نواز شریف کو کس طبی پیچیدگی کا سامنا ہے؟


پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے تاہم وفاقی وزیر قانون فروغ کے مطابق وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے سفارشات پر فیصلہ محفوظ کیا ہے جسے کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

گزشتہ کئی دن سے نواز شریف کی صحت، ان کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت اور ان کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کا معاملہ پاکستان میں سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔

شریف خاندان یا مسلم لیگ نون کی طرف سے حتمی طور پر یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ نواز شریف کا لندن میں کہاں سے علاج کرایا جائے گا لیکن امکان ہے کہ انھیں لندن کے ہارلے کلینک اسی معالج کے پاس لے جایا جائے گا جو اس سے قبل سنہ 2016 میں ان کی دل کی بیماری کا علاج کر چکے ہیں۔

نواز شریف کی طبی صورتحال اور انھیں درپیش پیچیدگیوں سے بخوبی واقف ایک ڈاکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ نواز شریف کے قلب کا مناسب علاج نہ ہونے سے ان کی صحت کو بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر جنھوں نے آغاز سے نواز شریف کے امراضِ قلب کا علاج کیا وہ بہتر جانتے ہیں کہ انھیں کس صورتحال میں کون سی دوا دینی ہے۔

’یہ کام کہیں بھی موجود کوئی بھی اور ڈاکٹر کرنے سے ہچکچائے گا اور قوی امکان ہے کہ نہیں کرے گا کیونکہ اس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں جنھیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔‘

ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ نواز شریف کے معاملے میں پیچیدگی یہ ہے کہ ایکیوٹ آئی ٹی پی کا علاج کرنے والا ڈاکٹر جب دیکھے گا کہ مریض کو دل کا دورہ پر رہا ہے اور ایکیوٹ آئی ٹی پی کی موجودگی میں ہی کچھ کیا جائے تو ہارٹ اٹیک قابو سے باہر ہو جائے گا۔‘

دوسری طرف ’دل کی بیماری کا علاج کرنے والا ڈاکٹر کہے گا کہ دو ہزار پلیٹلیٹس کی تعداد پر تو انھیں کوئی دوا دی ہی نہیں جا سکتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوتی ہے اسے سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہاں پر زندگی اور موت کے معاملات آ جاتے ہیں۔

’میں نہیں چاہوں گا کوئی اور ڈاکٹر مجھے ہاتھ لگائے‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نے نواز شریف کو لاحق دل کی بیماری کی نوعیت کا حوالہ ضرور دیا تاہم وہ اس کی تفصیلات نہیں بتانا چاہتے تھے اور نہ ہی چاہتے تھے کہ ان پر عوامی تبصرہ کیا جائے کیونکہ ان کے مطابق ’یہ کسی بھی مریض کا حق ہے کہ ڈاکٹر ایسی تفصیلات خفیہ رکھے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا ’جس ڈاکٹر نے جس جگہ پر بھی میرا علاج کیا ہے، دل کا بائی پاس بھی اس ڈاکٹر سے ہی کروایا، دوائیں بھی وہی متعین کرتا ہے تو میں اسی کے پاس جانا چاہوں گا۔ میں نہیں چاہوں گا کہ کوئی اور ڈاکٹر مجھے ہاتھ بھی لگائے۔ نواز شریف کی یہی صورتحال ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ڈاکٹر کے لیے مشکل صورتحال بن جاتی ہے جب اس کے سامنے کسی مریض کو دل کا دورہ پڑ رہا ہو اور وہ خود کو بے بس محسوس کرے کہ میں اسے کون سی دوا دوں۔

ان کے خیال میں ’نواز شریف ایسے ہی مریض جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔‘

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں تو اگر مریض کسی بڑی پیچیدگی سے بچا ہوا ہے تو یہ ایک موقع ہے کہ اس کو موضوع علاج جلد سے جلد فراہم کر دیا جائے۔

’ایئر ایمبولینس کی ذریعے لندن جائیں گے‘

پاکستان مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں بتایا کہ نواز شریف کو لندن منتقل کرنے کے لیے ایئر ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا ہے جو بدھ کے روز پاکستان آئے گی۔

ڈاکٹر کے مطابق ایئر ایمبولینس میں سفر زیادہ آرام دہ نہیں ہوتا تاہم اس میں وینیٹی لیٹر کا انتظام موجود ہوتا ہے۔

’اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر سفر کے دوران مریض کو دل کا دورہ وغیرہ پڑے تو اس پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔‘

ڈاکٹر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اگر نواز شریف کے پلیٹلیٹس کاؤنٹ نارمل رہے جو کہ 30 ہزار ہونا چاہیے تو وہ سفر کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ان کو اسٹیرائیڈز دیے جائیں گے۔

’اسٹیرائیڈز دنیا بھر میں ایکیوٹ آئی ٹی پی کا تسلیم شدہ علاج ہے۔ اس طرح مدافعاتی نظام کو پلیٹلیٹس پر حملہ آور ہونے سے روکا جاتا ہے جس سے ان کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘

نواز شریف کو حالیہ پیچیدگی کیسے پیدا ہوئی؟

یاد رہے کہ نواز شریف کو حال ہی میں ان کے جسم میں پلیٹلیٹس کی خطرناک حد تک کمی کی وجہ سے کوٹ لکھپت جیل سے لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ڈاکٹرز کے ایک پینل نے ان میں اکیوٹ آئی ٹی پی کی تشخیص کی تھی۔

یہ بیماری اس وقت ہوتی ہے جب انسان کے جسم کا مدافعاتی نظام اس کے پلیٹلیٹس کو مضر خلیے تصور کر کے ان پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور انھیں ختم کرنا شروع کردیتا ہے۔

پلیٹلیٹس خون میں گردش کرتے وہ ذرے ہوتے ہیں جو جسم سے خون کے انخلا کو روکتے ہیں یعنی انجماد میں مدد دیتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ایکیوٹ آئی ٹی پی کی بیماری جب بالغ افراد میں ظاہر ہو تو عموماً تاحیات رہتی ہے۔

تاہم ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ دواؤں کی مدد سے اسے قابو میں رکھا جا سکتا ہے اور مریض معمول کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔ تاہم نواز شریف کے معاملے میں ان کو لاحق عارضہ قلب صورتحال کو پیچیدہ کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp