ایک بیٹے کی اپنے باپ سے گفتگو


ایک تاریکی اچانک آئی اور مجھے نگل گئی

پہلے پہل تو لگا تھا جیسے محض سُن کی سی کیفیت ہے مگر اُس کے پیچھے ایک بھیانک خلا بھی چھپا ہوا تھا جو ایک دم سے میرے پورے وجود کو نگلتا ہی چلا گیا اور پھر لمحے بھر میں میرا پورا بدن بے وزن ہوتا چلا گیا، سب کچھ ختم ہوگیا۔

نہ تو کوئی احساس، نہ کوئی خیال، نہ تو کوئی درد اور نہ ہی سکون۔

زندگی زندگی کے ساتھ آئی اور موت کے ساتھ موت، شاید یہی حقیقت تھی مگر شاید یہی افسانہ۔

دو سال کا تھا میں، جب پہلی بار آپ کو محسوس کیا تھا اُس سے پہلے کا تو مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ ایک انجانہ سا احساس یا ایک نازک سی کونپل کی طرح کا خیال، آپ میرے اندر ایک محبت، ایک احترام کی صورت میں پیدا ہوئے تھے۔

۔ آپ میرے ڈیڈی ہیں اور میں آپ کا بیٹا۔

میں آپ سے پیدا ہوا ہوں بدن کی صورت اور آپ مجھ میں پیدا ہوئے ہیں ایک خیال کی صورت۔

۔ یہ میں ہوں اور یہ آپ

اور پھر یہ ہوا کہ وقت کا بہتا دریا ہمیں اپنی لہروں میں بہا کر لے جانے لگا اور پھر ایک ایسا لمحہ آگیا کہ کچھ عجیب بات ہوئی،

:آپ میں بن گئے اور میں آپ۔ جب ایک شام اپنی بوڑھی پلکوں کے پیچھے سے آپ نے مجھے جھانک کر دیکھا اور پیار سے کہا

سنو، یہ جو تم مجھے اپنے ہاتھوں سے بچوں کی طرح کھانا کھلا رہے ہو، میں تمھارا باپ ہوں یا تم میرے باپ؟

جی، میں نے سوچا، یہ احساس کا احساس سے کیسا کلام ہے؟ یہ خیال کی خیال سے کیسی گفتگو ہے؟ کیا ہم وجود کی معنویت سے آگے نکل گئے ہیں؟ کیا ہم رشتوں کے آہنگ سے باہر نکل آئیں ہیں؟

اور پھر لمحے بھر میں کونپل کا سا وہ احساس جو میرے اندر شاید دوسال کی عمر میں پیدا ہوا تھا اچانک پھیل کر ایک مجسم خیال کی صورت میں ڈھل گیا اور پھر ایک حواس بن کر میرے پورے وجود کو ہی نگل گیا۔

۔ مجھے نہیں معلوم ڈیڈی آپ سے میرا کیا تعلق ہے؟ کیا رشتہ ہے میرا آپ سے؟ یہ جو بھی ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ یہی تعلق ہر ایک جنم میں میرا آپ سے رہے، میں یونہی ہر ایک اتفاق سے آپ کا حصہ بننا چاہتا ہوں، میں یونہی آپ کے وجود کی نرمی سے اپنے کسی عدم کو زندگی کا روپ دینا چاہتا ہوں، میں یونہی ہر جنم میں آپ کے قدموں میں بیٹھنا چاہتا ہوں، میں یونہی آپ کے سائے میں زندگی کی تمازتیں سہنا چاہتا ہوں، میں یونہی آپ کی موجودگی میں وقت گزرنا چاہتا ہوں۔

مگر وقت تو ختم ہوجاتا ہے تو پھر کیا ہو ڈیڈی جو ہمیشہ رہے؟

میں نے جب آپ کی دانشمندانہ آنکھوں سے پوچھا تو مجھے لگا جیسے اُن کی پُتلیوں میں میری معصوم خواہشوں کا جواب لکھا ہوا تھا۔

اپنے اندر کے شور کو پہچانو بلند، اِس شور میں ہی سکون چھپا ہوا ہے۔

اور میں آپ کے چہرے کو تکنے لگا۔ آپ چپ چاپ اپنے آپ میں کھوئے ہوئے تھے، شاید آپ اپنے سکون میں تھے اور میں اپنے شور میں۔

میرا شور جو گونج بن کر کسی بازگشت کی صورت مجھ میں سے نکل کر مجھ تک ہی لوٹ رہا تھا۔ وہ میرے آنسو بن کر میرے دل کو بھگو رہا تھا، وہ میرے زخم بن کر میرے خلیوں میں اُتر رہا تھا۔ کیا شور اور سکون کے درمیان کوئی سہل راستہ نہیں ہے؟

