوار کر دیا کرتا تھا۔ وہ خوشگوار اور رُومان انگیز ماحول پچھلی چار پانچ دہائیوں میں ٹیلی فون، موبائل فون اور انٹر نیٹ کی بھُول بھلیّوں میں کہیں کھو گیا ہے۔

میں خود سائنس کا طالب علم رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ نسلِ انسانی کا ارتقاء، ترقّی اور تجوید سائنس اور ٹیکنالوجی کی مرہونِ منّت ہے۔ ذرائع رسل و رسائل کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ بھی طوفانی رفتار سے ترّقی پذیرہو رہے ہیں۔ میں پیغام رسانی کے لئے ٹیکسٹ میسج (Text message) ، وہٹس ایپ (Whats app) ، فیس بُک (Facebook) اور ای میل (Email) کے خلاف نہیں ہوں۔ مگر ان سہولتوں کے رُو پذیر ہونے سے خط لکھنے کی روایت جس تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے اس پر رنجیدہ ضرور ہوں۔ خط تحریر کرنے کی روایت اتنی ہی پرانی ہے۔ جتنی خود ”تحریر“ کی۔

تاریخ انسانی میں خطوط نویسی نے ہزاروں سال تک دھوم مچائے رکھی۔ قدیم زمانے کی تاریخ کا مطالعہ یہ پتہ دیتا ہے کہ ایران کی ملکہ اطوسیہ نے 500 سال قبل مسیح میں پہلا خط اپنے محبوب کو لکھا تھا۔ اس وقت زمانے میں ڈاک کے ذریعے خط بھیجنے کا کو ی نظام نہ تھا۔ ، ٹکٹ اور لفافے کے زریے خط لکھنے کا اغاز بادشا ہ ہنری ہشتم نے 1527 ؁ میں اپنی محبوبہ کو خط لکھ کر کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ کا بادشا ہ ہنری ہشتم اس وقت شادی شدہ تھا۔

انیسویں اور بیسویں صدی بعد مسیح میں ایک دور ایسا بھی آیا جب خطوط نویسی باقاعدہ ادب کی صنف کے طور پر شمار ہونے لگی۔ غالبؔ کے خطوط (مکاتیب غالبؔ) ، عطیہ فیضی کے نام اقبالؔ کے خطوط اور فیض احمد فیضؔ کے ایلس کے نام خطوط قابل ذکر ہیں۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب نے اردو ادب میں پہلی بار خطوط کو مکالمے کا رنگ دیاتھا۔ ا س دور کی شاعری میں بھی خطوط کا حوالہ کثرت سے ملتا ہے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کا شعر ہے :۔

؂ قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو و ہ لکھیں گے جواب میں

اور یہ شعر بھی کہ :

؂ تجھ سے تو کچھ کلام نہیں، مگر اے ندیم

میرا سلام کہیو اگر نامہ بھر ملے

؁ 0 196 اور 0 197 کی دہایوں میں فلمی نغموں میں بھی خطوط نویسی کی اچھی خاصی جھلک نظر آتی ہے۔ ان دنوں خطوط کے حوالے سے متعدّد نغمے بھی مشہور ہوئے تھے۔ مثلاً ہندوستانی فلم کنیا دان کے لیے محمد رفیع کا ایک گانا :۔

؂ لکھّے جو خط تجھے، وہ تیری یاد میں، ہزاروں رنگ کے نظارے بن گئے

سویرا جب ہوا تو پھُول بن گئے، رات آئی تو ستارے بن گئے

ملکۂ ترنم نور جہاں کا فلم ”دوستی“ کے لئے گایا گیا یہ نغمہ بھی بہت مشہور ہوا تھا:۔

؂ چِٹھی ذر ا سیّاں جی کے نام لکھ دے

حال میرے دل کا تمام لکھ دے

شاعری، موسیقی اور نغموں کے علاوہ اسی زمانے میں پاکستان ٹیلی وژن کا ڈرامہ سیریل ”رات، ریل اور خط“ خطوط کے حوالے سے بہت مقبول ہوا۔ اس کی اکثر کہانیاں خطوط کے اردگرد گھومتی تھیں۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ ریل کے حادثے کے نتیجے میں ڈاک ڈبّے میں بند خطوط تلف ہونے سے ان لوگوں پر کیا بیتی جن کو یہ خطوط ملنے تھے۔ یہ تو تھی اس ضمن میں ماضی کی ایک جھلک۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ خطوط نگاری بطو رایک ادبی صنف ادب میں بھی زندہ رہتی۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اس ضمن میں کوششیں نہیں ہو رہیں۔ حال ہی میں معروف ادیب، کالم نگار اور نفسیات دان ڈاکٹر خالد سہیل خط لکھنے کی روایت کو اُردو ادب میں دوبارہ زندہ کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ اس سفر کا آغاز انہوں نے اور رابعہ الرّبانے گزشتہ سال اردو میں 50 خطوط کا تبادلہ کر کے کیا۔ یہ ادبی مراسلے ”درویشوں کا ڈیرہ“ نامی کتاب کی صورت میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔

۔ اس کتاب میں شامل خطوط اس طرح کے محبت نامے تو نہیں جو میرے گاؤں میں چار پانچ دہائی پہلے گاؤں کی مٹیاریں مجھ سے لکھواتی تھیں۔ اور نہ رہی رومانوی مکتوب ہیں۔ اور نہ ان کو قلم سے کاغذ پر لکھّا گیا ہے۔ بلکہ درا صل یہ ای میل کے ذریعے کیے گئے علمی و فکری مکالمے (Intellectual Discourse) ہیں جن کو کمپیوٹر کے ”کی بورڈ“ (Key board) نے خطوط کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اور ترسیل کے ذریعے ای میل (Email) جیسا ادبی براق استعمال ہوا ہے۔

اس کام سے ڈاکٹر سہیل نے ایک دل آویز اور خوبصورت امّید باندھ رکھّی ہے۔ وہ یہ کہ آنے والے لوگ سوچیں، لکھیں، قلمی دوست بنائیں اور علمی و ادبی خطوط کے تبادلے کیاکریں۔ تاکہ اُردو اور انگریزی لکھنے والے افراد میں تخلیقیت پیدا ہو۔ اور اس ہنر سے دنیا میں مزید لکھاری پیدا ہوں۔ یہ امر باعث مسرت ہے اور اس تمنا کا امکان بہرحال موجود ہے۔ بقول غالب :

اے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ھم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا، پایا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).