ک کشمیر اور ک کرتار پور؟


پاکستان اور بھارت میں سب چلتا ہے۔ صبح لائن آف کنڑول پر بم چلتے ہیں دونوں طرف سے گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ اور شام کو واہگہ بارڈر پر دونوں ممالک کے چاق و چوبند دستے اپنے اپنے قومی پرچم کو سلامیاں پیش کرتے ہیں۔ یہ سب روز مرہ کا حصہ ہے اس سب میں دلچسب خوفناک اور فکر انگیز بات یہ ہے۔ کہ کشمیر جو دونوں ممالک کے درمیان فتنے کی جڑ ہے۔ اس کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر پر گولی باری کے تبادلے سمیت تجارت بھی چلتی رہتی ہے۔

تیتری نوٹ کراسنگ پوئیٹ اور چکوٹھی پر ٹرکوں کے آنآنے جانے کا سلسلہ رکتا نہیں ہے۔ جو اس بات کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے کہ دونوں ممالک مشترکہ معاشی ضروریات کے پیش نظر ایک دوسرے پر موجود انحصار ختم نہیں کرسکتے۔ آپ اسے یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت انتہا کے حریف ممالک ہونے کے باوجود اک دوسرے کے ساتھ بیشتر معاملات ترجیحی بنیادوں پر چلانے پر مجبور ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد دو طرفہ ہجرت کے باعث بڑے پیمانے پر خاندان اور پھر نسلیں جدا ہوئیں۔ اک جانب پنجاب تقسیم ہوا تو وہیں انگریزوں کی قائم کی ہوئی ڈیورنڈ لائین جو برطانوی ہند کے قیام تک پختونوں کو اک دوسرے سے ملنے کی کھلی اجازت دیتی تھی۔ اب قیام پاکستان کے بعد ان پختونوں کی آزادانہ تقل و حمل بھی محدود ہوئی۔ القصہ مختصر یہ کہ تقسیم ہند نے کئی اقوام کو تقسیم کیا جس پر وہ تمام اقوام تاحال نوحہ کناں ہیں۔ اسلام آباد میں آج کل خوب تناؤ کا ماحول ہے۔

گزشتہ حکومتوں کا حصہ رہنے والی جمیعت علمائے اسلام اب کی بار اس طرح سے حکومت کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے یہی شکوہ لیے وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اور پچھلے بارہ روز سے اسلام آباد کے پشاور موڑ پر دھرنہ دیے بیٹھی ہے۔ اس تناظر میں ہمارا بھی جانا ہوا اور مرکزی کینٹینر پر پشتون خواہ ملی عواملی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ سے کچھ سوالات کرنے کا موقع ملا۔ کشمیر کے سوال پر انہوں نے صاف کہا کہ ہمارے وزیر اعظم نے نریندر مودی کی کامیابی کی خواہش ظاہر کی تھی۔

اور وہ کامیاب ہو گے۔ لے دے کر کشمیر کا سودا کر دیا گیا۔ ساتھ ہی وہ جذبات پر قابو نہ لاپائے اور دل کی بات زباں تک لے آئے کہتے ہیں۔ وفاقی حکومت اک جانب پنجاب کے مقتدر طبقات سے گھری ہوئی ہے۔ تو وہیں پنجابی سکھوں کی سہولت کے لیے اب کرتار پور راہداری کو کھولنے جا رہی ہے۔ لیکن حکومت رواداری کا پیمانہ براربر رکھے پختونوں کو سرحد کے اس پار اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے ویزا پاسپورٹ کے بنا جانے کی اجازت نہیں۔

جبکہ پنجابی سکھوں کو بغیر ویزہ پاسپورٹ کے ان کے مذہبی مقام تک رسائی دے دی گئی ہے۔ جو حکومت کے نظریہ رواداری پر اک بڑا سوال ہے۔ منقسم پختون خاندانوں اور منقسم کشمیریوں کو ایک دوسرے کی مثال کے طور پیش تو نہیں کیا جا سکتا۔ مگر وفاقی حکومت کے نظریہ روادری کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر بحث ضرور کی جا سکتی ہے۔

پاک بھارت دونوں حکومتیں یقنی طور پر اپنے درمیان ترجیحات کی بنا پر تعلقات بحال رکھنے پر یقین رکھتی ہیں۔ 5 اگست کے بعد جب سے ریاست جموں کشمیر کی جغرافیائی ہیت تبدیل ہوئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کرنے کے اقدامات کیے گئے تھے۔ جو عارضی ثابت ہوئے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ کسی بھی قوم کی مذہبی رسومات قابل احترام ہیں اور اس کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں۔ کرتار پورہ بھی سکھوں کے لیے ایسا ہی ہے جسیے مسلم قوم کے لیے نبی پاک کا روضہ اور شہر مسدینہ ہیں۔

وفاقی حکومت کا یہ اقدام اپنے ہاں بحث طلب حقایق رکھتا ہے۔ لیکن حالیہ صورتحال میں پاک بھارت اس پیش روفت پر مسئلہ کشمیر بھی زیر بحث ہے۔ ناقدین حکومت کے اس اقدام کو یک طرفہ رواداری کا رویہ قرار دے رہے ہیں۔ تو وہیں کشمیر میں بھارتی بربریتاور اس کا تشخص تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام پر حکومت پاکستان کی بے بسی پر بھی تنقید جاری ہے۔ اس وقت بھارت سمیت دنیا بھر کی سکھ برادری وزیر اعظم عمران خان کے اس اقدام پر بے حد خوش ہیں۔ کہ تقسیم کے بعد اک بڑے عرصے سے جو سکھ برادری کرتارپور پر اپنی مذہبی رسومات کیادائگی سے محروم تھی اب وہ محرومی ختم ہو چکی ہے۔

اس سب کہانی میں کشمیریوں کا رونا یہ ہے۔ کہ 31 اکتوبر کے بعد بھارت نے کشمیر کی ریاستی حثیت ختم کر کے اس کو بھارتی یونین میں شامل کر دیا ہے۔ اس سب کو ہوئے صرف ایک ہفتہ سے کچھ دن زیادہ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے پھر بھی بھارت کی جانب نرم رویہ اپنایا گیا اس سے معلوم یہی پڑتا ہے ہے کشمیر کا ک خون سے عبارت ہے مگر کرتار پورہ کا ک امن کے سفید رنگ سے عبارت ہے، تو اس سب میں مملکت پاکستان کی ترجیحات واضح طور پر عیاں ہوتی نظر آرہی ہیں۔

کشمیر پر پاکستان کی وکالت اور سفارتکاری کے پہلو اپنی جگہ برقرار اور مقدم۔ مگر کشمیریوں میں یہ باز گشت ہے۔ کہ حکومتی رویہ اور چال چلن یہی بتاتے ہ ہیں۔ کہ دونوں ممالک کے بالادست طبقے میں شاید یہ طے ہے کہ لاین آف کنٹرول پر فائیرنگ کب ہونی ہے۔ اور کتنی دیر ہونی ہے اور کس کس کس پوانٹ کو نشانہ بننا ہے۔ تتیتری نوٹ اور چکوٹھی پر تجارت کب روکنی اور کب چلنے دینی ہے۔

ہاں البتہ واہگہ پر روزانہ شام پرچم اتارنے کی تقریب اور سلامی ضرور ہو گی۔ چونکہ یہ ہندوستان اور پاکستان ہیں۔ یہاں ان دونوں کے بیچ امن کی آشا جانے کب چلتی ہے اور نفرت کی بھاشا جانے کہاں سے آتی ہے۔ بحرطور کشمیر جیسے حل طلب انسانی مسئلہ کو پس پشت ڈال کر بھی اگر دونوں ممالک میں امن کی کلی کھلتی ہے تو شاید گھاٹا نہیں ہے۔ ہاں البتہ کشمیری اب وکیل کی بحث کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ چونکہ شاید وہ جان چکے ہیں کہ عدالت میں وکیل کمزور پڑ چکا ہے۔ دلائل کمزور ہیں اور ہاں یہ بھی واضح ہے کہ لفظ کشمیر خون سے عبارت ہے جو جم چکا ہے اور کرتار پورہ امن کی سفید روشنائی سے لکھا جا چکا ہے، جس کی چمک دھمک قدرے زیادہ اور اہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).