ڈیل، استعفی اور بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ


پوری دنیا جانتی ہے میاں نواز شریف کی جسمانی حالت اس وقت سخت تشویشناک ہے۔ وہ بلڈ پریشر، شوگر اور عارضہ قلب سمیت درجن سے زائد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کی پوری میڈیکل ہسٹری پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور حکومت ہی کے قائم کردہ میڈیکل بورڈز کی زبانی بچہ بچہ سن چکا ہے۔ ویسے تو نواز شریف کی صحت پچھلے کئی مہینوں سے خراب تھی مگر چوہدری شوگر مل کیس میں نیب کی جانب سے انہیں حراست میں لیے جانے کے بعد خطرناک حد تک ابتر ہو گئی اور انہیں ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔

میاں صاحب کی بگڑتی طبیعیت کی خبریں جب میڈیا کے ذریعے ان کے چاہنے والوں اور عوام تک پہنچیں تو ملک میں تشویش و اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ ابتدا میں حکومتی ذمہ داروں کے بیانات اسی سفاکی و غیر ہمدردانہ جذبات سے لبریز تھے جس کی ان سے توقع ہونا چاہیے۔ لیکن جب عوام کے بدلتے ہوئے تیور دیکھے اور صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا تو پھر وزراء کی زبانیں متوازن ہونا شروع ہوئیں اور ان کے ہاتھ پیر بھی پھول گئے۔ اس کایا پلٹ کی وجہ یہ تھی کہ اگر خدانخواستہ میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو عوامی غیظ و غضب کا جو طوفان کھڑا ہو گا اس کا سامنا کیسے کیا جائے گا اور خمیازہ کون بھگتے گا۔

یہ خوف صرف حکومت تک محدود نہیں تھا بلکہ مقتدر لوگ بھی یہ سوچنے کو مجبور ہوئے کہ اگر خدانخواستہ میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو پنجاب کو بھی ایک بھٹو مل جائے گا۔ اسی خوف نے میاں صاحب کے لیے حالات یکسر تبدیل کر دیے۔ وہی عمران خان جن کی زبان پر ”حکومت جاتی ہے تو جائے این آر او کسی کو نہیں دوں گا اور چوروں لٹیروں کو نہیں چھوڑوں گا“ کا ورد صبح شام ہوا کرتا تھا یہ کہنے کو مجبور ہوئے کہ نواز شریف اپنی سزا بھگت رہے تھے ان سے میرا کیا لینا دینا۔

ان کو کچھ ہوا تو میری ذمہ داری کس طرح ہو گی؟ لوگ کیسے بھول سکتے ہیں کہ امریکا کے دورے میں وہ خود جیل سے اے سی اتروانے کا اعلان کر کے آئے تھے اور کابینہ کے اجلاس میں چند روز قبل تک سیاسی قیدیوں کو سی کلاس میں رکھنے کے بارے مشاورت ہو رہی تھی۔ بعدازاں اسی حکومت اور نیب کے نمائندے نے جو مخالفین کو جائز سہولت تک دینے کی روادار نہ تھی، جان کے لالے پڑے تو لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹس میں ضمانت کی مخالفت تک کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

اب نواز شریف کا نام ای سی ایل سے ہٹائے جانے کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے اور ایک دو روز میں علاج کی غرض سے وہ امریکا بھی چلے جائیں گے۔ اپنے گزشتہ بیانات اور حالیہ اقدامات کے تضاد سے ہونے والی ہزیمت سے بچنے کے لیے چند وزراء اور مخصوص صحافی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو ملنے والا ریلیف کسی ڈیل یا اسکرپٹ کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ اس کے لیے جس قسم کی تاویلیں یہ لوگ گھڑ رہے ہیں یہ کل کلاں نہ صرف ان کے بلکہ ریاست کے گلے بھی پڑ سکتی ہیں۔

کچھ دن قبل وفاقی وزیر غلام سرور خان نے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میاں صاحب اور مریم کی ضمانت کے پیچھے کچھ نہ کچھ کہانی ہے۔ آج رات ایک اور پروگرام میں ایک صحافی فرما رہے تھے۔ ”میں نے اگست میں ہی خبر دے دی تھی کہ نواز شریف کی ضمانت ہو جائے گی اور وہ باہر چلے جائیں گے“۔ میرے دوست سلیم صافی بھی اسی پروگرام میں شریک تھے انہوں نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ اگر یہ سب واقعی اسکرپٹڈ ہے اور تمام باتیں پہلے سے طے ہو چکی تھیں۔ پھر یہ بتایا جائے کہ اگست تک میاں صاحب کی حالت اتنی خراب نہیں تھی پھر اچانک وہ اتنی کس طرح خراب ہو گئی کہ جان کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ کیا یہ بھی اسکرپٹ کا حصہ تھا اور ان کی حالت بھی جان بوجھ کر کسی نے بگاڑی ہے؟

