لائبریری سے جُڑی میٹھی یادیں


 ”چلیں چلیں پاپا! جلدی کریں نکلیں ورنہ ٹرین چُھوٹ جائے گی“۔ ”ابھی تو دو گھنٹے پڑے ہیں ٹرین کے چلنے میں بیٹا! اتنی جلدی کیا ہے؟ “ پاپا جواب دیتے۔ انہیں معلوم تھا کہ مجھے ریلوے اسٹیشن جانے کی جلدی کیوں رہتی تھی در اصل مجھے ریلوے اسٹیشن کے وہ بک سٹال درویدہ کرتے ہوئے مقناطیسی کشش سے بلاتے تھے جہاں سے اپنی کہانیوں کی کتابیں خریدنے کے لیے میں بے تاب رہتی تھی۔ ریل کی پٹڑی پر چُھک چُھک چلتی ریل کے ساتھ ساتھ کہانیوں کی طلسماتی دُنیائیں مجھے اجنبی دیسوں کی سیر کراتیں۔

میرے ننھے سے ذہن میں وہ رنگا رنگ بُک سٹال کُتب خانوں کا سا منظر پیش کرتے۔ مجھے ہمیشہ اپنی گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کا انتظار شدت سے رہتا کہ مجھے ڈھیروں ڈھیر کتابیں ملتی تھیں لیکن سکول کا ہوم ورک ختم کرنے کے بعد۔ اپنے سکول کی بہت وسیع اور کشادہ لائبیریری کا ہال آج بھی دل و ذہن کے نہاں خانوں میں میٹھی اور جادُوئی یادوں میں بستا ہے۔ سکول کی لائبریرین مسز قاضی کا محبت بھرا سراپا یادوں کے آنگن میں نرگس کے پُھولوں کی طرح بستاہے۔

ان کا محبت کی خوشبو سے بھرا وجود سفید ساڑھی میں لپٹا رہتا۔ وہ نہایت توجہ اور شفقت سے شیلف میں سجی کتابیں نکال کر ہمیں دیا کرتیں اور ہمارے دلوں میں کتابوں کا شوق پیدا کرتیں۔ اس کے علاوہ گرفن ہال میں بنی چھوٹی سی لائبریری بھی انواع و اقسام کی کتابوں سے لدی رہتی تھی۔ لائبریری کا کارڈ اس پاسپورٹ کی طرح لگتا تھا جو ہمیں اجنبی سر زمینوں کے عجائبات، کوہِ قاف کی پریوں اور پہاڑیوں، دوسروں کی زندگیوں، ان کے مذاہب اور تجربات کی جھلک دکھلاتے تھے۔

لائبریریوں میں موجود کتابیں ہماری آنکھوں اور دلوں کے دروازوں کو ان دیسوں کی طرف کھولتی ہیں جہاں ہم جا نہیں سکتے۔ نا امیدی، جبر، مایوسی، انتشار، جہالت، ناموافقت، غلامی، بے جان فطرت جیسی منفی چیزوں سے صرف کتابوں کے اکھشر ہی پردہ اٹھاتے ہیں اور زندگی کی روشنی نمودار ہوتی ہے۔ دورِ حاضر ٹیکنالوجی کا وہ تیز رفتار دور ہے جہاں صرف ہاتھ پر دھرے سمارٹ فون کو انگلی سے چُھوتے ہی وہ دُور دیسوں کی سیر کرانے لے جائے گا۔

اسی طرح کمپیوٹر نے ہماری زندگیوں میں طوفان جیسا انقلاب برپا کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر گھر سے ماؤں کی ایک جیسی ڈانٹتی ہوئی آوازیں اُٹھتیں سنائی دیتی ہیں۔ ۔ ”ارے کب بند کرو گے فون؟ کچھ پڑھ بھی لو۔ ہر وقت لیپ ٹاپ پر بیٹھے رہتے ہو جانے یہ کیسی پڑھائی ہے؟ “ ان دنوں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر پر دستیاب معلومات نے کتابوں اور کتب خانوں کی حیثیت و اہمیت کو یکسر مٹا کے رکھ دیا ہے۔ آج کے طالب علموں کا بس چلے تو نصابی کتابیں بھی ہاتھ میں نہ اٹھائے بلکہ صرف فون ہاتھ میں لیے سکول یا کالج کی راہ لے۔

