بارہ ربیع الاول کا پیغام


ہمارا معاشرہ بری طرح فکری، نظریاتی، سیاسی، مسلکی، گروہی اور فرقہ پرستانہ انتہا پسندی کا شکار ہے۔ مذہب، سیاست، سائنس، تاریخ، فلسفہ اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں ہم اکثر اختلاف رائے کو مخالفت اور پھر مخالفت سے بھی آگے بڑھ کر دشمنی و عداوت کی سرحدوں سے ملا دیتے ہیں۔ بات یہیں تک نہیں رہتی بلکہ اس حوالے انتقام، الزام، بہتان اور شدت پسندی کے ایسے بدترین مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں کہ قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ دین و مذہب کے نام پر کیا جاتا ہے اور جو لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر خون ریزی کا بازار گرم کرتے ہیں وہ اسلام، دین، مذہب، شریعت، فقہ جیسی اصطلاحات کے مابین فرق سے بھی ناواقف ہوتے ہیں اور جس مسئلے پر فساد برپا کرتے ہیں اس کے تمام پہلوٶں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے۔

اختلاف انسانی معاشرے کا حسن اور بنیادی اکائی ہے۔ یہ اختلاف ہمیں مذہب، سائنس، معاشرت، فلسفہ اور ادب میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ اختلاف رائے تو نبی صلعم کے اکابر صحابہٕ کرام کے مابین بھی تھا۔ چار آئمہ کرام اور ان کے بعد قائم ہونے والے مذہبی مکاتب فکر کی بنیاد بھی اختلاف رائے پر تھی۔ اسی طرح سائنسی نظریات اورمشاہدات میں بھی اختلاف رائے کی وجہ سے آج سائنسی دنیا ترقی کی اس معراج پر کھڑی ہے۔ فلسفے میں اختلاف رائے نے علم و آگہی کے نئے دروازے کھولے۔

تاریخ و ادب کے حوالے سے بھی ہمیں بیسیوں ورژن ملتے ہیں۔ یہاں مختلف شعبوں میں اختلاف کی مثالیں دینا اور تفصیلات بیان کرنے کا محل نہیں تاہم علوم و فنون کے ضمن میں بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ محققین نے ان مسلمہ نظریات و اصولوں کو مکمل طور پر مسمار کر کے اس کے ملبے پر نئے نظریے کی بنیاد رکھی ہے، جسے اپنے زمانے میں تقدس حاصل تھا اور جس کے خلاف ایک لفظ بھی کہنا زندگی کو داٶ پر لگانے کے مترادف ہوتا تھا۔

اختلاف رائے کی بنیاد ہمیشہ دلیل، برہان، تہذیب اور احترام انسانیت ہی رہی ہے۔ جب بھی آپ کسی نظریے، عقیدے، اصول، قانون یا مقدمے سے اختلاف کریں گے اس کے حق میں یہ اعتراف کرتے ہوئے نہایت مہذب انداز سے ٹھوس و مسکت دلائل پیش کریں گے کہ میرا احساس یہ ہے اور سو فیصد امکان ہے کہ میں اپنی رائے میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اختلافی و نزعی معاملات میں سمجھنے سمجھانے سے زیادہ لاحاصل بحث و تکرار، اشتعال، مبارزت، مناظرہ بازی بلکہ مجادلے کا انداز ہوتا ہے۔

ہم پہلے سے نتیجہ اخذ کر کے بیٹھے ہوتے ہیں اور یہ گمان بھی کرنا اپنے تبحر علمی کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کہ ہم غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اس پر مستزاد کہ ہمارا علم محدود، معلومات سطحی، مشاہدہ عام سا اور دلیل ناقص ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر رد عمل کی نفسیات پوری کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض حساس مذہبی و سیاسی معاملات میں بحث و تمحیص بعض اوقات سر پھٹول پر منتج ہوتی ہے۔ آدمی دوسروں کی رائے کے خلاف بے ضرر سی خیال آرائی بھی کر دے تو لوگ اسے تفرقہ بازی پر محمول کر کے لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں، خود بھلے اپنے قول و عمل سے دینی، سیاسی، سماجی اور مذہبی رواداری کا خون کرتے پھریں۔

بارہ ربیع الاول ہی کولے لیں۔ ہر سال اس موقعے پر دونوں طرف آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اب یہ معرکہ بھی سیاسی جنگوں کی طرح سوشل میڈیا پر لڑا جا رہا ہے۔ دونوں طرف ہی شدت پسندی اور اشتعال انگیزی کے ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ بھئی اگر کوئی بارہ ربیع الاول کو بارہ وفات کے بجائے جشن عید میلاد النبی صلعم کے طور پر مناتے ہوئے چراغاں کرتا ہے، کھیر، حلوے، دیگوں، حمدیہ و نعتیہ تقریبات کا اہتمام کرتا ہے تو آپ کو جز بز ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے نزدیک اگر بنیٕ محشتم و محترم کی ذات سے اظہار عقیدت کا یہی بہترین طریقہ ہے تو آپ کون ہوتے ہیں کلمہ گو مسلمانوں کو مشرک، قبر پرست، بدعتی اور ضلالت و گمراہی کا مجسمہ کہنے والے؟ آپ کے نزدیک اگر حب رسول صلعم کا کوئی اور طریقہ ہے تو شوق سے اسے اپنائیے مگر ان پر زبان طعن دراز نہ کیجیے۔

دوسری طرف اس انداز سے میلاد النبی صلعم منانے والوں کو بھی ہر گز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے فکری مخالفین پر حب نبی صلعم سے عاری ہونے کی پھبتیاں کسیں اور یہ طعنہ دیں کہ دنیا میں سوائے ابلیس کے سبھی میلاد کا جشن مناتے ہیں۔ اس حوالے سے رواداری، احترام، مروت، لحاظ اور اخوت کا وتیرہ اپناتے ہوئے ہم حب نبی صلعم کے مختلف اظہارات کو تسلیم کرتے ہوئے ہم آہنگی کی فضا کیوں نہیں پروان چڑھا سکتے؟ ہم سماجی میدان میں کھڑے ہوتے ہیں، اختلاف رنگ و بو جس کی فطرت میں شامل ہے ;معرکہ کارزار میں بر سر پیکار نہیں ہوتے جہاں حق و باطل کی جنگ برپا ہو۔ بارہ ربیع الاول ہمیں یکجائی، یگانگت، اخوت، بھائی چارے، امن، رواداری اور باہمی محبت و شفقت کا درس دیتا ہے نہ کہ نفاق، تقسیم، تفریق، شقاوت، عداوت، بے وفائی اور تفرقہ بازی کا۔ بقول شاعر

چمن میں اختلافِ رنگ و بُو سے بات بنتی ہے

تمھیں تم ہو تو کیا تم ہو، ہمیں ہم ہیں تو کیا ہم ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).