اس سوال پر اس صحافی کا جواب تھا کہ دو ہزار سولہ میں میاں صاحب کو ڈاکٹر نے کہا تھا جس ذہنی دباؤ کا آپ شکار ہیں آپ کا جسم اس کا مقابلہ نہیں کر رہا لہذا جتنا جلد ہو سکے آپ اپنے معاملات مینج کر لیں۔ یہ بات درست ہو گی مگر سوال پھر بھی موجود ہے کہ نیب کی حراست میں جانے تک میاں صاحب کی حالت اتنی بدتر نہ تھی۔ آخر اس ہفتہ دس دن میں کیا ذہنی ٹارچر ہوا کہ ان کی جان کو ہی خطرات لاحق ہو گئے۔

میں نہیں کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ڈیل ہوئی ہے یا واقعات کسی اسکرپٹ کے تحت ہو رہے ہیں لیکن کوئی بضد ہے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ ان حالات میں ڈیل کس کی ضرورت تھی؟ شیخ رشید تو کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف گلے پڑ رہے تھے اس لیے جان چھڑائی کہ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ ویسے اگر واقعتا ڈیل ہوئی بھی ہے تو وہ این آر او نہیں دوں گا اور مر جاؤں گا لیکن کسی چور لٹیرے کو نہیں چھوڑوں گا کے وعدے کیا ہوئے؟ تحریک انصاف اقتدار میں قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی پاسداری کے نعرے پر آئی تھی۔ ان وعدوں سے انحراف کے بعد اس کے پاس مزید اقتدار میں رہنے کا کیا جواز ہے؟

اگر یہ جواب ہے کہ حکومت یا عمران خان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تو پھر صبح شام این آر او نا دینے کی بڑھکیں لگانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہم ایسے تو پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان کی اتنی بساط نہیں وہ این آر او کے فیصلے کریں۔ جب بھی یہ فیصلہ ہوا تو ان سے بالا ہو گا اور وہ چاہ کر بھی اسے نہیں روک سکیں گے۔ اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے عمران خان اپنے ان الفاظ کی ہی پاسداری کریں گے کہ وہ استعفی نہیں دیں گے۔

پچھلے دنوں یہ خبریں بھی پھیلائی جا رہی تھیں کہ اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی استعفی کا تو مذاکرات میں ذکر تک نہیں کر رہی۔ میں نے جے یو آئی کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری صاحب سے اس بابت استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا۔ ہمارا بنیادی مطالبہ ہی وزیراعظم کا استعفی ہے اور ہم نہ تو اس سے ایک انچ پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی اس کے بغیر مذاکرات کا کوئی فائدہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا عنقریب ہم حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے رہبر کمیٹی کی مشاورت سے پلان بی پر عملدرآمد شروع کرنے والے ہیں۔ مزید برآں انہوں نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے جے یو آئی کی تحریک میں مزید کردار ادا کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا جس ٹی وی پروگرام کو بنیاد بنا کر یہ باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اس کے بعد بھی احسن اقبال صاحب رہبر کمیٹی سے مشاورت میں بدستور شریک ہیں۔

قارئین سے معذرت، بابری مسجد سے متعلق فیصلہ اہم معاملہ تھا اور آج کے کالم میں اس تک محدود رہنے کا ارادہ تھا۔ لیکن قومی منظر نامے پر چھائی دھند کو دیکھتے سنتے خیال کی رو بھٹک گئی اور کالم کی گنجائش یہاں تک پہنچ کر ختم ہو گئی لہذا تفصیلاً انشاءاللہ بات کریں گے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ روز بابری مسجد کیس کا جو فیصلہ دیا وہ بھارت کے سیکولر ریاست کے پراپیگنڈے کی قلعی کھولنے اور اس کے اصل متعصب چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس میں اب کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ بھارتی ریاست انتہا پسند ہندو نظریات کی نگہبان ہے اور وہاں تمام ریاستی اداروں کا مطمع نظر اسی انتہا پسند ہندو نظریے اور اس کے مفادات کی نگہبانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).