ایک زمانہ تھا طالب علم نصاب کی کتابوں کے علاوہ معلوماتی کتابیں، کہانیوں کی کتابیں، سفر نامے، سوانح حیات اور ناول وغیرہ نہ صرف پڑھا کرتے بلکہ ان پر تبادلۂ خیال بھی کیا کرتے تھے۔ سکولوں میں اکثر اوقات ادبی میلے سجا کرتے تھے جہاں بچوں کو ترغیب دلانے کے لیے دو یا تین کتابوں کی خریداری پر ایک کتاب مفت ملا کرتی تھی۔ اب تو ادبی میلوں کے بجائے انواع و اقسام کے میلے سجتے رہتے ہیں۔ کاش کہ اب بھی لائبریریوں کی اہمیت کو اُجاگر کیا جائے تاکہ ہمارے نوجوان علم کی افادیت کو سمجھ سکیں۔

یاد رکھیں جو لوگ محدود علم کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ کبھی فطرت اور علم کی اصل حقیقت کو نہیں پا سکتے۔ انٹرنیٹ کا عطا کردہ علم اس دیے کی مانند ہے جس میں روشنی نہیں، ایسے ستار کی طرح ہے جس کی تاروں سے سُر نہ پُھوٹتے ہوں۔ میری یادوں میں بے شمار کتابیں محفوظ ہیں، یوں تو اس وطن کے ہر بچے کی طرح جو پہلے باقاعدہ کتاب میں نے پڑھی وہ ”یسرنا القرآن“ ہے جو ماں نے مجھے پڑھانا شروع کیا۔ ہماری کالونی میں گرفن ہال میں بنی چھوٹی سی لائبریری سے مجھے پہلی بار پایا نے متعارف کروایا۔

سِنڈریلا وہ پہلی پریوں کی کہانی تھی جو مجھے حرف بہ حرف نہ صرف یاد تھی بلکہ میں اپنی سکیچ بُک پہ اس کی ڈرائنگ بھی کیا کرتی تھی۔ میری پسندیدہ کتابوں میں The railway children، Secret garden، Far from the madding crowd، Peter rabbit، جیسی بہت سی کتابیں ہیں۔ اردو میں ملا نصرالدین کے لطیفے اور قصے، ابنِ صفی، اشتیاق احمد کی سیریز، نسیم حجازی کے ناول اور مظہر کلیم وغیرہ سب کو پڑھ رکھا تھا۔ لائبریری کی تاریخ میسو پوٹیمیا جو آج کا جنوبی عراق کہلاتا ہے سے ملتی ہے جہاں مٹی کی تختیوں پر Stylus Penسے لکھائی کے ثبوت ملتے ہیں جو تقریباً 2600 BCپرانی ہیں۔

ازاں بعد ذاتی اور نجی لائبریریاں پانچویں صدی BCمیں قدیم یونان میں بنائی گئی تھیں۔ دنیا کی قدیم ترین لائبریریوں میں سے ایک great libraryof Alexendriaمصر میں تھی جو علم و آگہی کے مرکز کے طور پر جانی جاتی تھی۔ دوسری بڑی قدیم لائبریری باز نطینی دور کی The imperial libraryکے نام سے جانی جاتی تھی قسطنطینہ میں تھی۔ دنیا میں مختلف قسم کی لائبریریاں ہیں جن میں اکادمی کتب خانے، تحقیقی کتب خانے، ڈیجیٹل کتب خانے اور خصوصی کتب خانے پائے جاتے ہیں۔

