سیاست کی بند گلی کھولنی ہوگی


پاکستان کی سیاست عملی طور پر ایک نئی جہت کی متلاشی ہے۔ کیونکہ موجودہ سیاست سے وہ نتائج حاصل کرنے میں ہم ناکام ہورہے ہیں جو ہماری قومی ضرورت سمیت سیاسی اور جمہوری تقاضوں کو پورا کرسکے۔ سیاست اور جمہوریت کا بنیادی محور عام آدمی کی سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب سیاست سے جڑے تمام قیادتیں عوام کو بنیاد بنا کر ان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو مفاد بھی ان ہی سے وابستہ ہونا چاہیے۔ جب ہم اپنی قومی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو بظاہر لگتا ہے کہ ہم سیاست کی ایک ایسی بند گلی میں داخل ہوگئے ہیں جو ہمیں ترقی دینے کی بجائے پیچھے کی طرف دکھیل رہی ہے۔ جب سیاست قومی اور عوامی مفاد سے زیادہ ذاتی اور خاندانی مفاد کے گرد کھڑی ہوجاتی ہے تو اس کا نتیجہ قومی سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں کی صورت میں نکلتا ہے، جو خود بڑا خطرہ ہے۔

کسی بھی سیاسی اور جمہوری نظام میں حکومت اور حزب اختلاف ایک بنیادی کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں فریقین کی اپنی اپنی سطح پر بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کیونکہ دونوں فریقین کے درمیان جڑی سیاست ہی ہمیں بحرانوں کی سیاست سے نکال کر مسائل کے حل کی طرف لانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ہمارا قومی مسئلہ سیاسی نظام میں بداعتمادی اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست میں محازآرائی کی کیفیت بہت زیادہ بالادست نظر آتی ہے۔ مفاہمت، اصلاحات، افہام تفہیم، تدبر اور فہم وفراست پر مبنی سیاست جیسے الفاظ یا فکر محض کتابوں یا لفظوں کی حد تک رہ گئے ہیں۔ عملی سیاست کے جو تقاضے ملکی سیاست میں بالادست نظر آتے ہیں اس سے نفرت، تعصب اور دشمنی پر مبنی سیاست کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

اصل مسئلہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی دوریاں اور تلخیاں ہیں۔ حکومت کی غلطی یہ ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کی سیاسی اہمیت کو تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ خود کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ ہمیں اپنے سیاسی مخالفین کو ساتھ جوڑ کر رکھنے کی بجائے تن تنہا سیاسی محاذ پر آگے بڑھنا ہے اور حزب اختلاف کی سیاسی جگہ کو کم کرنا ہوگا۔

یہ ہی وہ غلطی ہے جہاں حکومت مخالف جماعتوں میں سخت ردعمل پایاجاتا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ حکومتی حکمت عملی میں ہمیں سیاسی دیوار سے لگانے کی حکمت عملی بالادست ہے۔ جب اس کے برعکس حزب اختلاف سمجھتی ہے کہ دو جماعتی نظام میں تیسری سیاسی جماعت کا ابھرنا اور اقتدار حاصل کرنا ان کے سیاسی مفادات سے ٹکراؤ ہے۔ سیاسی مینڈیٹ کو قبول نہ کرنا، سلیکٹیڈ وزیر اعظم اور حکومت، جعلی مینڈیٹ، یہودی حکومت جیسے نعروں کا بھی سخت ردعمل حکومتی سطح پر دیکھا جاسکتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ ہم کسی ایک فریق پر الزام لگائیں کہ اکیلی حکومت یا حزب اختلاف موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ دونوں فریقین نے اس بگاڑ کے کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے اور بدستور ڈالا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ سیاسی محاذ پر اس تدبر کے فقدان کا ہے کہ ہمیں اپنی قومی سیاست میں موجود بگاڑ کر ایک دوسرے کے تعاون اور مدد کے ختم کرنا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا اور کون بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ پہلی بڑی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے اور بحران کی سیاست کبھی بھی اس کے مفاد میں نہیں ہوتی اور صورتحال کی بہتری میں پہل بھی اسے ہی کرنی ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ وہاں ممکن ہوتا ہے کہ جہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ذمہ دارانہ سیاست کا وجود موجود ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسائل کے حل کی بڑی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔

ماضی اور حال کی سیاست میں سب نے شعوری اور لاشعوری طور پر غلطیاں کی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے قومی سیاست بگاڑ کا شکار ہے۔ لیکن مسئلہ اپنی سابقہ سیاسی غلطیو ں سے باہر نکلنا ہے۔ لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہم ماضی میں رہنے کے زیادہ عادی ہوگئے ہیں اور دوبارہ 80 اور 90 کی دہائی کی سیاست کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ سیاست، جمہوریت، انصاف اورعوام کے مفادات کو سیاسی ہتھیار بنانے کی بجائے اسے کیسے ہم اپنی سیاست کے کھیل میں بالادست کریں، یہ اہم نکتہ ہے اور اسی پر ہماری توجہ ہونی چاہیے۔