ڈیڈی میں اُس سفر پر نکلنا چاہتا ہوں جس کی منزل آپ تک پہنچتی ہے۔

میں لکھنا چاہتا ہوں ڈیڈی، بہت اچھا لکھنا چاہتا ہوں، کچھ ایسا جو کبھی بھی کسی نے نہ لکھا ہو، کچھ ایسا جو کبھی بھی کسی نے نہ سنا ہو۔

میں نے ایک دن بچوں کی طرح سے ٹھنک کر آپ سے کہا۔

خواہشوں سے خود کو یوں بھر لو کہ خواہشوں سے آزاد ہوجاو، علم کو خواہشوں کی منزل سمجھو اور دانائی کو آزادی کی منزل۔

مجھے تو یہ، یہ ہی محسوس ہوا تھا جب آپ نے مجھ سے کہا تھا:

تخلیق کا سفر تخیل سے تکمیل کی طرف صرف علم کی راہ سے ہو کر گزرتا ہے اور یہ سفر ایک انجان مسافر کی طرح طے کرنا پڑتا ہے۔

ہاں، مگر ڈیڈی ہر انسان کی خواہش تو ہوتی ہے نا کہ اُس کے بعد اُس کا نام دنیا میں رہے اور جو نہ بھی رہے تو کم از کم اُس کی موجودگی میں ہی سہی اُسے ایک وقار ایک مرتبہ ملے تو کیا انجان ہونا یا رہنا ایک شعوری کیفیت کا نام ہے یا محض ایک لاشعوری عمل؟

بیٹا اُس کے لیے تمھیں جدید فکر سے آرستہ ہوکر بدھا کو بھی پڑھنا ہوگا، آپ نے مسکرا کر کہا۔

تم گیتا بھی پڑھو اور قران بھی، مارکس بھی پڑھو اور موسی بھی، اقبال بھی پڑھو اور نطشے بھی۔

مجھے یوں لگا تھا جیسے آپ یونانی دیومالائی کہانی کے کردار سائفس کو مجھ میں اُتارنا چاہ رہے ہیں کہ میں بھی اُس کی طرح اپنی فکر ناتواں کے کمزور کندھوں پر شعور و دانائی کے بھاری بھر کم بوجھ کو اُٹھا کر منزل کے سفر کو ہی اپنی منزل بنالوں۔

اور پھر میں کبھی رینی ڈیکارڈ بن کر آپ کے اِن لفظوں میں جینے کی کوشش کرنے لگا:

میں سوچتا ہوں اس لیے میں شاید زندہ ہوں

ممکن ہے یہ گمان، حقیقت کا روپ دے

تو کبھی منصور الحاج بن کر آپ کے ان معنوں میں خود کو ڈھونڈنے لگا:

کھلا کے لا ہی حقیقت ہے لا ہی افسانہ

عدم وجود میں پوشیدہ ہے خدا کی طرح

مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے برس پر برس اُترتے چلے گئے، موسم سارے ہی گزرتے چلے گئے۔

جیسا کہ ہرکلیٹس نے کہا تھا :

ناممکن ہے ایک بہتے ہوئے دریا میں کوئی انسان دوبار اپنے قدم ایک جیسا ہی بھگو سکے کہ نہ تو دریا کا پانی اور نہ اُس انسان کے قدم پھر ایک سے رہتے ہیں۔

اور پھر آپ نے بھی تو یہی کہا تھا نا۔ کہ دریا رکا ہوا ہے اور بہے جارہے ہیں ہم

اور پھر مجھے بھی تو اندھا یقین تھا نا۔ کہ شاعر اور فلاسفر کبھی بھی بوڑھے نہیں ہوتے

مگر یہ نہ ہوا اور سلسلے باتوں کے کم سے کم ہوتے چلے گئے، آپ کیا خاموش رہنے لگے گویا دانائی کے موتی میرے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے۔

چپ چاپ آنکھیں بند کرکے گھنٹوں لیٹے رہتے، نہ جانے کیا آپ سوچتے رہتے، خود کلامی کرتے اور پھر چپکے سے سوجاتے۔

لفظ احساس میں اور قربت معنوں میں ڈھل گئی۔

سنیے ڈیڈی، آپ نے چپکے سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا، مسکرائے اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔

کیا تھوڑی دیر کے لیے باہر چلیں؟

نہیں تم جاو، میں بچوں کی طرح پھر ضد کرتا، چلیں نا دیکھیں دھوپ کتنی اچھی نکلی ہوئی ہے، موسم کتنا خوشگوار ہے باہر۔

آپ نے پھر آنکھ کھولی مجھے دیکھا اور پھر امی کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور پھر سے آنکھیں بند کرلیں۔

مجھے لگا جیسے وہ اُس لمحے امی سے باتیں کررہے تھے :

