نانی اماں اور ان کی جلدی کتابوں کے ٹرنک


ان دنوں ویک اینڈ جمعرات کو ہوا کرتا تھا اور اپنے دور کے بہت سے بچوں کی طرح ہمارا رخ بھی اپنی نانی اماں کے گھر کی طرف ہوتا جن کو سب ”اماں“ کہاں کرتے تھے۔ جب حالات ہر طرف سازگار ہوتے اور بڑوں اور رشتے داریوں میں روٹھنے منانے کا کوئی سلسلہ نہ ہوتا تو چھٹی کے دن سب کی دوڑ اماں کے گھر کی طرف لگتی، اماں خاصی شوقین تھیں۔ بڑھاپے کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آدمی کی بہت ساری عادتیں اور چیزیں فکس ہو جاتی ہیں اور کوئی ان کو چھیڑے یا اس میں دخل اندازی کرے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔

ان کی بھی کچھ چیزیں ایسی ہی تھیں جیسے لاؤنج کے کونے پہ ان کے پاندان کی چھوٹی سی میز کے ساتھ لگی سفید بنی ہوئی کرسی۔ لاؤنج میں بہت سی ایسی کرسیاں تھیں لیکن اماں کی کرسی پہ صرف اماں ہی بیٹھتی تھیں جہاں سے راہداری کے پار سیدھ میں گھر کا دروازہ سامنے نظر آتا۔ بالکل ایسے ہی ان کا سفید نواڑ کا پلنگ جس کو کبھی کبھی کسی کے ساتھ ملکے وہ اپنے ہاتھوں سے کسا کرتی تھیں۔ اس کے سرہانے ایک اورپلنگ اور کمرے میں بڑا سا تخت بچھا رہتا، ان کے کمرے میں ماموں نے اے سی لگوا دیا تھا اس لیے بھری دوپہروں میں چھوٹی بڑی ساری خلقت جمع ہوجاتی، دروازوں کے نیچے پرانی چادریں ٹھونس دی جاتیں، تخت، پلنگ سب بھر جاتے اور بچی کھچی جگہ پہ بستر لگ جاتے لیکن اماں کا پلنگ بس انہی کے لئے مختص رہتا جس پہ جب وہ کروٹ لے کے منہ پہ اخبار ڈھک کے قیلولہ کرتیں تو سب تھوڑی دیر کے لئے باہر کھسک لیتے۔

نانا گزر چکے تھے وہ کے ڈی اے میں اچھے عہدے پہ تھے جس کی بدولت یہ سرکاری فلیٹ الاٹ ہوا تھا، گھر پرانی طرز کا تھا لیکن باؤنڈری بہت بڑی تھی آگے پیچھے بڑی ساری کھیلنے کی جگہ اور بڑی بڑی چھتیں، پیچھے کی طرف گیراج اور سرونٹ کواٹر بھی بنے ہوے تھے اور ان سے پرے بادام اور بیری کا گھنا پیڑ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس پہ اثر ہے، گھر کے آسیب زدہ ہونے کی بھی بہت ساری کہانیاں تھیں لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ سب مل کے پارٹی کرتے، کھاتے پیتے، کھیلتے کودتے اور پھر بھوت پریت کی باتیں کر کر کے ہم بچوں کا خون خشک کرتے جن سے ہم خواہ مخواں ہی سہمے سہمے رہتے، اندھیرے میں باورچی خانے میں یا دروازہ کھولنے جانا پڑ جاتا تو ساری کہانیاں تازہ ہوجاتیں۔

ان کہانیوں نے ایک عرصہ خوف زدہ رکھا۔ اماں خاندان کی بڑی تھیں اور پکانے اور کھلانے کی شوقین۔ چھٹی کے دن ہمارے علاوہ بھی رشتے داروں کا آنا جانا لگا رہتا اس لیے سب دوستوں کے جمع ہونے کا بھی انتظار ہوتا۔ جب پاے اور حلیم کی بڑی بڑی دعوتیں ہوتیں تو گویا عید ہی ہو جاتی۔ سردیوں میں باورچی خانہ گاجر اور سوہن حلوے کی خوشبو سے مہکا کرتا۔ ان کے پکاے ہوے کھانے اور سوہن حلوہ خاندان بھر میں مشہور تھا۔ ہم بچے یہ سب سیکھنے کی عمر میں نہیں تھے ہمیں تو اماں کی دوسری چیزیں اچھی لگا کرتیں جیسے ان کا جہازی سائز کا لوڈو جس پہ وہ پلاسٹک کا کوور چڑھا کے رکھتیں اور جس کو ان کی سپر وژن کے بغیر کسی بچے کو چھونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

کبھی کبھی تاش اور کیرم کی بازی بھی لگتی لیکن ان کا ایک شوق سب پہ بھاری تھا اور وہ تھے ان کے رسالے اور کتابیں۔ بہت پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن اردو پڑھ لیتیں تھیں ہماری امی ان کا احسان مانتی ہیں کہ انہونے دادا یعنی اپنے سسر سے بغاوت کر کے اپنی بیٹیوں کو کالج بھیجا تھا۔ جمعے کی صبح صبح جب ہلکی پھلکی کھٹ پٹ سے آنکھ کھلتی تو وہ اپنے بڑے بڑے بٹنوں والے ہلکے سرمئی کوٹ پہ سفید دوپٹہ پہن کے ٹوکری لئے سودا لینے جا رہی ہوتیں۔

