جمرود قلعہ کی مسافت لاہور سے شروع ہوتی ہے۔


پشاور اور خیبر ایجنسی کے سرحدوں پر واقع ”جمرود کا قلعہ“ درہ خیبر کی تاریخ کا واحد سنگ میل ہے جس کی مسافت لاہور سے شروع ہوتی ہے اور جمرود تک ختم ہوتی ہے، ورنہ وقت نے ہمیشہ فاصلے کو کابل سے ناپا ہے۔

جرنیلی سڑک المشہور جی ٹی روڈ کی تاریخ واضع ہے کہ پشاور، لاہور اور دہلی کو فتح کرنے والوں نے ہمیشہ باب خیبر کو کابل سے آتے ہوئے کراس کیا ہے جبکہ لاہور سے خیبر کی طرف سفر صرف اشوک اعظم اور پنجاب کے مہاراجا رنجیت سنگھ نے ہی کیا ہے۔ راجا رنجیت سنگھ کے لیے یہ سب کچھ کر دینا اس کے بہادر اور دلیر جنرل ہری سنگھ نلوا کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ جس نے پنجاب کے ہزار سالہ ماتحت پسند مزاج تک کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔

1791 میں گجرانوالہ کے علاقے مجھا میں کھتری قبیلے کے گردیال سنگھ اپل اور شریمتی دھرم کور کے گھر میں پیدا ہونے والے ہری سنگھ نلوا نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی تھی۔ 10 سال کی عمر میں یتیم ہوا تو دو سال کے اندر 12 سال کی عمر میں گھڑسوارے کرتے اپنی تمام زمینیں اور ملکیت سنبھالنے لگ گیا۔ سکھ فوج میں شامل ہوا تو کمال در کمال کرتا رہا۔ ملتان سے لے کر کشمیر، ہزارہ اور پشاور تک کو سکھا شاہی میں شامل کرنے کا سہرا اسی جری جرنیل کو جاتا ہے۔ جنرل ہری سنگھ نلوا نے ہی نے قصور کو 1807، اٹک کو 1813، ملتان کو 1818، شوپیاں کو 1819، منکیرہ کو 1812، منگل کو 1812، نوشہرہ کو 1823، سریکوٹ کو 1842، پشاور کو 1834 اور جمرود کو 1837 میں فتح کرکے سکھا شاہی میں شامل کردیا۔

1837 ع میں جب ہری سنگھ نلوا پشاور سے آگے پہاڑوں کی طرف نکلتے درہ خیبر کے پاس پہنچا تو انہوں نے پہلے بار قبائلی علاقوں میں درہ خیبر کے اہم مرکز جمرود کو فتح کرلیا، تب انہوں نے اپنی اس عظیم فتح کی یاد میں ایک قلعہ تعمیر کروانے کا اعلان کیا، مگر بہت زیادہ خرچہ ہوجانے کے خیال سے راجا نے اس قلعے کی تعمیر کو ناممکن سمجھتے ہوئے اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود جنرل ہری سنگھ نلوا نے یہ قلعہ بنانے کا فیصلہ کیا اور پوہ کی 6 تاریخ 1893 ع بمطابق 18 دسمبر 1836 ع کو خود ہی اس قلعہ کا بنیاد رکھ دیا، اور کمال یہ ہوا کہ جنرل کے سپاہیوں نے یہ پورا قلعہ صرف 54 دنوں میں بنا کر مکمل کردیا۔ جنرل ہری سنگھ نے تین میٹر تک چوڑی دیواروں اور بلند برجوں والے اس قلعے کا نام ”فتح گڑھ“ رکھ دیا مگر تاریخ ہمیشہ چیزوں کو علاقے، بولی اور خمیر سے یاد رکھتی ہے یہ ہی وجھ ہے کہ اس قلعے کو ”قلعہ جمرود“ کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔

