ملا نصرالدین کا گھڑا اور ہماری سیاست


ایک مرتبہ مُلاّ نصرالدین نے اپنے پڑوسی سے ایک گھڑا ادھار لیا۔ لیکن جب واپس کیا تو گھڑا تڑخاہوا تھا۔ اس بات پر دونوں میں تکرار طول پکڑ گئی اور طے پایا کہ قاضی کے پاس جا کر فیصلہ کروایا جائے۔

قاضی کے پاس پہنچنے پر قاضی نے پہلے پڑوسی کی بات سنی۔ پھر مُلا سے مخاطب ہوا اور مُلا کا مؤقف جاننا چاہا۔ اس پر مُلا نے جو کہا وہ کچھ یوں ہے۔

”پہلی بات تو یہ کہ میں نے گھڑا اس سے لیا ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ جب میں نے واپس کیا تو گھڑا بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ اور تیسرے یہ کہ جب میں نے اس سے گھڑا لیا تو وہ پہلے سے تڑخا ہوا تھا“

یہ واقعہ مجھے تحریک انصاف کے حامیوں کے پہلے کلثوم نواز کی بیماری اور پھر ان کی وفات کے متعلق دے گئے بیان کو سن کر یاد آیا۔ یعنی پہلے انہوں نے کہا کہ ن لیگ کلثوم نواز کی بیماری پر سیاست کر رہی ہے جبکہ کلثوم نواز بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ کلثوم نواز بیماری کا ڈرامہ کر رہی ہیں۔ پھر دوبارہ بیان آیا کہ کلثوم نواز کا تو دو ماہ پہلے انتقال ہو چکا اب صرف لاش پر سیاست ہو رہی ہے۔ لیکن کب انتقال ہوا اور کب خبر آئی، یہ کسی سے اوجھل نہیں۔

یہی کچھ اس وقت نواز شریف کی صحت کے متعلق بیان بازی پر ہو رہا ہے۔ لیڈر کہتا ہے کہ این۔ آر۔ او نہیں دوں گا۔ پارٹی فالوئرز کہتے ہیں ڈیل ہو گئی ہے۔ حکومتی ڈاکٹرز کہتے ہیں صحت بہت بگڑی ہوئی ہے، یہاں علاج ممکن نہیں۔ بعض لوگوں کا مؤقف ہے کہ نواز شریف ڈرامہ کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ کئی میلین ڈالرز کے اعداد و شمار بھی گردش کر رہے ہیں کہ جتنے میں ڈیل ہوئی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ دس ارب ڈالر میں معاملہ طے پایا ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ پندرہ ارب ڈالر میں ڈیل فائنل ہوئی ہے۔

تحریکِ انصاف کے حامیوں کا اپنی موجودہ قیادت پر اعتماد کا واحد سہارا اس وقت نواز شریف اور پوری ن لیگ کو کرپٹ ثابت کرنا ہے۔ اس کے لئے تحریک انصاف اور تمام مقتدر حلقے اپنا اپنا کردار ”نیک نیتی“ سے نبھا رہے ہیں۔ لیکن اہداف کے حصول میں صرف نیک نیتی کا عمل دخل ہی نہیں ہوتا بلکہ اہلیت کی شراکت داری بھی لازم ہوتی ہے۔ اس معاملے میں بھی تحریک انصاف اپنی نا اہلی کے باعث باقی معاملات کی طرح بری طرح ناکام اور الجھن کا شکار ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

یہ صرف تحریک انصاف پر ہی الزام نہیں لگایا جا سکتا بلکہ من حیثیت القوم ہمارا اجتماعی رویہ یہی ہے کہ چیزوں کو سوچے سمجھے بغیر پہلے ہی وار میں حق الیقین کے درجے پر رکھ دیا جاتا ہے۔ علمی بحث ہمارے مزاج کے خلاف ہے، شائستگی سے کیے جانے والے اختلاف سے ہم ویسے ہی عاری ہیں۔ ہمیں بنے بنائے تاثرات بآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ ہماری پسندیدہ شخصیات کے الفاظ ہمارے نظریات کی تشکیل میں ہماری مدد کر دیتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس پر بھی اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرنا پڑتا (وہ علیحدہ بات ہے کہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے پہلی شرط صلاحیتوں کا موجود ہونا ضروری ہے ) ۔ موجودہ سیاسی حالات میں اسی اجتماعی نفسیات کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا جس کے نتیجے میں قوم ”پٹواریوں“ اور ”یُوتھیوں“ میں تقسیم ہو گئی۔ آج ان دونوں مخلصین کے پاس ایسی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں جس پر اپنی پارٹی، اپنے لیڈر اور اپنے نظریات کا دفاع کرنے کے لئے کوئی علمی، عقلی اور منطقی بیانہ موجود ہو۔

عالم کے پروردگار نے اپنی رحمت سے نا امیدی کو ناپسند فرمایا ہے، لیکن پاکستان کے موجودہ سیاسی کے تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درد دل رکھنے والے نا چاہتے ہوئے بھی نا امیدی کے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں کیونکہ بانجھ معاشرے میں امید کی کسی کرن کا کوئی امکان نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).