نواز شریف کیسے کامیاب ہوئے؟


یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اخباری کالم مصدقہ اطلاع نہیں ہوتے۔ یہ تو بھنگڑ خانے کی گپ ہے ۔ کچھ سنی سنائی، کچھ دل کی دہائی اور باقی روئی کی دھنائی۔ لوگ باگ مگر کچھ ایسے خوش عقیدہ واقع ہوئے ہیں کہ بے خبر کالم نگاروں کے صریر خامہ کو نوائے سروش سمجھ بیٹھتے ہیں۔ درویش بے نشاں لاکھ صنعت ایہام میں شعر کو سخن کا پردہ کرتا ہے، ایران توران کی ہانکتا ہے، کوفہ و رے کی حکایات گھڑتا ہے، سرکشی کے مدعا پر اخفائے حال کی چادر ڈال کر غالب کا اتباع چاہتا ہے، خوش ہوں کہ میری بات سمجھنا محال ہے۔ محکمہ احتساب خبر و اظہار کے کارپرداز مگر ایسے گانٹھ کے پورے واقع ہوئے ہیں کہ سات حریری پردوں کی اوٹ سے افترا کا بت سیمیں برآمد کر لیتے ہیں۔

اچھا صاحب آپ جیتے۔ وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا۔ اگر آپ کو جھاڑ کا کانٹا ہونا ہی منظور ہے تو ہمیں کون سی ایسی مشکل ہے، ہم خیال رکھیں گے کہ اپنے دیس کا کہیں ذکر نہ ہو، احوال وطن کا آشوب بیان نہ ہو۔ پھر بھی اگر کہیں جگر کی چوٹ کا کوئی اشارہ ملے تو درگزر کیجئے گا۔ اپنی زمین اور اس کے دکھ تو سانس کے ساتھ چلتے ہیں۔ بے ریا خدائی کے زمانوں میں مقاومت کی چنگاری سلگتی رہی تو اب کہ دریاؤں کے رخ بدلنے کے دن آ رہے ہیں، دھندلے کے سہاگ میں شوق کی پو پھٹنے کو ہے، داغوں کی حکایت عام ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر صحافی کا قلم اور نشریاتی لفظ خود کو پابند نے کر بھی لیں تو اپنی ساکھ ہی کھوئیں گے۔ رائے عامہ بے آبرو صحافت سے رہنمائی نہیں لیا کرتی۔، خیر کچھ ہم احتیاط کرتے ہیں، کچھ آپ چشم پوشی فرمائیے۔

تو چلیے آج سوویت یونین مرحوم کی کہانی کہتے ہیں۔ اشتراکی تجربے کی تاریخ میں کے جی بی اندرون ملک ہی نہیں، دنیا بھر میں خوف کا استعارہ تھی۔ کہنے کو یہ ادارہ اسٹالن کی موت کے بعد 1954 میں قائم ہوا اور 1992 تک عظیم روسی قوم پر ایک عذاب کی صورت مسلط رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ داخلی سیکورٹی کا بندوبست 1917 ہی میں نمودار ہو گیا تھا۔ کبھی اسے چیکا (Cheka)  کا نام دیا گیا تو کبھی NKVD کے چار حرف آدھی رات کی دستک کے مترادف قرار پائے۔

مقصد اس جھاڑ جھنکاڑ کا ایک ہی تھا کہ اندرون ملک حکومت مخالف آوازوں کی سرکوبی کی جائے، شہریوں کے سیاسی، فکری اور سماجی رجحانات کا احتساب کیا جائے، ملک کے اندر خوف کی ایسی فضا قائم کی جائے کہ کسی کو حکومتی کارکردگی کے بارے میں تنقیدی رائے قائم کرنے اور اس کی ترویج کی ہمت نہ ہو۔ ہر انحرافی آواز کو ملک دشمن قرار دیا جائے۔ اندرون اور بیرون ملک جاسوسی، ایذا رسانی اور اغوا سے قتل تک ہر ہتھکنڈا اختیار کیا جائے۔ قومی مفاد کی آڑ میں اصل مقصد مقتدر ٹولے کے اختیار کو دوام بخشنا تھا۔

