کرتارپور راہداری اور یار لوگوں کا مذہب کارڈ


ننکانہ صاحب (تلونڈی) کے ہندوگھرانے میں 1469 کو پیدا ہونے والے بابا گرونانک کاپانچ سوپچاسواں جنم دن پچھلے روزعزت واحترام کے ساتھ منایاگیا۔ نانک بڑے خوش نصیب پیشواتھے کیونکہ وہ پوری زندگی حق کے متلاشی اورمُوحدرہے۔ کہاجاتاہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد نانک کوگھروالے کبھی مویشی چرانے پر مامورکرتے اورکبھی ان کوکاروبار کرنے کا کہاجاتا۔ بعد میں جب انہیں کھیتوں میں ہل چلانے کاکہا گیاتو حق کا متلاشی نانک بولے کہ ”میں تو اپنے تن کے کھیت میں دل چلاکر نیک کام کاشت کرنا چاہتاہوں اورجب فصل تیار ہوگی تو اس کی برکت سے پوری دنیا روشن ہوجائے گی“۔

حق کی تلاش میں نانک سالہاسال تک پیہم سفرمیں رہے اور مختلف ملکوں اور علاقوں کے اسفار کیے۔ کبھی آسام اور تبت میں حق کی روشنی بانٹتے اورکبھی دہلی، اڑیسہ، کشمیر، لاہور اور پشاور کا رخ کرتے۔ یہاں تک کہ بغدادکی خاک بھی چھان لی اورمکہ ومدینہ جاپہنچتے۔ تاہم ان کی آخری آرام گاہ کرتارپور ٹھہری جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے اور پندرہ سو اڑتیس کو اپنے حقیقی خالق سے جاملے۔ نانک کے مریدوں میں صرف ہندو نہیں بلکہ مسلمان اوردیگرمذاہب بھی شامل تھے۔

سکھ مذہب کی تدوین ان کی موت کے بعدمیں ان کے سچے تعلیمات کے نتیجے میں ہوئی اور آج پوری دنیا میں اس مذہب کے کروڑوں پیروکار موجودہیں۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد کرتارپورمیں بابانانک کا گردوارہ پاکستان کے حصے میں آیاتوہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں رہنے والے سکھ اپنے محبو ب پیشوا کے گردوارے کی زیارت سے محروم ہوئے۔ لیکن آج بہترسال بعد 9 نومبرکوسرحدپار سکھوں کے لئے اپنے پیشوا کے گردوارے پر درشن کاراستہ کھل گیا۔

سکھوں کو نانک کے قیام گاہ تک آنے کی سہولت فراہم کرکے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر نوید باجوہ نے اس اقدام سے نہ صرف سکھوں کے دل جیت لیے بلکہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی عالمی سطح پر ملکی ساکھ کو بھی بہتر بنایا۔ غیرمسلموں اور اقلیتوں کے ساتھ رواداری اور ان کے مذہب کا احترام کرنا اسلام کے بنیادی تعلیمات کا اہم جزو ہے۔ کرتارپور راہداری کھولنے پر مجھے آج خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق کا وہ تاریخی معاہدہ یاد آتاہے جب فتح ِبیت المقدس کے بعد انہوں نے عیسائیوں کے ساتھ کیا تھا۔

تاریخ کی کتابوں میں جب بھی میں فاروق اعظم کاعیسائی اقلیت کے ساتھ اس تاریخی معاہدے کا متن پڑھتاہوں تو میں اپنے مذہب کے راہنما اصولوں پرفخرکرتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھتاہوں۔ یہ معاہدہ حضرت عمر فاروقؓ کی موجودگی اور ان ہی کے الفاظ میں لکھاگیاجس کے ابتدائی حصے کاعربی متن میں یہاں اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرناچاہتاہوں، ہٰذا ما اعطیٰ عبداللہ عمر امیرالمومنین اھل ایلیامن الامان اعطاھم اماناًلانفسہم واموالہم وصلبانہم وسقیمہا بربہا وسائر ملتہ، انہ لایمکن کنائسہم ولا تہدم ولا ینقض منہا ولا من حیز ہا ولا من صلبہم ولا من شی من اموالہم ولا یکرہون علی دینہم ولا یضارا احد، (الی آخرہ) ۔

ترجمہ: یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان و مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے، نہ ان کے گرجاوں میں سکونت اختیار کی جائے گی نہ وہ ڈھائے جائیں گے نہ ان کو اور ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہیں کیاجائے گا ناہی ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایاجائے گا ”۔

فاروقی ؓ معاہدے میں غیرمسلموں سے یہاں تک رعایت کی گئی ہے کہ مسلم ریاست میں ذمیوں کی جان اور مال کو مسلمانوں کی جان اور مال کے برابر قرار دیاگیاہے۔ یعنی کوئی مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کرتاتھا تو عمرفاروقؓ فوری طور پر اس کے بدلے مسلمان کو قتل کردیتے تھے۔ کرتار پورگوردوارہ بھی سکھ کمیونٹی کے لئے اتنا اہم اور مقدس ہے جتناہمارے لئے بیت اللہ اور عیسائیوں کے لئے ایلیامقدس تھا۔ اس راہداری کا گزشتہ دنوں 9 نومبرکوباقاعدہ طور پر افتتاح کیاگیا یوں سکھ یاتری اب سرحد کے اس پار اپنے پیشواکے گردوارے کودیکھنے کے بجائے براہ راست یہاں آکر انہیں خراج عقیدت پیش کرسکیں گے۔

اس راہداری کی سہولت دینے پر مولانا فضل الرحمن صاحب خوشی سے جھوم اٹھنے کے بجائے الٹا سیخ پا نظرآتے ہیں۔ معقول مولانا عجیب غیرمعقول دلیل دیتے ہیں کہ کرتارپورکاراستہ دراصل قادیانیوں کو راستہ دینا اور انہیں فیلیسی ٹییٹ کرناہے۔ اس بارے میں وہ وزیراعظم عمران خان پر خود بھی برستے ہیں اور اپنے مریدوں سے بھی عمران خان پر فتوے لگواراے ہیں۔ حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ کرتارپوری راہداری کی تجویزمیاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت اسی وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی دی تھی۔

بعد میں کارگل ایشو اور نواز شریف حکومت ختم ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے پش منظرمیں چلاگیا۔ اسی طرح پرویز مشرف دور میں بھی اس راہداری پر بات ہوئی اور پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت میں بھی یہ راستہ زیربحث آیاتھا۔ قادیانیوں کواس راستے سے سہولتیں دینے کے دعوے محض ہوائی باتوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس بارے میں جناب اوریا مقبول جان کا چند روزپہلے شائع ہونے والا کالم قارئین کی بہتر رہنمائی کرسکتاہے جو خود بھی ایک اینٹی قادیانی اور راسخ العقیدہ محب رسول ﷺ ہیں۔ بہرحال اس راہداری کے کھولنے کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کے حصے میں آیا جس پر وہ صد مبارک باد کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).