لائبریری بچوں کی شخصیات میں تجسس ابھارنے اور نئے نئے افق کھوجنے کی ایک پُر لذت کیفیت پیدا کرنے والی جگہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بچوں کی زندگیاں ”یہ“ اور ”وہ“ جیسے مقولات سے بندھی ہوتی ہیں۔ ایسے میں انہیں کھیل اور کہانیوں کے ذریعے سبق سکھانے کے اصول وضع کرنا اشد ضروری ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں لائبریری بچوں کے لیے وہ جنت نما جگہ بن سکتی ہے جہاں وہ زندگی میں تناسب اور وقت کی پابندی سیکھ سکتے ہیں۔ لائبریرین وہ رہنما ہوتا/ہوتی ہے جو بچوں کو کتابوں سے نہ صرف محبت بلکہ اس کے پنوں میں چھپے بھید بھی سکھا سکتے ہیں۔

لائبریری کے آسودہ ماحول نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ آٹھویں جماعت تک میں نے اپنے کمرے کے ایک کونے میں کتابوں کی الماری سجالی اور اس وقت میرے پاس مختلف ناول، کہانیاں، سوانح عمری، سفر نامے اور رسالے ملا کر کُل 100 کتابیں بنتی تھی۔ چونکہ ہم گرفن ریلوے کالونی میں انگریز کے دور کی بنی پُرانی کوٹھیوں میں رہائش پذیر تھے جن میں بڑے بڑے باغ بھی ہوتے تھے۔ میں اپنے پڑوس کے بچوں کو جو عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے اور مجھے باجی کہا کرتے تھے انہیں فری کتابیں دینا شروع کیں اور یوں ایک چھوٹا سا ریڈنگ کلب بنایا جس کا نام ہی ”گرفن ریڈنگ کلب“ تھا۔

مجھے یاد ہے ہمارے پڑوسی انکل رشید کی ناگہانی موت سے ان کا گھر اور بچے ہل کر رہ گئے۔ ان کے بچے اتنے چھوٹے تھے کہ سمجھ نہیں آتا تھا اُن کی زندگی کیسے آگے چلے گی؟ ایسے میں میرے کمرے کی وہ چھوٹی سی لائبریری ان معصوم دُکھی بچوں کے لیے امن کا کمرہ بنی۔ وہ پانچوں بہن بھائی شوق سے آتے اور میری کہانیوں کی کتابوں میں ڈوب کر اپنا غم چاہے کچھ ہی دیر کے لیے سہی ضرور بُھلا دیتے۔ ان کی دیکھا دیکھی کالونی کے باقی بچے بھی باقاعدگی سے آنے لگے۔

میں نے خود کارڈ بورڈ پر رنگین پنسلوں سے گرفن ہال کی تصویر بنا کر ”گرفن ریڈنگ کلب“ کے کارڈ بنائے جو صرف کتابیں جاری کرنے کے لیے دیے جاتے تھے تاکہ کتابوں کی واپسی ممکن ہو سکے۔ لیکن رشید انکل کے بچوں کو خصوصی رعایت تھی کہ اگر انہیں کوئی کتاب پسند آ جاتی تو وہ اسے اپنی ملکیت بنا سکتے تھے۔ لائبریری وقت کو بہترین انداز میں گزارنے کی اعلیٰ جگہ ہے۔ یہ ایک ایسا کمرہ ہے جہاں آپ بیٹھے بیٹھے پوری دنیا کی کھوج لگا سکتے ہیں۔ میرا پکا ارادہ ہے کہ میں اب پھر سے اپنے سٹڈی رُوم کو تھوڑے بڑے پیمانے پر چھوٹی سی ذاتی لائبریری بنا کر اپنے ارد گرد کے وہ بچے جو کتابیں خرید کر نہیں پڑھ سکتے دوبارہ ”گرفن ریڈنگ کلب“ کے نام سے ابتدا کروں اور وطنِ عزیز کے بچوں میں علم کی روشنی باٹنے کا فریضہ انجام دُوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).