جمہوریت اور آمریت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت ریاستی اداروں اور حکومت میں واضح تفریق کرتی ہے۔ ممکنہ حد تک ریاستی ادارے اپنے دائرہ کار میں آزاد ہوتے ہیں جب کہ حکومت عوامی تائید سے قائم ہوتی ہے اور ریاستی اداروں کو پالیسی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ حکومت ریاستی اداروں پر اثرنداز نہیں ہو سکتی جب کہ ریاستی ادارے حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد کے پابند ہو تے ہیں۔ باہم مشاورت پر البتہ کوئی پابندی نہیں۔ حتمی فیصلہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے لیکن حکومت ریاستی اداروں کے پیشہ ورانہ معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ نتیجہ یہ کہ ریاستی ادارے سیاسی مداخلت سے بے نیاز ہو کر اپنے طے شدہ فرائض انجام دیتے ہیں۔ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرتے اور حرف قانون کے پابند ہو تے ہیں۔ منتخب حکومت پالیسیوں اور ترجیحات کی مدد سے قومی مفاد کا تعین کرتی ہے۔

دوسری طرف آمریت میں ریاست اور حکومت کا فرق مٹ جاتا ہے۔ آمرانہ حکومت اپنے جواز، مخالف سیاسی قوتوں پر بالادستی اور شہریوں کے سیاسی اظہار کو قابو میں رکھنے کے لئے ریاستی ڈھانچوں پر انحصار کرتی ہے۔ اس کی نتیجے میں ریاستی ادارے بالخصوص سلامتی سے متعلقہ ادارے حرف قانوں کی پابندی سے آزاد ہو کر بے حد مضبوط ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنے افعال کے لئے جواب دہی کا اندیشہ نہیں رہتا۔ جواب دہی کا امکان ختم ہو جائے تو بدعنوانی جنم لیتی ہے۔ یہ بدعنوانی محض مالی خردبرد تک محدود نہیں رہتی، سیاسی، تمدنی اور معاشی ڈھانچوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔

سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے میکانکی بندوبست ہوتے ہیں۔ سیاست اور معیشت نامیاتی مظاہر ہیں۔ میکانکی بندوبست اصول ضابطے کی تنگنائے میں طے شدہ نتائج کی ضمانت دے سکتا ہے، قوم کے سیاسی اور معاشی امکان کی نامیاتی حرکیات کی پیش بینی نہیں کر سکتا۔ کے جی بی اور اس کے پیش رو ادارے ستر برس میں گیارہ کروڑ روسی شہریوں کو قتل کر سکتے تھے، فکری احتساب کی چاردیواری میں ان علمی، فکری اور سیاسی قوتوں کی پرداخت نہیں کر سکتے تھے جو معیشت کے امکانات کی مسابقت کر سکیں۔ اگر سخاروف ملک دشمن ہے تو آندروپوف معیشت کا جمود نہیں توڑ سکتا۔

گزشتہ ایک برس میں ہمارے ملک میں چند بنیادی حقائق سامنے آئے۔ جولائی 2018 میں قائم ہونے والی حکومت کو مطلوبہ پارلیمانی اکثریت تو حاصل ہو گئی لیکن معیشت کی گاڑی رک گئی۔ ایک پیج کی سرخوشی میں سیاسی عمل مفلوج ہو گیا۔ احتساب کا عمل انتقام کی بند گلی میں پہنچ گیا۔ نتیجہ یہ کہ اکتوبر کے بعد سے صرف ایک مہینے میں سیاسی قوتوں نے ایسی چومکھی یلغار کی کہ کاٹھ کے ساونت دیوار سے جا لگے۔ فضل الرحمن کی نمو دیکھئے۔ ما را از ایں گیاہ ضعیف ایں گماں نبود۔ نواز شریف کی علالت تو ناگہانی افتاد ہے۔ ان کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ سول بالادستی کا خالص آئینی قضیہ قومی منظر نامے کا بنیادی سوال قرار پا گیا ہے۔ جمہوری سپاہ نے پہل کاری چھین لی ہے اور کشتیوں کا عبوری پل ہچکولے کھا رہا ہے۔

اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے

اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).