جب تک اماں واپس آتیں ہماری آنکھیں پوری کھل چکی ہوتیں اکثر اخبار والے سے بچوں کا کوئی رسالہ خرید لاتیں ”گڑیا ذرا دیکھنا یہ نیا رسالہ آیا ہے“ (یہ متروک ہوا نک نیم ان سے یا بھائی صاحب سے ہی سننے کو ملتا) وہ ”خزانہ“ کا پہلا شمارہ تھا۔ انھیں کتابوں کی جلدیں بنانی بھی آتی تھیں جس کی لئی بھی وہ خود پکاتیں۔ گتے اور کپڑے کو جوڑ کے پھولدار پیپر چڑھا کے بہت صفائی سے تمام کتابوں اور رسالوں کی جلدیں بنا دی جاتیں اور پھر ایک سفید کاغذ کا ٹائٹل چپکا کے کتاب کا نام لکھ دیا جاتا یوں یہ خزانہ ایک لمبے عرصے کے لئے محفوظ ہو جاتا اور کئی ہاتھوں سے گزرنے کے بعد بھی کتابیں اپنی اصل شکل میں موجود رہتں۔

امی ابّا نے بھائیوں کو جتنی کتابیں دلوائی تھیں وہ سارا کا سارا جلد شدہ ورثہ کچھ عرصے بعد ہمارے ہاتھ آیا، داستان امیر حمزہ، عمرو یار، ٹارزن سیریز، محمود، فاروق فرزانہ اور انسپکٹر جمشید اور فیروز سنز کی ڈھیروں ناولیں جن کے صفحے زرد ہو چکے تھے لیکن یاد نہیں پڑتا کسی کا سرورق غائب ہو یا صفحہ پھٹا ہو۔ پہلی ”پہیلی“ سے تعارف بھی اماں کی توسط سے ہوا وہ جمعے کے ایڈیشن میں بچوں کا صفحہ ہاتھ میں لئے پوچھ رہی تھیں ”گڑیا یہ پہیلی بتاؤ“

چھوٹی سی ڈبیہ ٹپ ٹپ کرے

چلتا مسافر گر گر پڑے

”یہ پہیلی کیا ہوتی ہے؟ “ ہم نے پلٹ کے سوال کیا۔ پھر اماں نے پہیلیاں سمجھائیں اور ہم اب تک بوجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تھوڑے عرصے بعد اماں کی کتابوں کا ٹرنک بھی ہمارے لئے کھل گیا، اے آر خاتون کا ”شمع“، ”افشاں“، زبیدہ خاتون کا ”عروسہ“ (ان دنوں عروسہ ڈرامہ بھی نیا نیا آیا تھا) اور دوسرے بہت سے ناول۔ ہم خوش خوش وہ کتابیں گھر لاے اور اتراتے ہوے سامنے رکھیں کہ سب کو احساس دلا سکیں کہ اب ہم بڑے ہوگئے ہیں۔

قسمت خراب کہ بھائی صاحب کی نظر پڑ گئی اور خوب جھاڑ پڑی کے آئندہ یہ کتابیں نظر نہ آیں، پھر واقعی وہ کتابیں نظر نہیں آییں کیونکے وہ سب ہم نے چھپا کے پڑھ لیں ، اس سے یہ سیکھا کہ ٹوین اور ٹین ایج میں تجسس زوروں پر ہوتا ہے اور اصول توڑنے میں بہت مزہ آتا ہے اس کا ایک حل ہے کھلی بات چیت اور دوسرا حل ہے متبادل فراہم کرنا۔ بھائی صاحب نے ہمیں ”سو بڑے لوگ“، ”سو بڑے آدمی“ ”پیارے نبی کی پیاری کہانیاں“ اور ”ایجادوں کی کہانیاں“ قسم کی بہت سی کتابیں لا کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن جو چسکا لگ چکا تھا اسنے کئی سالوں افسانوں، ناولوں اور ڈائجسٹوں میں الجھاے رکھا لیکن یہی ڈائجسٹ پھر ادب اور شاعری سے پہلا تعارف بنے اور ایک سلسلہ چل نکلا ساتھ ساتھ ڈی ایچ اے کالج اور پھر سر سید یونیورسٹی جیسی درسگاہوں اور اساتذہ نے شوق اور ذوق کی صحت مند نشو نما کی جس نے ایک مقام پہ جا کے قلم تھما دیا۔

آج کل اپنے اطراف جب میں زبان کے فرق یا کسی اور وجہ سے بچوں کا اپنے دادا دادی اور نانا نانیوں سے منقطع رابطہ اور صفر بات چیت دیکھتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ والدین کو احساس دلایا جا سکے کہ ان کے بچے تربیت کی ایک کتنی بڑی تجربہ کار درسگاہ سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نانی اماں اور ہمارے بزرگوں کے درجات بلند کرے اور انھیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ آمین

تصویر میں اماں کی ستر کی دہائی میں بنائی جلدوں والی کچھ کتابیں جو اب بھی محفوظ ہیں *


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).