عورت کی حیثیت متعین کرنے والے کنوئیں کے مینڈک


یہ کہانی سب نے سنی ہو گی کہ جب سمندر کا ایک مینڈک کنوئیں میں رہنے والے مینڈک سے ملا اور اسے سمندر کی وسعت کے بارے میں بتایا تو کنوئیں میں رہنے والے مینڈک نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ اسنے کبھی اپنے کنوئیں سے باہر دیکھا ہی نہیں تھا تو وہ سمندر میں رہنے والے مینڈک کی باتوں کو فریب سمجھا۔

حد جہاں کیا ہے یہ دیکھنے والے کی نظر پہ منحصر ہے۔ ہم نے دیکھا کہ عورت مرد کے تابع ہوتی ہے۔ اس کا کام پالنا، شوہر کی وفادار رہنا اور دعائیں کرنا ہے۔ ہم نے طے کر لیا کہ یہی اس کا صحیح مقام ہے۔ اپنے جسم پہ اپنی مرضی کا حق مانگنے والی کو اچھی عورت کے مرتبہ سے گرا ہوا سمجھتے ہیں۔ ایک آزاد اور خودمختار عورت کو ہم نقص امن سمجھتے ہیں جس سے ہمیں خوف آتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں یہ کیسے ممکن ہے؟

مشرقی عورت کی فطرت اور ہے مغربی کی اور۔ یہ چند باغی عورتیں قدرت کے بنائے نظام میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ لیکن عورت کی یہ حیثیت جسے ہم فطری سمجھ بیٹھے ہیں، دنیا میں زرعی آبادیوں کے قیام کے بعد متعین ہوئی۔ یہ تقریباً دس سے بارہ ہزار سال پرانا واقع ہے۔ انسانیت کی تاریخ میں یہ بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔

ایک زمانے تک غلامی کو بھی فطری ہی سمجھا جاتا تھا۔ یہ تصور محال تھا کہ غلاموں کے بغیر نظام دنیا چل سکتا ہے۔ لیکن پھر وقت نے ثابت کیا کہ حاکم جسے خدا کا نظام اور اس کی قائم کردہ اختیار کی تقسیم کہتے تھے وہ جھوٹ تھی۔

ہم نے اچھی اور بری عورت کا خاکہ سا بنا رکھا ہے۔ جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں اسے فطری بھی سمجھتے ہیں۔ یہ معیار صدیوں سے چل رہے زرعی نظام میں معاشی اور سماجی عوامل کی پیدا کردہ اخلاقیات کا نتیجہ ہیں۔ اب سائنس انسانی فطرت کے بارے نئے حقائق سامنے لا رہی ہے۔ جنہوں نے اچھے اور برے کے پرانے معیاروں کا کھوکھلا پن واضح کردیا ہے۔ ان ’اچھوں‘ میں سے زیادہ تر نا صرف جبر کا دوسرا نام ہیں بلکہ انسانی خوشیوں کے قاتل ہیں۔

ہمیں عورت کی بدلتی حیثیت کا احترام کرنا چاہیے۔ انسانی حقوق پہ ان کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ اور اس کی مرد کے مقابلے میں کیا حیثیت ہونی ہے یہ وہ خود طے کرے گی کیونکہ یہ اس کا اختیار ہے۔ اور نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ہمارے اخلاقیات کے پیمانے کتنے بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ پرانے کو چھوڑنا مشکل تو ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے تخفظ کا احساس دیتا ہے لیکن ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ تانگہ بھلے اچھا تھا لیکن موٹروے پر نہیں چلایا جا سکتا۔ یہ واضح ہے کہ پدر سری نظام عورت پر جبر کرتا ہے اور انسانیت کے لے بھی نقصان دہ ہے اس طرح کہ آمرانہ نظم پر آمادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ آگے بڑھنا ہے تو ہمیں کنوئیں سے باہر دیکھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).