تم تو جاچکی ہو دنیا سے، میں بھی کچھ دن میں آنے والا ہوں

زندگی کو تو آزما ہی چکا، موت کو آزمانے والا ہوں

ڈیڈی مجھے معلوم ہے ہونا نہ ہونے کو اور نہ ہونا ہونے کو پیدا کرتا ہے اور تاریکی کے بغیر روشنی کا تصور ممکن نہیں مگر کبھی کبھی نہ ہونے سے کچھ بھی نہیں پیدا ہوتا ہے اور کبھی کبھار تاریکی میں روشنی تو کیا اندھیرا بھی دونوں ہی اپنے معنی کھو دیتے ہیں اور لفظ اپنی تاثیر، دونوں ہی بے معنویت کی کوکھ میں خود کی تخلیق کے انتظار میں بوڑھے ہوکر مرجاتے ہیں۔ ڈیڈی کیا پتہ میری تقدیر میں بھی کچھ ایسا ہی لکھا ہو؟

میں دوزانو ہو کر آپ سے پھر ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ میں اور عیسی میں ایک قدر مشترک بھی تھی کہ جس معنویت میں خدا اُن کا باپ تھا اُسی معنویت میں آپ میرے۔ تو کیوں نا میں مذہب اور وجودیت کے ملاپ سے عشق و حکمت کا اتصال آپ سے طلب کرلوں؟

اچھا ڈیڈی ہماری زندگیوں نے ہمیں ملایا تھا نہ

اور سچ تو یہ ہے کہ خوب ہی ملایا تھا

مگر افسوس ہماری موت بھی اب ہمیں ایک دوسرے سے ملا نہیں سکتی

کہ میں زندگی بعد الموت جیسے افسانوں پر یقین نہیں رکھتا

مگر ہاں۔ اتنا یقین رکھتا ہوں

کہ میرے لفظ جو معنی سے بھر جائیں

ہمارا رشتہ کبھی بھی توڑنے نہیں دیں گے

تو بس یہ آخری ضد ہے میری آپ سے

ایک بیٹے کی اپنے پیارے باپ سے

میرے لفظوں کو وہ اعتبار عطا کردیجیے

کیا معلوم میری یہ فریاد صدیوں کے کسی آوارہ لمحے میں، جگہوں کے کسی بھٹکتے ہوئے اندھیرے میں کب، کہاں اور کیسے ایک خوش نصیبی کا استعارہ ہی بن جائے اور جو نہ بھی بن پائے تو کیا، کم ازکم اس جنم میں ہی سہی آپ کو پانے کے لیے میرے دل کے کمرے میں تو آپ ہے ہی نا؟

دروازہ کھولا

تو وہ کمرے میں ہی تھے

ارے میں تو ڈر گیا تھا

کہ آپ نہیں ہیں

انہوں نے مجھے مسکرا کر دیکھا

اور کہا

نہیں۔ میں یہیں ہوں

تمھارے دل کے کمرے میں

۔ ہمیشہ

مجھ کو معلوم نہیں ڈیڈی، میں کیا باتیں کررہا ہوں، کیا لکھ رہا ہوں میں، کیا سن رہا ہوں

نہ جانے یہ شعور کی گفتگو ہے یا لاشعور میں، نہ جانے یہ کیفیت دل کی ہے یا کوئی دیوانگی ہے ذہن کی؟

دیوانگی ہی تو تھی وہ جب میں نے خدا سے نظریں ملا کر امی کی تصویر آپ کے احرام میں رکھ دی تھی

کیسے چھوڑ آتا میں تنہا قبر کے کمرے میں آپ کو، کیا جواب دیتا میں پھر امی کو؟

ڈیڈی، آپ کے کمرے کی دیواریں، بستر کی سلوٹیں، امی کی تصویریں، آپ کا قلم، عینک، کپڑے، کتابیں، البم، ڈائری، باتوں کی خوشبو، یادوں کی مہک ہر ایک شے کمرے میں یونہی بسی ہوئی ہے۔ اب میں ان کا کیا کروں؟ آپ کے جانے کے بعد میں روز کمرے میں جھانکتا ہوں، سوچتا ہوں کہیں سوتے میں لحاف بدن سے نہ سرک گئی ہو، کہیں پنکھے کی ہوا سر پر نہ لگ گئی ہو، چلو چپکے سے مفلر سر پر لپیٹ دیتا ہوں یا دھیمے سے لحاف ٹھیک کر دیتا ہوں، پنکھا تیز کردوں یا آہستہ، پردوں کو برابر کر دوں یا ہٹا دوں؟

مگر پھر کچھ اور سوچ کر کمرے سے چپ چاپ باہر نکل آتا ہوں

دروازہ آہستہ سے بھیڑ دیتا ہوں

کہ کہیں کوئی شے کمرے سے نکل نہ جائے۔

آتش کدہ ہے سینا مرا راز نہاں سے

اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).