جب یہ نکتہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہماری سیاست پس پردہ قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے تو یہ خود اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔ کیونکہ ہماری جمہوری سیاست بدستور ایک ارتقائی عمل سے ہی گزر رہی ہے۔ لیکن بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس عمل میں ہم اپنی سیاست کو کیسے خود مختار بنائیں اور کیسے معاملات میں جاری سفر کو حقیقی جمہوریت کی طرف جوڑ کر ایک بہتر جمہوریت کی شکل اختیار کرسکیں۔

یہ بات سیاسی قوتوں کو سمجھنی ہوگی کہ ان کاموجودہ طرز عمل پس پردہ قوتوں کی سیاست کو کمزور کرنے کی بجائے ان کو اور زیادہ طاقت فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کی آپس کی محاذ آرائی اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی سیاسی روش کا اصل فائدہ ان ہی پس پردہ قوتوں کو ہوتا ہے جو سیاست میں بالادست ہوتی ہیں۔ اگر ہمیں واقعی پس پردہ قوتوں کا کردار ختم کرکے سیاسی کردار کو طاقت دینی ہے تو اس کے لیے پہلے سے موجود طرز عمل کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔ ایک سنجیدہ نوعیت کا مکالمہ قومی سیاست میں درکار ہے جس میں سب فریقین اپنا اپنا حصہ ڈال کر اپنے اپنے سیاسی اور آئینی کردار کو سمجھ بھی سکیں اور اسے نئی ضرورتوں کے تحت چلابھی سکیں۔ سیاسی قوتوں اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں کو اپنے اپنے رویوں اور فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

سیاست اور بالخصوص پارلیمانی سیاست میں بڑی اہمیت پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت اور اس کے تقاضے ہماری سیاسی قوتوں کو واقعی سمجھنے ہوں گے۔ کیونکہ موجودہ عمل میں پارلیمنٹ اور ا س سے جڑ ی پارلیمانی اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کا کردار کافی مایوس کن ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہماری سیاسی قیادتوں کی پارلیمانی سیاست کے مضبوط کرنے میں عدم دلچسپی ہے۔ کابینہ کے مقابلے میں چند وزرا پر مشتمل کمیٹی جسے ہم کچن کیبنٹ کہتے ہیں بالادست ہے۔

وزیر اعظم اور حزب اختلاف سمیت وفاقی وزرا پارلیمنٹ میں آنا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے سامنے جوابدہ ہونا۔ وزیر اعظم عمران خان کا رویہ بھی سابقہ حکمرانوں سے مختلف نہیں وہ بھی پارلیمنٹ میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کا عملی حصہ بنیں گے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں جو غیر جمہوری رویے یا طرز عمل کی جھلکیاں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ قومی سطح پر جمہوریت کی نیک نامی کی بجائے بدنامی کا سبب بنتی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ہماری قومی سیاست بدستور سیاسی ناپختگی اور غیر شائشتگی کا شکار ہے۔

قومی سیاست کو درست سمت میں رکھنے میں ایک بڑا کردار سماج میں موجود ان افراد یا اداروں پر ہوتا ہے جو رائے عامہ بنانے کے ساتھ ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرکے حکومت اور حزب اختلاف کے لیے بڑے پریشر گروپ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہماری سیاست کی خرابیاں ہیں یہ ہی عمل ہمیں اہل دانش اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں میں بھی غالب نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہ فریق بھی طاقت کی سیاست کے کھیل کا حصہ بن کرخود بھی بگاڑ کا حصہ بنتے ہیں اور ملک کو مشکل صورتحال سے دوچار کرتے ہیں۔ میڈیا کا موجودہ طرز عمل جس میں بحران پیدا کرنا ان کی سیاسی ضرورت بن گیا ہے اسے بھی ختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ میڈیا کا کام پہلے سے موجود بحران میں زیادہ شدت پیدا کرنے کی حکمت عملی نہیں ہونا چاہیے۔

وزیر اعظم عمران خان، نواز شریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، چوہدری برادران، اسفند یا ر ولی خان، محمود خان اچکزئی سمیت سب سیاست دانوں کو اپنا اپنا داخلی احتساب کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر اس ملک نے واقعی جمہوری عمل اور جمہوریت کے ساتھ آگے کو بڑھنا ہے تو موجودہ فکر کو تبدیل کرنا ہوگا۔ قومی سیاست موجودہ تقاضوں کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی قومی سیاست سے جڑے تمام معاملات کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور نئی جہتوں کے ساتھ قومی سیاست کا نیا بیانیہ تلاش کریں۔

یہ بیانیہ سیاسی اور معاشی استحکام اور اہل سیاست کے ذمہ دارانہ کردار سے جڑا ہونا چاہیے۔ یہ ہی اہل سیاست قوم کے اندر بھی ایسی ہی فکر کو آگے بڑھائے جس کا مقصد پورے سماج کو قومی ترقی اور جمہوریت کے دھارے میں شامل کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن کیا ہماری موجودہ اہل سیاست ایسا کچھ کرسکیں گے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب کافی مبہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).