زندگی کے آخری دنوں میں نہ جانے ہری سنگھ نلوا کو کیا سوجھا کہ انہوں نے جمرود میں موجود اپنی فوج کے بڑے حصے کو بھی راجا رنجیب سنگھ کے پوتے نونہال سنگھ کی شادی کے جشن میں شامل ہونے کے لئے لاہور اور امرتسر بھیج دیا۔ ورنہ پورے سکھ دور کے سب سے زیادی زیرک اور بہادر جرنیل ہری سنگھ نلوا کبھی گھاٹے کا نہ سودا کرتا تھا اور نہ فیصلہ۔ اصل میں انہوں نے راجا رنجیت سنگھ کی خواہش پر پنجاب اور سرحدی علاقوں کے تمام قلعوں سے زیادہ تر فوجی نکال کر محض اس لئے لاہور اور امرتسر بھیج دیے کہ راجا رنجیت سنگھ اپنے پوتے کی شادی میں مدعو برطانوی فوج کے کمانڈر انچیف کے سامنے اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت جنرل ہری سنگھ نلوا خود پشاور کے قلعے بالا حصار میں اور اندازن 600 فوجی جوان جمرود کے قلعہ میں موجود تھے۔

تب پیچھے سے اک برطانوی سرکاری کارندہ مسٹر فاسٹ جو کسی کام سے کابل جا رہا تھا نے یہ بات دوست محمد خان کے بیٹے محمد اکبر خان پٹھان کو بتا دی کہ قلعہ خالی ہے، سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوا بھی پشاور میں ہے جو شہر اس نے آپ کے باپ سے چھینا تھا اور جمرود میں بھی بس تھوڑے جوان موجود ہیں۔ محمد اکبر خان نے موقعہ غنیمت جانا اور جمرود پر چڑھ دوڑا، اس نے 30 اپریل 1838 ع کو کئی افغان قبائل کے ساتھ جمرود کے قلعے پر حملہ کردیا۔

اطلاع ملنے پر ہری سنگھ نلوا بھاگ جانے کے بجائے پشاور میں موجود سپاہی لے کر جمرود پہنچ گیا۔ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دوران جنگ ایک قاصد کے ہاتھوں مہاراجا کو مدد کے لئے خط بھی بھیجا، مگر کہتے ہیں کہ راستے کے ڈوگرہ سرداروں نے اس خط اور قاصد کو لاہور کے شاہی قلعے تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ اس دوران لڑتے لڑتے جنرل ہری سنگھ نلوا سخت زخمی ہوگئے، تب انہوں نے اپنی بیٹوں اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ اگر وہ مر بھی جائے تو یہ بات قلعے سے باہر نہیں نکلنی چاہیے جب تک مدد کے لئے دوسرہ لشکر نہ پہنچ جائے۔ بالآخر کافی دنوں کے بعد ایک قمق آن پہنچی اور قلعہ قبضے سے بچ گیا مگر ہری سنگھ نے اسی قلعے میں جان دی پر قلعہ نہیں دیا۔

پٹھانوں کے لئے ہری سنگھ کی موت تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تھی، ورنہ جنرل ہری سنگھ کا اگلا پڑاؤ جلال آباد تھا اور کابل تو اس کی آخری خواہش تھی۔ وہ شاید افغانوں سے تاریخ کے سب حساب چکتو کرنا چاہتا تھا، پنجاب کی تاریخ کا یہ واحد جرنیل تھا جنہوں نے ہزاروں سالوں کی تاریخ کی اس کالک کو دھو کر صاف کیا تھا کہ ”پنجابی صرف کرائے کا ایسا ٹٹو ہے، جو ہر آنے والے حکمران کے لئے کامیابی کے شادیانے بجاتا ہے اور جانے والے حکمرانوں کو گالیاں دیتا ہے۔ “

جمرود سکھا شاہی کے انگریز راج کے نگیں آیا مگر آج اس وقت بھی وہ ہی جمرود ہے اور وہ ہی آفریدی پٹھان، جمرود قلعہ اس وقت پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور وہاں موجود ہری سنگھ نلوا کی ایک یادگار یہ بتاتی ہے کہ طاقت اور اختیار کسی مستقل چیز کا نام نہیں، مستقل صرف قومیں ہوتی ہیں، وہ قومیں جو اپنی تاریخ، روایات، دھرتی اور بولی سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ جیسے پٹھان، جیسے سندھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).